ذہنی بیمار! ملک کیلئے زہر قاتل ہیں

پہلے تولو پھر بولو! اس ایک محاورے کی اہمیت و حقیقت ایک کائنائی سچائی (universal truth) ہے کہ انسان اس وقت معتبر اور معزز رہتا ہے جب تک خاموش رہتا ہے یا جب تک اپنی حیثیت اور اوقات سے بڑھ کربات نہیں کرتا اس کا امیج بنا رہتا ہے لیکن جیسے ہی بولتا ہے اس کی قابلیت ،لیاقت اور حیثیت عیاں ہوجاتی ہے زبان کو قابو میں رکھنا اور بوقت ضرورت اس کا صحیح استعمال کرنا ایک فن ہے ۔ جو کہ سب کو نہیں ملتا ۔ ہمارے ہاں بھی آج کل ایک دوسرے کی پگڑیا ں اچھالنے، ریمارکس پاس کرنے حتیٰ کہ اخلاقیات سے گری ہوئی باتیں کرنے کا ایک طوفان بدتمیزی امڈ آیا ہے۔ دین، آئین،عدلیہ،مقننہ ، فوج، سیاست، صحافت غرض یہ کہ کوئی میدان یا شعبہ ایسا نہیں جس میں ہم ایک دوسرے پر کیچڑ نہ اچھال رہے ہوں۔وہ تمام سیاستدان جو تقریر یا گفتگو کے دوران اپنی زبان قابو میں نہیں رکھ سکتے انہیں ہوش میں آجا نا چاہیے۔ اگر وہ یہ سمجھتے ہیں کہ چونکا دینے والے گمراہ کن، تحقیرو تذلیل آمیز، دل آزاری کا سبب بننے والے ،خلاف آئین و قانون بیانات کے ذریعے سے عوام کے اپنا ہم نوا بنا لینگے تو یہ ان کی بھول ہے اور نہایت احمقانہ اور بے وقوفانہ سوچ ہے کیونکہ عوام اتنی بھی بے شعور نہیں ہے کہ ان لغویات اور فضولیات کا ادراک نہ کر سکے۔ ان بیانات کا فائدہ ہو نہ ہو نقصانات ضرور ہیں ․مثلاََـ: بیان دینے والا اپنے بیان کے ذریعے خود آئینے میں آجاتا ہے کہ اس کی اخلاقیات کیا ہیں اور وہ ظرف کی کونسی منزل کا راہی ہے ۔ دوسرا یہ کہ پرنٹ میڈیا اور ٹی وی چینلز نے اس بات کی بھی وضاحت کر دی ہے کہ عوام سننے اور پڑھنے کے بعدفیصلے کر سکیں کہ کوئی کیا بول رہا ہے کیوں بول رہا ہے کس لئے بول رہا ہے؟ یہی وجہ ہے کہ عوام اب اسے ہی سنتے ہیں جسے وہ معقول جانتے اورگردانتے ہیں ۔تیسرا یہ کہ بیان در بیان کے جواب میں بیان کے ذریعے سے نا صرف سیاسی اور ملکی ماحول آلودہ ہو رہا ہے بلکہ ادب اور احترام اور عزت و لحاظ کی تمام حدیں کراس ہوتی جا رہی ہیں اور اگر اس طرح یہ سلسلہ چلتا رہا تو کوئی بعید نہیں کہ کل کو آنے والی نسلیں ایسے تاثرات دیدیں کہ ان حدِ ادب آفراد کو تکلیف پہنچے اور وہ سوائے کف افسوس ملنے کے کچھ نہ کر سکیں کیونکہ جو بویا جاتا ہے وہ ہی کاٹا جاتا ہے ۔اس لئے ہمارے حکمران وسیاستدان اور قلم کار ومقررین اپنی زبان کو قابو میں رکھ کر ملک و قوم کو ان تمام کثافتوں سے محفوظ رکھ سکتے ہیں ان میں سے بعض لوگ ایسے ہیں جو بیان دے کر بہت سوں کو متوجہ تو کر لیتے ہیں لیکن پھر وہ اپنا بیان بھی واپس لیتے دکھائی دیتے ہیں اور یہ تاویلِ پیش کرتے ہیں کہ ان کا بیان توڑ موڑ کر پیش کیا گیا ہے حالانکہ انہیں اس بات کو اب تک جان لینا چاہئے کہ پرنٹ و الیکٹرانک میڈیاکے اس دور میں کسی بھی بات کا چھپا رہنا بہت ہی مشکل بلکہ نا ممکنات میں سے ہے۔ اب بیان دینے والا رانا ثناء اﷲ ہو کہ شرمیلا فاروقی ، شیخ رشید ہو کہ خواجہ سعد رفیق ،نواز وشہبازشریف ہوں کہ عمران خان، میڈیاپر سن ہوں کہ علماء کرام ،بلاول بھٹو ہو کہ حمزہ شہباز یہ اور اسی طرح کے تمام افراد و بیانات قابل مذمت ہیں ۔ان سے نہ تو بیان دینے والے کا قد اونچا ہوتا ہے اور نہ ہی سننے والوں پر کوئی اچھا اثر پڑتا ہے سیاسی بیانات اور تقاریر کی اہمیت اپنی جگہ مسلمہ ہے لیکن بغیر سوچے سمجھے منفی جذبات کے تحت کسی کی تذلیل ومزاح یا پھر معاشرے میں تفرقہ اور انتشار پھیلانے والے بیانات ملک کی نام نہاد جمہوری اقدار اوراخلاقیات سے گرنے کے مترادف گرادنے جاتے ہیں۔ لہذاٰ اپنے بیانات کے دوران سیاستدانوں کا محتاط رہنا اتنا ہی ضروری ہے جتنا ان کے نزدیک سیاسی فائدہ حاصل کرنا ہے ۔

