”انقلاب“ کے نعرے کے ساتھ ملک لوٹنے والے پاکستان عوامی
تحریک کے سربراہ طاہر القادری کا طویل اور ڈرامائی سفرکینیڈا، لندن، دبئی
اور راولپنڈی سے ہوتا ہواپیر کے روز لاہور میں اختتام پذیر ہوا۔ان کی آمد
پر راولپنڈی اور اسلام آباد میں حکومت کی جانب سے زبردست حفاظتی انتظامات
کیے گئے تھے۔ اس دوران راولپنڈی میں پاکستان عوامی تحریک کے کارکنوں کی
پولیس سے کئی جگہوں پر جھڑپیں بھی ہوئیں، جس میں پولیس کے سو سے زاید
اہلکار زخمی ہوئے۔ پیر کے روز جب طاہر القادری امارات فضائی کمپنی کی ایک
پرواز کے ذریعے دبئی سے اسلام آباد پہنچے تو ان کے طیارے کو بینظیر
انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر اترنے کی اجازت نہ مل سکی اور جہاز کو لاہور کے
علامہ اقبال انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر اترنے کا حکم ملا۔ پاکستان روانگی سے
قبل طاہر القادری کا کہنا تھا کہ اگر حکومت نے میرے انقلاب کی راہ میں
رکاوٹ ڈالی، تو انقلاب اسی وقت آجائے گا، لیکن برا ہو اس انقلاب کا جو یہ
سب کچھ ہونے کے باوجود بھی نہ آیا۔ طاہرالقادری نے ہوائی جہاز کے لاہور
پہنچنے پر ضد کرتے ہوئے طیارے سے باہر آنے سے انکار کردیا۔ ان کا کہنا تھا
کہ وہ اسی صورت میں طیارے سے باہر آئیں گے جب فوج کا کوئی افسر آکر ان سے
بات چیت کرے گا، لیکن فوج کی جانب سے کسی افسر تو کیا،کوئی صوبیدار بھی ان
سے ملنے نہ آیا اور قادری کی جانب سے کیے جانے والے مطالبے پر آئی ایس پی
آر کی جانب سے ایک بھی لفظ نہیں کہا گیا۔حالانکہ میڈیا کے اندر سے یہ رائے
سامنے آرہی تھی کہ آئی ایس پی آر کو چاہیے کہ وہ ڈاکٹر قادری کے مطالبات کو
مسترد کردے، لیکن فوج نے خود کو اس پورے تنازع سے دور رکھنے کا فیصلہ کیا۔
ذرائع کے مطابق پاکستان آرمی نے2013ءمیں بھی ڈاکٹر طاہر القادری کی مدد کے
لیے درخواست مسترد کردی تھی اور ان سے کہا تھا کہ وہ متعلقہ وزارت سے رابطہ
کریں۔پیر کے روز طاہرالقادری طیارے میں ”منفرد دھرنا“ دیے مسلسل فون پر
مصروف رہے اور چند نمبروں سے ”جواب“ موصول نہ ہونے پر جب وہ مایوس ہوگئے تو
گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد نے انہیں خبردار کیا کہ ان کا طیارے میں بیٹھ
کر دھرنا دینا ”ہائی جیکنگ“ کا کیس بن سکتا ہے، جس سے عالمی سطح پر صرف
پاکستان کے لیے ہی نہیں بلکہ کینیڈین شہریت کے حامل قادری کے لیے بھی
معاملات پیچیدہ ہوجائیں گے اور انہوں نے واضح کردیا کہ کسی فوجی نمائندے کے
آنے کی کوئی امید نہ رکھیں۔
”انقلاب“ لانے کے لےے طیارے کے اندر میڈیا سے بات چیت کے دوران طاہر
القادری نئے نئے مطالبات پیش کرتے رہے اور ہر مطالبے کے ساتھ وہ اس بات کا
اعادہ کرتے کہ جب تک اسے تسلیم نہیں کیا جائے گا میں طیارے سے باہر نہیں
آﺅں گا، لاہور لینڈنگ ہونے کے بعد جب کور کمانڈر لاہور کو ایئرپورٹ پر
بلانے کامطالبہ پورا نہ ہوا تو، تھوڑی دیر بعد ان کا کہنا تھا کہ حکومت بلٹ
پروف گاڑی فراہم کرے، ان کے ذاتی گارڈز کو ایپرن پر آنے دیا جائے تو وہ گھر
چلے جائیں گے، میڈیا کو اس کی براہ راست کوریج کرنا ہوگی، طاہر القادری نے
اس کے بعد طیارے سے اترنے کے لےے 24 گھنٹوں میں اپنے گھر کے باہر توڑے گئے
بیریئرز دوبارہ لگانے کی شرط لگا دی، اس کے تھوڑی دیر بعد ان کی طرف سے کہا
