سچے مسلم لیگی رہنما غلام حیدر
وائیں کا قتل بے نظیر بھٹو کے قتل جیسا حادثہ بن گیا ہے۔ ابھی تک اس کے
قاتلوں کیخلاف کارروائی نہیں ہوئی۔ وائیں صاحب کی 16 ویں برسی پر مجید
نظامی نے کہا کہ میں نے وائیں صاحب کی شہادت پر نواز شریف سے کہا تھا مگر
کچھ نہیں کیا گیا۔ نواز شریف کی مسلم لیگ میں قائداعظم کا سپاہی ایک ہی تھا
اور وہ غلام حیدر وائیں تھا مگر ان کی موجودگی سے جتنا فائدہ مسلم لیگ ن
اٹھا سکتی تھی نہ اٹھا سکی۔ مجید نظامی نے شہباز شریف سے بھی کہا کہ وہ
وائیں صاحب کے لئے نئے سرے سے تفتیش کرائیں اور ان کے قاتلوں کو کیفر کردار
تک پہنچائیں۔ یہ ان کیلئے ایک امتحان ہے۔ امید ہے کہ وہ اس میں سرخرو ہونگے
مگر جس طرح موجودہ وفاقی حکومت اپنی قائد بے نظیر بھٹو کے خون کو خاک میں
ملائے جا رہی ہے۔ وائیں صاحب کا خون اس طرح رائیگاں نہیں جانا چاہئے۔
مجید نظامی کی سرپرستی میں نظریہ پاکستان ٹرسٹ کے زیر اہتمام وائیں صاحب کی
یاد سے دلوں کو آباد کرنے والی تقریب ہوئی۔ شاید پنجاب میں یہ واحد تقریب
تھی۔ اس کیلئے شاہد رشید نے مجھے بھی دعوت دی اور یہ میرا اعزاز تھا کہ میں
اتنے بڑے شخص کیلئے چند لفظ کہہ سکوں۔ جس ہال میں ہم تھے یہ عمارت وائیں
صاحب کا ایک تحفہ ہے۔ ان کا تحفہ تو پریس کلب بھی ہے مگر وہاں بھی تقریب
نہیں ہوئی۔ وائیں صاحب کی تصویر پریس کلب میں ہے اور ایوان پاکستان میں جسے
نظریہ پاکستان ٹرسٹ والے ایوان کارکنان تحریک پاکستان کہتے ہیں۔ تحریک
پاکستان کے تمام کارکنان اس جگہ کو اپنا گھر کہتے ہیں۔ ہم نے تحریک پاکستان
میں حصہ نہیں لیا مگر ہم ان لوگوں کے ساتھ بیٹھے ہیں تو ہم بھی تحریک
پاکستان کے کارکن ہیں۔
نظریہ پاکستان ٹرسٹ جو کچھ کر رہا ہے۔ شاہد رشید٬ رفاقت صاحب اور دوسرے
دوست مجید نظامی کی قیادت میں ایسا ماحول بنانے میں ضرور کامیاب ہونگے کہ
پاکستان میں پیدا ہونے والا ہر آدمی تحریک پاکستان کا کارکن ہوگا۔ پاکستان
کے اندر تحریک پاکستان جاری و ساری رکھنا ضروری ہے۔ غلام حیدر وائیں ایک
ایسا مسلم لیگی لیڈر تھا جس کے وجود میں قائداعظم کا پاکستان بنانے کی آرزو
وجد کرتی تھی۔ اس ہال میں علامہ اقبال قائداعظم مادر ملت کے علاوہ صرف ایک
شخص کی تصویر ہے اور وہ غلام حیدر وائیں کی تصویر ہے۔ یہ تصویر لوگوں کے
دلوں میں ہے۔ کسی نے صدر زرداری کی طرح بے نظیر بھٹو کی تصویر کو اقتدار کی
سیڑھی کے طور پر استعمال نہیں کیا۔ کسی حکمران یا جعلی لیڈر کی یہ تصویر
نہیں ہے۔ لوگ تو جاتے ہوئے حکمران کی جگہ فوراً نئے آنے والے حکمران کی
