انسانی جان کتنی ارزاں ہو سکتی ہے اسکا اندازہ
پاکستان کے حالات دیکھ کر بخوبی لگایا جا سکتا ہے معاملہ کراچی ائر پورٹ کے
کولڈ سٹوریج کا ہو یا منہاج القرآن کے بے گناہ مگر جذباتی کارکنوں کا ،چھ
سات لاشوں پر بین کرتے ہوئے ہمارے سیاستدانوں کے لئے یہ نہایت معمولی بات
ہے۔حد تو یہ ہے کہ ہمارے دھماکہ خیز بریکنگ نیوز والے میڈیا کو بھی اندازہ
نہیں کہ وہ اپنی ریٹنگ چمکاتے ہوئے در اصل قوم کو کس ذہنی انتشار کی طرف لے
جا رہے ہیں ، اور اس ذہنی انتشار کے سائے تلے پروان چڑھنے والی نسل کس قدر
تخریب کاری کر سکتی ہے اسکا اندازہ یا تخمینہ لگانے کی ہم میں اہلیت نہیں ۔ہم
اپنی آنے والی نسل کو خون پلا پلا کر خون آشام بنا رہے ہیں۔
برِ صغیر پاک و ہند میں انگریز جو سیاست چھوڑ گئے وہ صرف سیاستدانوں تک
محدود نہیں رہ گئی بلکہ یہ ہمارے ہر ادارے کو دیمک کی طرح چاٹ گئی ہے ۔
سیاستدان تو اب اسکا ایک معمولی آلہء کار ہیں
گذشتہ دنوں ہونے والے واقعات اس قدر الجھے ہوئے ہیں کہ فوری طور پر یہ فتویٰ
جاری کرنا کہ حالات کس نہج پر جائیں گے نہ صرف قبل از وقت ہوگا بلکہ mis
leading ــٰـً بھی ہوگا۔ تو پھر کیا ہم چپ چاپ تماشائی بنے ہوئے مستقبل کو
اپنے ہاتھ سے نکلتے ہوئے دیکھتے رہیں ؟ یا پھر کم از کم اپنے حقیقی دشمنوں
کو پہچانتے ہوئے انکے ہاتھ میں کٹھ پتلیوں کی طرح کھیلنا بند کردیں۔
مشکل کام ہے ۔۔۔ بہت مشکل، خاص طور پر آجکل کے دور میں جسکا خصوصی وصف
اظہارِ رائے کی بے لگام ،بے مہار آزادی ہے۔ پہلے تولو پھر بولو کے مقولے پر
عمل کرنے کی اشد ضرورت ہے مگر ہم ـ میں سے بہت سے تو ـــــــ’صرف بولو‘ــــ
پر یقین رکھتے ہیں اور باقی جو بچتے ہیں انہیں معاشرے کے ٹھیکیدار احتجاج
کی راہ پر ڈال دیتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔اس احتجاج کا فائدہ کس کو ہوتا ہے؟۔۔۔ کیا
مجھے؟یا آپ کو ۔۔۔ اس بات کو سمجھنے کے لئے کسی سائنس کی ضرورت نہیں
فائدہ حاصل کرنے والی مخلوق کوئی اور ہی ہے اور مرنے والی مخلوقِ خدا کوئی
اور۔۔۔۔
مرنے والا کولڈ سٹوریج میں پناہ لینے والا معمولی ملازم ہو ، علّامہ
طاہرالقادری کی جانثار پیروکار ہو، یا پاک فوج کا فرض شناس سپاہی ہو یا
افسر اپنے پیچھے ایک ان مٹ سوال چھوڑ جاتا ہے آخر کیوں؟؟
اس سوال کا جواب تو یقیناً کسی کو معلوم نہیں مگر اپنی خفّت مٹانے کے لئے
زندہ رہ جانے والے ان دیکھے نا معلوم مجرم کو کیفرِکردار تک پہنچانے کے لئے
سرگرمِ عمل ہو جاتے ہیں پکڑ دھکڑ کے نتیجے میں جو بھی قابو آتا ہے اسے
معاشرتی اصول و ضوابط کے مطابق کڑی سزا دی جاتی ہے اور ایک اور نسل اس سوال
کے ساتھ پروان چڑھنے کے لئے تیار کر دی جاتی ہے کہ آخر کیوں؟؟
ھمارے دانشور میڈیا نے کبھی ان سوالوں کے جواب تلاش کرنے کی کوشش نہیں کی
اور اگر کبھی کی بھی تو بہت ڈر کے، بہت سنبھل کے۔۔۔
لالچ بے بسی اور غصّے نے ہمیں اس قدر بے حس بنادیا ہے کہ ہم کوئی متوازن
اور حقیقت پسندانہ قدم اٹھانے کے لئے تیار نہیں سزائے موت، سزائے موت اور
صرف سز ا ئے موت۔۔۔۔۔۔
کیایہ سلسلہ کبھی تھمے گا ؟یا ہم آدم خور وں کی تلاش کرتے کرتے خود آدم خور
بنتے جا رہے ہیں ؟؟؟ |