گیا کہ وہ گھر جانے سے پہلے اپنے زخمی کارکنوں کی ہسپتال جاکر عیادت کریں
گے، ایئر پورٹ سے کارکنوں کو ساتھ لے کر جاﺅں گا، اس کے ساتھ ہی انہوں نے
اپنے تمام کارکنوں کے خلاف درج مقدمات ختم کرنے کا مطالبہ بھی کیا۔ طاہر
القادری نے جہاز کے اندر ان سے گورنر سندھ عشرت العباد کے ٹیلی فونک رابطوں
کے بعد ” فیس سیونگ“ کے لےے گورنر پنجاب چودھری محمد سرور کے آنے کا مطالبہ
کیا۔ واضح رہے کہ طاہر القادری نے صرف پیر کے روز ہی فوج کو مدد کے لیے
نہیں پکارا، بلکہ وہ فوج سے امداد کے لیے اپیلیں کینیڈا سے کرتے چلے آ رہے
ہیں۔ جب لاہور میں ان کے کارکن جاں بحق ہوئے تب بھی وہ بار بار فوج کو پکار
رہے تھے کہ وہ کردار ادا کرے اور ان کے سیکرٹریٹ کے تحفظ کے لیے پہنچ جائے،
لیکن آئین کے تحت حکومتی احکامات کی پابند فوج نے نہ آنا تھا نہ آئی۔ صرف
یہی نہیں، بلکہ منہاج القرآن سیکریٹریٹ کے باہر اجتماع میں موجود کارکنوں
کی بیشتر تعداد بھی فوج کی امداد کی خواہاں تھی۔
تجزیہ کاروں کے مطابق طاہر القادری چاہتے ہیں کہ فوج حکومت کا تختہ الٹ دے
اور ان کی خواہش ہے کہ فوجی آمریت میں انھیں ایک روحانی پیشوا کا درجہ حاصل
ہوجائے اور ان کے جاری کردہ احکامات پر ملک بھر میں عملدرآمد ہو، لیکن ایسا
ہوگا نہیں۔ ان حالات میں طاہر القادری کا ساتھ دینے کے لیے مسلم لیگ قاف کی
لیڈر شپ چودھری برادران اور عوامی مسلم لیگ کے رہنما شیخ رشید میدان عمل
میں ہیں۔ یہ وہ مسلم لیگی ہیں جو فوجی حکمرانی کے دور میں اقتدار میں آئے۔
آمر پرویز مشرف کے دور میں چودھری شجاعت نگران وزیر اعظم، چودھری پرویز
الٰہی وزیر اعلی پنجاب اور شیخ رشید احمد وفاقی وزیر اطلاعات کے عہدوں پر
متمکن رہے، لیکن بعد میں فوجی حکمران کی سرپرستی کے بغیر ہونے والے دو عام
انتخابات کے نتائج نے ان کی انتخابی اہلیت کا پول کھول دیا ہے۔ یہ رہنما
بمشکل اپنی اپنی نشستوں پر ہی کامیاب ہوپائے۔ جو رہنما بمشکل صرف اپنی نشست
پر کامیابی حاصل کرسکیں، وہ انقلاب کیا لائیں گے؟ جبکہ دوسری جانب طاہر
القادری کے تعاون کا دم بھرنے والے عمران خان پیر کے روز نہ تو قادری صاحب
کا استقبال کرنے کے لیے گئے اوران کا کوئی تعاون کیا، جس سے قادری انقلاب
کی قلعی مزید کھل گئی ہے۔ مبصرین کاکہنا ہے کہ یہ تو ثابت ہوگیا کہ طاہر
القادری اپنے ساتھ تعاون کرنے والوں کے ذریعے کوئی بھی انقلاب لانے سے قاصر
ہیں،تو پھر قادری صاحب چاہتے کیاہیں؟ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ طاہر
القادی نواز شریف کے گرد جال بچھا رہے ہیں کہ وہ غلطیاں کریں، وزیراعظم
اسٹیل کے تین پایوں والی کرسی پر بیٹھے ہیں، سیاسی، قانونی اور اخلاقی۔
نواز شریف کا سیاسی جواز 190 ارکان قومی اسمبلی ہیں، قانونی جواز اسلامی
جمہوریہ پاکستان کا آئین ہے ۔ طاہر القادری کے پاس نہ سیاسی جواز ہے نہ
آئینی۔ یقیناً وہ وزیراعظم کی سیاسی اور آئینی حیثیت، قانونی جواز کو ختم
نہیں کر سکتے، ان کا اصل مقصد حکومت کو کنفیوژ کرکے اخلاقی غلطیاں کرانا
اور وزیراعظم کی کرسی کے اخلاقی جواز کو ختم کرانا ہے، یہ اخلاقی پایا
ٹوٹتا ہے تو نواز شریف کی معاملات سے نمٹنے کی صلاحیت کم یا ختم ہو جائے گی
اور ایسا ہوا تو وزیراعظم کھلے حملوں کا آسان ہدف بن جائیں گے۔ طاہر
