ہندوستان میں فرقہ واریت کو ہوادینے والے شاید اس بات سے
ناواقف ہیں کہ وہ صرف کسی ایک فرقہ کو نشانہ نہیں بنار ہے ہیں بلکہ
ہندوستان کے آئین سے کھلواڑ کررہے ہیں ۔ جانبداری اور فرقہ پرستی سے جہاں
ملک اقتصادیات کے لحاظ سے کمزور ہوتا ہے ، وہیں دوسرے ممالک کے نگاہ میں
ہماری کمزوری کھل کر سمانے آجاتی ہے ۔ اس طرح رفتہ رفتہ ملک کمزور سے کمزور
تر ہوتاجاتا ہے ۔ اس لیے یہ کہنا مبالغہ نہیں کہ فرقہ پرستی کو ہوادینے
والے کسی ایک فرقہ کے دشمن نہیں بلکہ ملک دشمن ہیں ۔
دہرا معیار اور جانبداری کا کھیل آج ہندوستان میں وبا کی شکل اختیار کرگیا
ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ ذات پات کی بنیاد پر فیصلے صادر ہوتے ہیں ۔ مشکوک نظر
سے ایک فرقہ دوسرے فرقے کود یکھتا ہے ، جس کی وجہ سے ہندوستان کی آزاد فضا
میں فرقہ واریت کا زہر گھل جاتا ہے ۔ حکومت خواہ کسی پارٹی کی ہو ،
ہندوستانی سیاست کی بدقسمتی ہے کہ جانبداری کا کھیل ہمیشہ اپنے عروج پر رہا
ہے ۔ گذشتہ کل وارانسی میں بڑی مقدار میں دھماکہ خیز مواد کی برآمدگی ہوئی
ہے ، اس بھی میں فرقہ واریت کی جھلک اور جانبدارکا کھیل نظر آتاہے ۔
دھماکہ خیز اشیا کی برآمدگی کانہ یہ کوئی پہلا معاملہ ہے اور نہ ہی ان اشیا
کو اکسپورٹ امپورٹ کرنے میں برادران وطن میں سے کسی فرد کا نام پہلی دفعہ
جڑا ہے ۔2013اگست کے مہینہ کی ہی بات ہے کہ عین یوم آزادی سے قبل بڑی مقدار
میں دھماکہ خیز اشیا کی برآمدگی ہوئی ۔ 14فروری 2013کو پنے بم دھماکہ
ہواتھا ، اس دھماکہ میں جتنے لوگ ہلا ک ہوئے ، سو ہوئے۔ تاہم دھماکے بعد
تین لوگوں کو200کلو گرام امونیم نائٹریٹ ، 600ڈیٹو اور 200گلاٹن چھڑ یوں کے
ساتھ گرفتار کیا گیا ۔ اسی طرح 2008میں مہاراشٹر کے ضلع لاتور میں ایک
عالمی تبلیغی اجتماع کی تیاری شباب پر تھی ، لاتور کے آس پاس ہی بھاری
مقدار میں دھماکہ خیز اشیا برآمدہوئی تھی ۔ جس میں گیا رہ ملزمین کی
گرفتاری بھی عمل میں آئی تھی ، مگر پوچھ تاچھ کے بعد کوئی معاملہ حل نہیں
ہوپایا کہ آیا یہ اشیا کہاں سے آئی تھیں اور کہاں جا رہی تھیں۔ ہونہ ہو
تبلیغی اجتماع کو نشانہ بناکر یہ حکمت عملی اپنائی گئی ہو ، جو کہ وقت سے
پہلے ناکام ہوئی ۔ ہر معاملے کے بعدکوئی تین چار دن ہنگامہ ہوتا ہے اور
ایسی خاموشی چھا جاتی ہے کہ گویا کچھ ہوا ہی نہ ہو۔نشیلی اور مادہ خیز اشیا
کی برآمدگی کے یہ تودوتین واقعات ہیں ، اگر سرسری طور سے ہی پچھلے چند دنوں
کے واقعا ت پر نظر ڈالیں گے تو ایک لمبی فہرست تیار ہوسکتی ہے ۔
وارانسی کے لنکا ٹول ٹیکس میں پیش آئے تازہ ترین واقعے کے مدنظر کئی باتیں
کی جاسکتی ہیں اور ساتھ ہی ساتھ ایسے سوالات کھڑے کیے جاسکتے ہیں ، جن کا
جواب دینا پولس اہلکار ، انتظامیہ ، حکومت اور متعصب میڈیا گھرانے کے لیے