تصویر لگا دیتے ہیں۔
غلام حیدر وائیں کی تصویر پریس کلب میں ہے۔ یہ ہمارے صحافیوں کی جرأت
کردار کی گواہی ہے کہ وہ ایک سچے پاکستانی اور سچی مسلم لیگ کے لیڈر جیسا
مقام کسی کو نہیں دیتے۔ مسلم لیگ ن کیلئے اعزاز تھا کہ وہ اس مسلم لیگ میں
تھے مگر ان جیسا ایک آدمی بھی پھر اس مسلم لیگ میں پیدا نہیں ہوا اور مسلم
لیگ والوں نے اُنہیں بھلا دیا۔ ان کیلئے کوئی تقریب نہیں ہوئی۔ ن لیگ کی
قیادت کی طرف سے ایک بیان بھی نہیں آیا۔ پنجاب اور میاں چنوں کی
جاگیردارانہ سیاست اسے برداشت نہ کرسکی کہ مڈل کلاس کا ایک غریب آدمی کس
طرح صوبے کے سب سے بڑے عہدے پر فائز ہوا اور ثابت کیا کہ غریبی خوش نصیبی
بھی ہے۔ وہ شہید کئے گئے تو سب نے سوچا کہ اتنے بہادر سچے دیانت دار
نظریاتی اور غریب آدمی کو نالائق نااہل کرپٹ اور ظالم امیر کبیر لوگ کیسے
برداشت کرتے۔ اپنی جماعت میں لوگ ان کی عظمت کردار٬ درویشی اور انکساری سے
بیزار تھے۔ ان میں کوئی بھی ان کے جیسا نہ تھا۔ اس طرح ایک اور کمپلیکس ان
کے ساتھی سیاستدانوں میں پیدا ہو گیا تھا یہاں تو صرف پیسے کی سیاست چلتی
ہے۔ ایسے میں وائیں صاحب جیسا آدمی ان کیلئے اجنبی تھا مگر وہ ایک انوکھا
آدمی تھا اور بے مثال۔
بشریٰ رحمان نے وائیں صاحب کیلئے بڑی خوبصورت باتیں کیں۔ خان غلام دستگیر
خان کے ہاتھ میں عصائے پیری تھا مگر وہ سٹیج پر کھڑے ہوئے تو ان میں جوانوں
جیسا ولولہ پیدا ہوگیا۔ بریگیڈئر ظفر اقبال٬ نعیم چٹھہ٬ صفیہ اسحٰق٬ زعیم
قادری٬ محمد ارشد خان اور دوسرے دوستوں نے تقریر کی۔ کمپیئرنگ شاہد رشید نے
کی۔ مہمان خصوصی مجیدہ وائیں تھیں۔ محمد رفیق عالم نے وائیں صاحب کیلئے
اپنی کتاب مجید نظامی اور مجیدہ وائیں کو پیش کی۔ وہ اپنے مہمانوں کو بھی
دال روٹی کھلاتے تھے اور کھری چارپائی پر سوتے تھے۔ آپ کو اندازہ ہوگیا
ہوگا کہ اب وائیں صاحب جیسا آدمی سیاسی جماعتوں میں کیوں پیدا نہیں ہوتا۔
اب تو مسلم لیگ ن میں بھی ایک آدمی غریب آدمی نہیں۔ بے چارے کارکن تڑپ رہے
ہیں کہ وہ غریب لوگ ہیں۔ غریبوں کے نمائندے امیر کبیر نہیں ہو سکتے۔ ہماری
اسمبلیوں کی کارکردگی صفر ہے کہ وہ نمائندگی کا حق نہیں ادا کر سکی۔ جب تک
غلام حیدر وائیں جیسے آدمی اسمبلیوں میں نہیں ہونگے۔ وہ پاکستان ایک خواب
رہے گا جس کا خواب ہم دیکھتے ہیں۔ مجید نظامی نے کہا کہ وائیں صاحب نوائے
وقت کے عاشق تھے۔ وہ امرتسر سے ہجرت کر کے آئے تو ان کے پاس ایک صندوق تھا
جس میں نوائے وقت کے پرچے تھے
یہی کچھ ہے ساقی متاع فقیر.............. اسی سے فقیری میں‘ میں ہوں امیر |