آزادی صحافت پر ممکنہ امریکی حملہ......ایک
لمحہ فکریہ
سیانے سچ کہتے ہیں کہ ”کھسیانی بلی کھمبا ہی نوچتی ہے “ امریکی مہارانی
ہیلری کلنٹن کا پاکستانی میڈیا کے بارے میں دیا گیا بیان دراصل اِسی ہذیانی
کیفیت کا آئینہ دار ہے، جس میں محترمہ نے پاکستانی میڈیا کے حوالے سے اپنے
نادر و نایاب فرمودات کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا کہ ” پاکستانی میڈیا میں
امریکہ کے خلاف جو منفی پروپیگنڈہ چل رہا ہے، اُس کا بھرپور اور جارحانہ
جواب دیا جائے گا اور اِس مقصد کے لئے ایک خصوصی ٹیم پاکستان بھیجی جارہی
ہے، محترمہ کا کہنا تھا کہ امریکہ نے کئی مہینوں تک پاکستانی حکومت کے ساتھ
مل کر کیری لوگر بل تیار کیا جسے پاک امریکہ تعلقات میں اہم سنگ میل سمجھا
جارہا تھا، لیکن میڈیا میں اِس پر منفی ردعمل سے ہم تشویش کا شکار ہوگئے
ہیں، انہوں نے کہا کہ ہم پاکستانی میڈیا پر آنے والی تمام خبروں کا جائزہ
لے رہے ہیں، جو مکمل طور پر غلط ہیں اور ان خبروں کا مؤثر جواب دینے کی
ضرورت تھی جو ہم نے نہیں دیا، اب ہم بہت تیزی سے ان خبروں کا جواب دیں گے،
ہم کسی غلط خبر اور اٹھائے گئے سوال پر خاموش نہیں رہیں گے، انہوں نے کہا
کہ یہ انتہائی افسوسناک ہے کہ امریکہ کے بارے میں بداعتمادی بڑھ رہی ہے ہم
نے کیری لوگر بل پر ردعمل دیکھا ہےاور ہم اس پروپیگنڈہ کا مقابلہ کریں گے،
امریکی وزیر خارجہ کی جانب سے پاکستانی میڈیا کے لئے اس کھلی دھمکی کی وجہ
یہ ہے کہ پاکستانی میڈیا امریکہ کے اصل ناپاک عزائم کو بڑی دلیری سے بے
نقاب کر رہا ہے اور چاک و چوبند، چوکس اور محب وطن میڈیا کی وجہ سے امریکہ
کے اہداف متاثر ہو رہے ہیں اِس لئے اس کے لہجے میں جارحانہ پن نمایاں نظر
آرہا ہے۔
دوسری طرف امریکی وزیر خارجہ کے اس بیان پر ملک بھر کی صحافتی تنظیموں نے
سخت ردعمل کا اظہار اور اسے سختی سے رد کرتے ہوئے اس عزم کا اعادہ کیا کہ
پاکستانی میڈیا امریکہ کی ہر قسم کی جارحیت کا بھر پور مقابلہ کرے گا،
قارئین محترم آپ کو یاد ہوگا کہ چند سال قبل تک پاکستان میں اتنا چاک و چو
بند اور بیدار الیکٹرانک میڈیا نہیں تھا، جس کی وجہ سے عوام کو حالات سے
صحیح آگاہی نہیں ہوتی تھی اور حکمران وقت بھی عوام کی آنکھوں میں دھول
جھونکتے تھے، حکومتی اثر و رسوخ اور پابندیوں کی وجہ سے عوام کے سامنے اصل
حقائق کو مسخ اور زہر ہلاہل کو قند بنا کر پیش کیے جانے کی وجہ سے وطن عزیز
کے معصوم اور سادہ لوح عوام دھوکے میں آجایا کرتے تھے جس کی وجہ سے امریکہ
کی پاکستان میں اکثر سرگرمیوں کا عوام کو پتہ ہی نہیں چلتا تھا، لیکن
الیکٹرانک میڈیا کے آجانے کے بعد، اب منظر نامہ بدل چکا ہے، آج پاکستانی
میڈیا کو جو آزادی حاصل ہے اس کے پیچھے میڈیا کی طویل جدوجہد اور قربانیاں
ہیں، میڈیا کی اس آزادی کیلئے صحافیوں نے کوڑے کھائے اور قید و بند کی
صعوبتیں برداشت کیں، تب جا کر میڈیا کو یہ دن دیکھنا نصیب ہوا ہے، لہٰذا
دیکھنا یہ ہے کہ ایسی صورت میں سخت محنت، جدوجہد اور قربانیوں کے بعد حاصل
ہونے والی آزادی صحافت پر قدغن کیا پاکستانی میڈیا آسانی سے برداشت کرلے گا،
اس سوال کا جواب تو آنے والا وقت ہی بتائے گا۔
لیکن حکومت کی طرف سے میڈیا پر عائد بعض پابندیوں اور امریکی وزیر خارجہ کے