انتہائی مشکل کام ہو گا ۔اس واقعہ کی تفصیل کچھ یوں ہے کہ پولس نے جیسے ہی
ایک کار کو روک کر لنکا ٹول ٹیکس پر تلاشی لینے کی کوشش کی، ویسے ہی کار
روک کر پولس کو چکمہ دیتے ہوئے اس میں سوار دو نوجوان فرار ہوگئے اور پولس
کو تین بوری دھماکہ خیز مواد ہاتھ آیا ۔اس واقعہ پر سب سے پہلا سوال یہ
ہوگا کہ اتنی بڑی مقدار میں دھماکہ خیز اشیا کا ر میں کہاں سے لوڈ کی گئی ؟
یہ کار کہاں جارہی تھی ؟اس موقع پر پولس کس طرح غیر مستعد تھی کہ پولس کے
سامنے سے کار میں سوار دو نوجوان فرار ہوگئے ؟ کار کے ساتھ جس طرح پولس
والوں کی تصویر شائع ہوئی ہے ، اس سے صاف اندازہ ہوتا ہے کہ پولس کے ایما
اور اشارہ کے بغیر کوئی فرد وہا ں سے بھاگ نہیں سکتا ہے ، مگر افسوس پولس
کی مستعدی پر کار میں سوار نوجوا ن بھاگنے میں کام یاب ہوگئے ۔
اس واقعہ کا یہ پہلو بھی قابل توجہ ہے کہ کار سے کملیش نامی ڈارائیور کا
لائسنس بھی برآمدہوا ہے ، نام سے ہی واضح ہے کہ اکثریتی فرقہ سے اس کا تعلق
ہے ،یہاں پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر وملیش کی جگہ پر کسی’’ محمد نفیس‘‘
کا لائسنس برآمد ہوتا تو میڈیا اس واقعہ کو کس انداز سے لیتا ؟ یہی نابے پر
کی اڑاتے ہوئے اس واقعہ کو انڈین مجاہدین ، لشکر طیبہ ، طالبا ن اور جانے
کتنی خود ساختہ مسلم تنظیموں سے جوڑ دیتا ۔ بلا تحقیق و تفتیش’’ نفیس ‘‘ کے
ساتھ دگر نوجوانوں کو اس واقعہ سے جوڑنے کی کامیاب کوشش کی جاتی ہے ۔ قابل
توجہ بات یہ بھی ہے کہ پولس نے اس معاملہ کو دہشت گردانہ معاملے سے جوڑنے
سے انکار کیا ہے ، لیکن اسی جگہ کسی بھی اقلیتی فرقہ کے فرد کا نام سامنے
آتا یا پھر وملیش کی جگہ پر کسی نفیس کا لائنس ملتا تو فی الفور اس واقعہ
کو دہشت گردانہ معاملے سے جوڑ دیا جاتا ۔
ایسے مو قعہ پر حکومت و انتظامیہ سے زیادہ میڈیا ہی جانبداری کا مظاہر ہ
کرتا ہے کہ سارا معاملہ الجھ کر رہ جاتا ہے اور مسلمانوں کے تعلق سے لوگوں
کے دلوں میں میل بیٹھ جاتا ہے ، اس طرح مسلمانوں کو مشکو ک نگاہ سے دیکھنے
کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے ۔ کیا اس ناگفتہ بہ صورتحال میں میڈیا کی ذمہ داری
نہیں بنتی ہے کہ وہ غیر جانبداری کا مظاہر کرے ؟ کیا ایسے موقعے سے میڈیا
کو محتاط انداز نہیں اپنا نا چاہئے ؟ وارانسی کے لنکا ٹول ٹیکس کے اس واقعہ
کی تفتیش کے لیے بھی حسب سابق سیکورٹی ایجنسیاں ہاتھ پیر مارنے لگی ہیں ۔
دیکھنے کی بات یہ ہوگی ان ایجنسیوں کو کتنی کامیاب ملتی ہے ۔ کیاوہ واقعی
مادہ گیر اشیا کا پتالگالے گی کہ کہاں سے کہاں جارہی تھی ؟ اس کے درپر دہ
کون کون سے عناصر کام کررہے ہیں یا پھر ماضی کے واقعات کی طرح دو دنوں کی
کارروائی کے بعد اس مرتبہ بھی ایجنسیاں بالکل خاموش ہوجائیں گی ۔ |