ایک طرف اکیسویں صدی کو ہم ترقی کی معراج گردانتے ہیں اور ترقیات کے موضوع کو اہم ترین موضوع قرار دیتے ہیں دوسروں طرف سطحی ،اخلاقیات سے عارضی ،گمراہ کن اورخلاف قانون وآئین اور مذہب بیان بازی سے ہم یہ ثابت کر رہے ہوتے ہیں کہ ہمارا ترقی کانعرہ سراسر دھوکہ اور سراب ہے۔ حکومتیں ماضی میں بھی آتی جاتی رہی ہیں اور اس دوران میں سارے موضوعات ،بیانات ،نعرے اور بحث ومباحثے بہت حد تک اخلاقی معیار لئے ہوئے ہوتے تھے ۔ اس معیار سے گر کر اب محض سیاسی مفادات کیلئے ہونے والی بیان بازی کے بارے بہت احتیاط اور الفاظ کے محتاط چناؤ کے ساتھ کچھ کہنا ہو تو بھی یہی کیاجا سکے گا کہ یہ ذہنی پستی بلکہ ذہنی بیماری کی علامت ہے اس سے اجتناب ازحد ضروری ہے۔اور اب نوبت زبان درازی سے بڑھ کر دست درازی تک آن پہنچی ہے۔سانحہ ماڈل ٹاؤن لاہور کا وقوع پذیر ہونا حکومتی ارباب کی ذہنی و جسمانی پستی کی واضح علامت ہے کہ جس میں اس حدتک شرمناک انداز میں نہتے اور پرامن شہریوں پر شیلنگ،لاٹھی چارج، فائرنگ کی گئی اور جو مناظر دیکھنے کو ملے ایسا محسوس ہوتا تھا کہ شاید کشمیر یا فلسطین کا کوئی علاقہ ہے جہاں پر غیر مسلم فورسز مسلمانوں کو نفرت انگیز انداز میں صفحہ ہستی سے مٹانے کی کوشش کررہے ہیں۔کہیں سے محسوس ہی ہوتا تھا کہ یہ مملکت خداداد کی وہ پولیس فورس ہے جو کہ کسی غنڈے یا بدمعاش کے اسلحہ لہرانے پر گٹروں میں منہ چھپائے پھرتی ہے۔یہاں تو ایسا محسوس ہوتا تھا کہ گلو بٹ کی فورس ہے جس میں ڈی آئی جی سے لیکر کانسٹیبل اورپوشیدہ و بھیس بدلے جیالوں تک گلو کے اشارہ ابرو کے منتظر ہیں کہ ادھر سے اشارہ ہو ادھر نہتے اور معصوم مرد و خواتین اور بچوں کو ادھیڑ کر رکھ دیں۔ میڈیا میں ایکسپوز ہونے کے بعد اب بالکل اسی طرح ہورہا ہے کہ جب بھی وہ اپنے بچاؤ کا کوئی طریقہ اختیار کرنے کی کوشش کرتے ہیں مزید سامنے آجاتے ہیں۔جیسا کہ ہسپتال میں پوسٹ مارٹم رپورٹس کو بمطابق مرضی کرانے کیلئے پولیس افسران اور ڈی ایم جی گروپ کے لوگوں کی بھاگ دوڑ کا ایکسپوز ہوجانا۔گلو بٹ کا منظر عام پرآنا۔ شہباز شریف اور رانا ثناء اﷲ کا لاعلم ہونا جب کہ وزیر اعلی کے بارے میں دعوی کیا جاتا ہے کہ تمام کام ان کی مرضی سے ہوتاہے۔بہرحال جو ہوا بہت برا ہوا ملکی و قومی حالات اس بھیانک عمل کو برداشت کرنے کے متحمل نہیں ہیں لہذا اب زبان کے ساتھ ساتھ ہاتھوں کو بھی کنٹرول کرنا ضروری ہے۔ایسا نہ ہو کہ یہ شر کی چنگاری کسی بہت بڑے الاؤ میں تبدیل ہوجائے اور اس پر قابو پایا بس سے باہر ہوجائے۔
liaquat ali mughal
About the Author: liaquat ali mughal Read More Articles by liaquat ali mughal: 238 Articles with 211733 views me,working as lecturer in govt. degree college kahror pacca in computer science from 2000 to till now... View More