مسلم لیگ ن کے خود ساختہ
سنیئر رہنما اور پنجاب پولیس کے کوچ محترم جناب گلو بٹ صاحب جو اب کسی
تعارف کے محتاج نہیں ان کا کیرئیر ماڈل ٹاؤن جیسی کئی فتوحات سے بھرا پڑا
ہے لیکن موصوف ذہنی طور پر خدمت پر یقین رکھتے ہیں گمنامی کو وہ لاہوری
پائے اوردیسی لسی سے زیادہ پسند کرتے ہیں ورنہ اگر ان کی خدمات کو سامنے
رکھا جائے تو خادم اعلی سے بھی اعلی قرار پائیں گے اور رہی شرافت اس میں
بھی وہ کسی سے پیچھے نہیں بس یا رلوگوں نے گلو بٹ سے مشہور کردیا ورنہ
شہباز شریف کی طرح وہ بھی گلو شریف ہی ہیں تو یہ تو ایک مغالطہ دور کرنا
تھا کہ حضرت بھی شریف ہیں بٹ ویسے ہی بدنام ہوئے ہیں ان کے فیملی ذرائع نے
اس بات کی بھی تصدیق کی ہے کہ موصوف کا ذہنی توازن بھی ٹھیک نہیں اور لوگوں
کے پیسے بھی واپس نہیں کرتے اس لحاظ سے ان کو گلو زرداری بھی کہا جا سکتا
ہے(MLN,PPPکمی کوتاہی معاف فرمائیں) اگر بھائی لوگ ناراض نہ ہوں تو میں کہہ
سکتا ہوں کہ شوٹنگ کراچی والی تھی اس لئے گلو بھائی کہنے میں بھی کوئی ہرج
نہیں-
موصوف کے کیریئر میں بے شمار شاندار خدمات ہیں لیکن معرکہ ماڈل ٹاؤن ان کے
کیرئیر کی شاندار اننگ ہے جس پر شریف لوگ ان کو لیگی ہیرو کہنے پر مجبور ہو
گئے ہیں البتہ پاکستانی عوام ان کو درندہ صفت انسان اور انسان نما خون خوار
نوجوان بھیڑیا قرار دے رہی ہے اب عوام کو حکومت پنجاب اور خادم پنجاب کیسے
سمجھائے اپنی مجبوریاں کہ ایک عمران کم تھا کہ قادری بھی ہماری لگی لگائی
روزی کے پیچھے لگ گیا ہے اور تو اور چوہدری برادران میں بھی دوبارہ روح
پھونک رہا ہے بندہ کچھ تو سوچتا ہے اب ہم روز روز فخرالدین جی ابراہیم کو
کہاں سے لائیں گے اس لئے مجبو ر ہو کر شریف لوگوں نے گلو شریف کو میدان میں
اتارا اور یاد رکھو ہمارے پاس ایک اکلوتا گلو ہی نہیں بلکہ ہم نے قوم کی
خدمت کے لئے اس طرح کے کئی گلو سرکاری خرچے پر پال رکھیں ہیں یقین نہیں آتا
تو اہلیان لاہور سے پوچھ لو ہماری دفاعی قوت انتہائی مضبوط ہے اور آپ کو اس
کی گواہی نرگس بھی دیں گی-
ن لیگی ہیرو گلو شریف کے ساتھ کچہری میں پیش آنے والے دل کو ٹھنڈک پہچانے
والے واقعہ سے پو ری لیگی قوم خون کے آنسوؤں رو رہی ہے کہ اس قوم نے ہمارے
سریا اور سیمنٹ پر بننے والی میٹرو جنگلہ بس کا بھی خیال نہیں کیا اور عین
ممکن ہے کہ شہباز شریف اپنے جیسے اس شریف کارکن یا رہنما کی عیادت کرنے
بنفس نفیس محفوظ مقام پر خود تشریف لے جائیں بعض غیر مصدقہ اطلاعات کے
مطابق وہ محفوظ مقام خادم اعلی کا مسکن ہے کیونکہ اس سے محفوظ مقام اور کون
سا ہو گا -
اور شائد وزیر اعظم پاکستان نوازشریف اس لاڈلے اور لیگی ہیرو کے ساتھ ہونے
والی اجتماعی زیادتی پر تین دن سوگ کا اعلان کریں اور تین دن تک قومی پرچم