القادری اپنی سیاسی بساط کو پھیلانے کی کوشش کر رہے ہیں، جبکہ وزیراعظم
اپنی بساط کو بچانے کی کوشش کر رہے ہیں ۔ تاہم ماڈل ٹاﺅن سانحہ نے ان کے
اخلاقی جواز کو شدید متاثر کیا ہے۔ سانحہ ماڈل ٹاﺅن میں بھی کچھ نادیدہ
قوتیں بظاہر متحرک نظر آتی ہیں، اس حوالے سے وزیرا علی شہباز شریف کی اس
بات کو اہمیت دینے کی ضرورت ہے کہ گزشتہ ہفتے ان کے منع کرنے کے باوجود
پولیس نے نہ صرف آپریشن نہیں روکا، بلکہ الٹا براہ راست فائرنگ کی، جس کے
نتیجے میں ان کی ایک عرصے کی محنت پر پانی پھر گیا اور ان کی ساکھ پر برا
اثر پڑا ہے۔اسمبلی میں پارلیمنٹ لیڈر خورشید شاہ کا بھی کہنا ہے کہ ایسا
کوئی ضرور ہے جو نواز شریف کی حکومت کو آئینی مدت سے پہلے ختم کرانا چاہتا
ہے۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ طاہر القادری کی ایک بات سمجھ میں نہیں آتی کہ وہ کس
انقلاب کی بات کرتے ہیں جو وہ ہر دوسرے دن کینڈا سے لے کر آ جاتے ہیں۔ یہ
بات تو واضح ہے کہ انقلاب تو انقلاب ہی ہوتا ہے ، چاہے دنیا کے جس ملک میں
بھی برپا ہو، اس کے اثرات بھی تقریبا ایک ہی جیسے ہوتے ہیں اور جو لوگ
انقلاب کی رہنمائی کرتے ہیں، وہ موت سے نہیں ڈرتے، بلکہ موت ان سے ڈرتی ہے
اور وہ عوام کے اندر رہ کر جدو جہد اور کوشش کرتے ہیں اور وہ گولیاں پیچھے
سے نہیں کھا تے، بلکہ سینے پر کھاتے ہیں اورپرتعیش زندگی ترک کر کے عام
بندے کی مشکلات کو اپنے اوپر جھیلتے ہیں، مگر قادری صاحب انقلاب کنٹینر اور
ہوائی جہاز ہی میں کیوں لاتے ہیں؟ عوام سردی اور گرمی میں مرتے ہےں اور
قادری صاحب کبھی گرم کنٹینر میں مزے لیتے ہیں اور کبھی ائر کنڈیشنر جہاز
میں تشریف رکھتے ہیں۔” انقلابی“ لیڈر طاہر القادری جان دینا تو کجا اپنے
کپڑے میلے نہیں ہونے دیتے۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ صرف دعوﺅں سے ملک میں
انقلاب برپا نہیں ہوتا۔ اس کے لیے حقیقی رہنما بن کر سالوں محنت کرنا پڑتی
ہے، قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنا پڑتی ہیں، شرانگیز بیانات سے قوم کو
بھڑکانے کی بجائے بے خوفی کے ساتھ حالات کا مقابلہ کرنا پڑتا ہے۔ طاہر
القادری کہتے ہیں کہ وہ انقلاب لائے بغیر پاکستان سے نہیں جائیں گے۔ آخر وہ
کس قسم کے انقلاب کی بات کر رہے ہیں، انھوں نے کچھ لوگ تو اکھٹے کر لیے،
مگر وہ ابھی تک ایسی سیاست نہیں کر سکے کہ ووٹ کے ذریعے پارلیمان کا حصہ
بننے میں کامیاب ہو سکیں، وہ اپنی کینیڈا کی شہریت تو چھوڑنے کے لیے تیار
نہیں ہیں، انقلاب کیسے لائیں گے۔ ان کا انقلاب یہی ہے کہ ووٹ کی بجائے فوج
کے کندھے پر پاکستان پر حکمرانی کریں، لیکن ایسا ہوگا نہیں۔ مبصرین کا کہنا
ہے کہ قادری صاحب جس ملک سے محبت کا دعویٰ کرتے ہیں اور جس عوام کے مسیحا
بننے کی کوشش کرتے ہیں، اس وقت یہی ملک کینیڈی انقلاب کا متحمل نہیں ہو
سکتا، کیونکہ یہ وطن عزیز اس وقت بدامنی کی مہلک بیماری سے انتہائی لاگر
ہونے کے ساتھ ساتھ مزید کئی مسائل کے گرداب میں پھنسا ہوا ہے اور فوج اس
وقت شمالی وزیرستان میں آپریشن شروع کیے ہوئے ہے۔ اگر قادری صاحب اس ملک سے
واقع مخلص ہیں تو ملک میں مزید مسائل پیدا کرنے کی بجائے ان کو حل کرنے میں
حکومت کے ساتھ تعاون کریں۔ |