بارہا اس بات کا ذکر کرچکا ہوں کہ نہ کسی قادری سے ہمدردی
ہے اور نہ شریفوں سے دشمنی ۔ یہ باربار وضاحت اس لئیے کرتا ہوں کیونکہ
ہمارے ہاں پارٹیوں اور لیڈروں کے کلمہ گو ذہنی غلاموں کی کمی نہیں کثرت سے
پائے جاتے ہیں۔ جب یہ بونے لیڈروں کے مزارعے اپنے لیڈروں کے خلاف کوئی
تنقید پڑھتے یا سنتے ہیں تو تنقید کرنے والے پر برس پڑتے ہیں اور بکاؤ اور
جمہوریت دشمن ہونے تک کا الزام لگا دیتے ہیں۔ سب سے پہلے ان سیاسی مزارعوں
سے میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ برائے مہربانی جمہوریت کی تعریف اور اسکی
مسلمہ خصوصیات کے تحت پاکستانی خاندانی بادشاہت کو جمہوریت ثابت کریں۔ یہ
سوال خاندانی بادشاہت سے مستفیذ ہونے والے بہت سے دانشوروں سے میں نے پوچھا
مگر زبانیں گنگ ہوگئیں ، کچھ نے تاثر دیا کہ الیکشن کا انعقاد ہی جمہوریت
ہے تو میں نے ان سے عرض کی کہ پھر تو مشرف ان سے زیادہ جمہوری تھا اسنے تو
بلدیاتی انتخابات بھی کروائے تھے ۔ ایسے دانشوروں کی دانش پر میں تو صرف
ماتم ہی کر سکتا ہوں ۔ مجھے تو خوف ہے کہ دنیا کی بڑی بڑی جمہوریتیں کہیں
عالمی عدالت میں نہ چلی جائیں اور پاکستان کے سیاستدانوں کے خلاف توہین
جمہوریت کا مقدمہ دائر کردیں، یہ ایک حقیقت ہے کہ پاکستان میں جمہوریت کی
توہین ہو رہی ہے۔ گذشتہ روز ڈاکٹر قادری کی آمد پر حکومت کی بوکھلاہٹ اور
غیر جمہوری رویہ پوری دنیا نے دیکھا مجھے بیان کرنے کی ضرورت نہیں۔ لاہور
ائرپورٹ کے ڈرامہ کے ڈراپ سین کے بعد بہت سے ملکی اور غیر ملکی لوگوں نے
مجھ سے پوچھا کہ اس واقعہ کے نتیجہ میں فتح یاب کون ہوا اور شکست کس کو
ہوئی ؟ قادری جیتا یا نواز شریف ؟ میں نے عرض کیا کہ میں یہ نہیں جانتا کہ
جیتا کون ؟ مگر یہ ضرور جانتا ہوں کہ شکست کسے ہوئی ، قادری اور نواز شریف
کی انا کی جنگ میں مرا پاکستان ہار گیا ہے۔ دنیا پہلے ہی ہمارے اداروں پر
سوالیہ نشان اٹھاتے تھے رہی سہی کسر مجودہ حکومت نے نکال دی ہے۔ میاں صاحب
کو چاہئیے عرفان صدیقی اور عطاالحق جیسے دانشوروں اور خوشآمدی مشیروں سے
جان چھڑائیں ناصرف بلکہ ان سب کو جیلوں میں ڈالیں جنکے احمقانہ مشوروں سے
قوم کو آجکا دن دیکھنا پڑا ان نااہل مشیروں کا سارا زور ڈاکٹر قادری کی
کردارکشی پر لگتا رہا جو آج تک جاری ہے، ان احمقوں کو یہ نہیں پتہ کہ کسی
کی کردارکشی کرکے آپ اسے شکست نہیں دیتے بلکہ اسکی مقبولیت میں اضافہ
کردیتے ہیں، اگر کردار کشی سے کچھ اثر ہوتا تو محترمہ بینظیر صاحبہ کی
سیاست پر بھی پڑتا کیونکہ میاں صاحب کی اسی ٹیم نے بینظیر صاحبہ کی بہت
کردار کشی کی تھی، لیکن بےشرمی کی انتہا دیکھیں خواجہ صاحب کہتے ہیں ہم
گندی سیاست پر یقین نہیں رکھتے۔ میں نے ٹاک شوز دیکھنے چھوڑ دیے ہیں مجھ سے
برداشت نہیں ہوتا کہ تمام سیاستدان مراثیوں اور مزارعوں کی طرح اپنے لیڈروں
کا دفاع کررہے ہوتے ہیں حالانکہ یہ نام نہاد منتخب نمائندے ہوتے ہیں اور یہ
لیڈروں کے مراثی بن کر عوام کے ووٹ کی توہین کرتے ہیں۔ مسلم لیگ ن کے لوگ
کچھ لوگوں کو مشرف کا ساتھی ہونے کا طعنہ دیتے ہیں اور اپنے لیڈر کا ماضی
بھول جاتے ہیں ۔ میاں صاحب حضرت علی نے فرمایا تھا کہ کسی حریص کو اپنا
مشیر نہ بناؤ ، وہ ظلم وستم کو مال حاصل کرنے کے لئیے خوبصورت بنا کر
دکھائے گا ، میاں صاحب کو چاہئیے مشیر بدلیں اور کردار کشی کی بجائے
طاہرالقادری کے نظریہ انقلاب کو شکست دیں ، اپنے احمق دوستوں اور لالچی
دانشوروں سے جان چھڑائیں اور ساتھ وزیروں کی زبانوں کو لگام دیں یہ آپ سے
ماضی کا کوئی بدلہ لے رہے ہیں، یہ آپ کا ناصرف بیڑاغرق کریں گے بلکہ آپ کے
خلاف وعدہ معاف گواہ بنیں گے۔ میاں صاحب مشیر بدلو نہیں تے تسی بدل جاؤ گے
۔۔۔۔۔۔ |