دھمکی آمیز بیان کے تناظر میں یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ پاکستانی میڈیا پر
کڑا وقت آنے والا ہے، حقیقت یہ ہے کہ حکمران تو پہلے ہی میڈیا کے آزادنہ
کردار، بے لاگ تبصروں اور حقائق پر مبنی رپورٹوں سے خائف اور شاکی ہیں اور
ان کی یہی کوشش رہی کہ میڈیا کی آزادی کو سلب کیا جائے، اس مقصد کیلئے ہر
حکومت نے میڈیا پر قدغنیں لگانے کی کوشش کی، لیکن اس میں کوئی شبہ نہیں کہ
ہمارے میڈیا نے آئین و جمہوریت کی بحالی اور مشرف آمریت کے خاتمہ میں
جاندار اور فیصلہ کن کردار ادا کیا ہے، گزشتہ چند سالوں میں متعدد مرتبہ
ایسے مواقع بھی آئے کہ میڈیا نے قومی سلامتی، جمہوری اداروں کے استحکام اور
عوامی مسائل کے حل کے لئے حکومت اور پارلیمنٹ سے آگے بڑھ کر اپنی ذمہ
داریاں پوری کیں، یہ ہمارا بہادر میڈیا ہی تھا جس نے عدالتی بحران میں وکلا
سیاسی جماعتوں اور سول سوسائٹی کو لیڈ کیا اور جس کے نتیجہ کے طور پر پرویز
مشرف کو وردی اتارنے کے ساتھ ساتھ ایوان صدر سے بھی رخصت ہونا پڑا، جبکہ
حقیقت یہ ہے کہ آج ہمیں بیدار و چوکس میڈیا کی بدولت جہاں پل پل کی خبر مل
رہی ہے وہیں امریکی امدادوں اور عنایتوں کے پس پردہ خوفناک ارادے و عزائم
بھی ہمارے سامنے آرہے ہیں۔
مختلف ٹی وی چینلز پر میزبان، دانشور اور آئینی و قانونی ماہرین جہاں
امریکی سازشوں کو طشت ازبام کررہے ہیں، وہیں حقیقت حال بھی آشکارا کررہے
ہیں، پاک فوج کے پر وقار ادارے کی ساکھ کا معاملہ ہو، یا آمر وقت کی چیرہ
دستیاں یا پھر امریکہ کی منفی پالیسیاں، یہ میڈیا ہی تھا جس نے ہمیشہ حق کا
ساتھ دیا، کیونکہ اس نے قلم کی حرمت اور کیمرے کی آنکھ سے عوام کو درست
معلومات پہنچانے کی ذمہ داری لے رکھی ہے اور میڈیا سے یہ ذمہ داری کوئی سپر
پاور نہیں چھین سکتی، یہی وہ بنیادی وجہ تھی کہ جب کیری لوگر بل کی متنازعہ
شقوں کی بات چلی تو پاکستانی عوام کو دھوکہ دینے کے لئے ایک تشریحی ڈرافٹ
ساتھ لگا دیا گیا اور کہا گیا کہ ہم نے پاکستانی عوام اور فوج کے تحفظات کا
ازالہ کر دیا ہے، اگر صرف سرکاری ٹی وی چینل والا دور ہوتا تو شاید عوام
مطمئین ہو جاتے کہ امریکہ نے بڑی فیاضی سے کام لیتے ہوئے تمام شکایات اور
تحفظات کا ازالہ کر دیا ہے، ہر کڑے وقت میں سرکار کی خدمت کرنے والے دستر
خوانی قبیلے کے ماہرین امریکہ کی شان میں زمین آسمان کے قلابے ملا دیتے کہ
امریکہ نے پاکستان اور اس کے عوام کے ساتھ دوستی کا حق ادا کر دیا ہے۔
بلند و بانگ تبصرے کیے جاتے کہ امریکہ نے نہ صرف اربوں ڈالرز امداد منظور
کی بلکہ عوام اور فوج کی جانب سے اٹھائے جانے والے اعتراضات کو بھی دور کر
دیا، پاک امریکہ تعلقات ایک نئے عہد میں داخل ہونے جیسے عنوانات کی سرخیاں
جمائی جاتیں اور ممکن تھا کہ عوام کو میٹھے مشروب میں شرمناک اور ذلت آمیز
شرائط سے لبریر کیری لوگر بل کا زہر یلا مشروب پلا دیا جاتا اور انہیں خبر
بھی نہ ہوتی، لیکن اس کے برعکس ہوا یہ کہ محب وطن پاکستانی میڈیا نے وضاحتی
اور تشریحی ڈرافٹ کی نہ صرف دھجیاں اڑا کر رکھ دیں بلکہ قانونی اور آئینی
ماہرین کی زبان سے یہ بھی کہلوا دیا کہ اس ڈرافٹ کی کوئی قانونی حیثیت
نہیں، کیری لوگر بل میں جو شراط لگائی گئی ہیں انہیں ہر حال میں پورا کرنا