کو سرنگوں رکھیں اور بعض غیر مصدقہ اطلاعات یہ بھی ہیں کہ صدر ہاؤس میں
جنگی بنیادوں پر پھول کے گلدستے پیش کرنے کے لئے تیار ہو رہے ہیں تاکہ وزیر
اعظم ہاوس سے ملحقہ بلڈنگ ہمارے اور اپنے ماضی کو یاد رکھتے ہوئے محتاط رہے
اور غیر ضروری ہمدردی اور ایکشن سے باز رہے لیکن پنڈی کی بلڈنگوں میں
بھرپور ایکشن یا ایکشن کی تیاریاں ہو رہی ہیں یہ سب کچھ اسی کا ہی پیش خیمہ
ہے (غلط سمجھنے والا اپنی غلطی کا خود ذمہ دار ہو گا)-
دوسری طرف مونچھوں والی سرکار وزیر قانون پنجاپ رانا ثناء اﷲ نے لیگی قانون
کی روشنی میں گلو شریف کے ساتھ ہونے والی اجتماعی زیادتی پر شدید الفاظ میں
مذمت کی ہے اور اس کو عوامی جبر قرار دیا ہے اور لیگی ہیر و کو ستارہ جرات
دینے کے لئے اعلی خدام سے مشاورت شروع کر دی ہے اور عوام نے گلو بھائی کو
مزید انعامات سے نوازنے کے لئے گیارہ نمبر کا آٖڈر دے دیا ہے ہو سکتا ہے اس
طرح کا موقع پھر گلو بھائی کے لئے نہ بھی ملے لیکن گیارہ نمبر تو کئی بھی
کام آسکتا ہے گلو جی کے بڑے بھائی کی بھی علاج کے لئے آمد متوقع ہے -
ن لیگ کی اعلی قیادت ماڈل ٹاؤن کے واقعہ پر میڈیا کی بے باکی پر بھی سخت
شاکی ہے کیونکہ میڈیا نے ن لیگ سے میدان عمل کا ایک سرگرم کارکن بلکہ ہیرو
چھین لیا ہے بلکہ آج تک پاکستان میں ہونے والے پر تشدد اور ہنگامہ خیز
واقعات( بلکہ سیاسی زبان میں یادگار کارناموں ) میں ملوث نامعلوم افراد کو
بھی معلوم کر دیا ہے اور ان کے مکمل پتے کسی بھی سیاسی جماعت کے دفتر سے مل
سکتے ہیں اس تمام صورتحال کا باریک بینی سے جائزہ لینے والے سیاسی مشیروں
نے آئندہ ایسے میدانوں میں گلوشریف جیسے ایکٹروں کو نقاب پوشی کا پابند کر
نے کا مشورہ دے دیا ہے -
آج سابق چیف جسٹس آف پاکستان افتخار چوہدری کی یا د بہت ستاتی رہی کیونکہ
اگر آج وہ اپنے عہدے پر حیات ہوتے تو اتوار ہی کیوں نہ ہو تا انہوں نے
سوموٹو ایکشن لے لینا تھا اور پھر دنیا دیکھتی جیسے ن لیگ شفاف دھاندلی
بلکہ دھاندلے سے بر سر اقتدار آئی ایسے ہی شفاف تحقیقات سے اپنے اس ہیرو کو
انصاف دلوانے میں کامیاب ہوتی جیسیــ حسین حقانی کے میمو ـ،،کی تحقیقات اور
فیصلہ تاریخ کا ایک سنہرا باب ہے اور اگر فخرالدین جی بھی ہوتے تو پنڈی سے
عمران خان کے مقابلے میں گلو شریف ایک لاکھ اکتیس ہزار سات سو اکتالیس کی
لیڈ سے ایم این اے ہو تے اور ویسے یہ کوئی انہونی بات نہیں پنجاب کی حد تک
اب وہ وزیر داخلہ بن سکتے ہیں تاکہ خادم اعلی سے کچھ بوجھ تو ہلکا ہو -
محترم قارئین یہ حتمی رائے نہیں ہے بلکہ یہ تحریر قابل تصحیح ہے غصہ ہونے
کے بجائے اپنی تصحیح سے آگا ہ فرمائیں تاکہ معلومات کی تصحیح کی جاسکے- |