پڑے گا، جبکہ امر واقعہ یہ ہے کہ ہمارے حکمران کیری لوگر بل کی شرمناک
شرائط کے تحت امریکی امداد لینے کا تہیہ کرچکے، لیکن میڈیا اب بھی جذبہ حب
الوطنی کے تحت اس کے خلاف ڈٹا ہوا ہے اور عوام بھی اس بل کو کسی طور قبول
کرنے پر آمادہ نہیں ہیں، یہ ایسی صورتحال ہے جس سے امریکہ کو اس سے پہلے
کبھی واسطہ نہیں پڑا اور یہی چیز امریکی حکومت اور وزیر خارجہ کو مشتعل کر
رہی ہے، لہٰذا ان عوامل کی روشنی میں امریکی وزیر خارجہ کی طرف سے پاکستانی
میڈیا کو جو دھمکی دی گئی ہے اس کے اثرات بہت جلد سامنے آنا شروع ہو جائیں
گے، امریکی حکومت اپنی اس دھمکی کو عملی جامہ پہنانے کے لئے کیا راستہ
اختیار کرے گی اس حوالے سے کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا۔
لیکن دلچسپ امر یہ ہے کہ امریکی حکومت کی طرح پاکستانی حکومت بھی میڈیا سے
سخت شاکی ہے، خصوصاً الیکٹرانک چینل اس کے لئے درد سر بنے ہوئے ہیں، کیری
لوگر بل پر مباحث کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ، این آر او کی تند و تیز بحث،
حکومتی ارکان کے کرپشن کی دیومالائی کی کہانیاں، سرکاری خزانے پر عیش و
عشرت اور عیاشیوں کی داستانیں، ملک میں لاء اینڈ آرڈر کی خطرناک صورتحال
اور ان پر پل پل خبریں دیتے ہوئے نیوز چینل حکومت کو مکمل پریشان کیے ہوئے
ہیں، اب جبکہ امریکہ کی پریشانی بھی کھل کر سامنے آگئی ہے تو میڈیا کے لئے
خطرے کی گھنٹی بج اٹھی ہے، موجودہ حالات میں امریکی وزیر خارجہ کی جانب سے
میڈیا کو نشانہ بنانے کا اظہار اس امر کی دلیل ہے کہ امریکہ اپنے مفادات
کیلئے کچھ بھی کرسکتا ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ موجودہ حالات میں پاکستانی
میڈیا اس لوہے کے چنے کی مانند ہے جسے چبانے کی امریکی خواہش خود امریکہ کو
مہنگی پڑے گی اور پاکستانی عوام کو جو شعور میڈیا نے دیا ہے میڈیا پر
پابندیوں کی صورت میں عوام اس شعور سے کسی طور دست بردار ہونے کو تیار نہیں
ہونگے ۔
حقیقت یہ ہے امریکی وزیر خارجہ نے پاکستانی میڈیا کے بارے میں جو کچھ کہا
وہ آزادی اظہار رائے کے بین الاقوامی قوانین کے صریحاً کےخلاف اور منافی
ہے، سب سے زیادہ توجہ طلب اور خطرناک بات یہ ہے کہ امریکی وزیر خارجہ نے
ایک آزاد اور خودمختار ملک کے آزاد میڈیا سے نمٹنے کی بات کی ہے، کل کو
آزاد عدلیہ امریکیوں کے عزائم کی راہ میں رکاوٹ بنی تو یقینی طور پر امریکی
اس کی راہ میں بھی رکاوٹ بننے کی کوشش کریں گے، لہٰذا موجودہ حالات میں
ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستانی میڈیا کے ذمہ داران ان دھمکیوں کا سنجیدگی
سے نوٹس لے کر اس معاملے کو عالمی صحافتی تنظیموں کے ساتھ مل کر نہ صرف بین
الاقوامی فورم پر اٹھائیں بلکہ ملک کے تمام نیوز چینل و اخبارات پوری دلیری
کے ساتھ اس کا مقابلہ کریں کیونکہ اس وقت ہمارے سیاستدان مصلحتوں کا شکار
اور امریکہ سے ڈرے ہوئے ہیں اور کمزور حکومت اپنی مجبوریوں کی وجہ سے
امریکیوں کو آنکھیں دکھانے کے قابل نہیں ہے، رہ گئے عوام تو انہیں دال
روٹی، بجلی اور گیس جیسے بنیادی مسائل میں الجھا دیا گیا ہے، ایسے حالات
میں آزاد میڈیا اور عدلیہ ہی اس قوم کی آخری اُمیدہیں، اگریہ اُمید بھی ختم
ہوگئی تو پاکستان کو امریکی کالونی بننے سے کوئی نہیں بچاسکے گا۔ |