آہ طاہرہ آصف کا قتل

آہ طاہرہ آصف 2008ء میں طاہرہ آصف مسلم لیگ ق کے ٹکٹ پر قومی اسمبلی کی رکن منتخب ہوئی تھی، طاہرہ آصف بہت ہی مخلص خوش اخلاق خوش لباس خوش شکل خاتون تھی، ان کے چہرے پر ہر وقت ہمیشہ بچوں والی مسکراہٹ رہتی تھ، وہ ایک وفا شعار محبت کرنے والی بیوی سعادت مند بہو اور اپنے بچوں پر مرمٹنے والی ماں تھی، قومی سطح پر کام کرنے کا بھی انہیں بے حد شوق تھا۔ اور وہ اپنے اس فرض کو بخوبی سر انجام دے رہی تھی۔ 2008 میں طاہرہ آصف کے راستے جدا ہوگئے، انہوں نے غریب متوسطہ طبقے کی جماعت ایم کیو ایم میں شمولیت اختیار کرلی، جنرل الیکشن میں تو وہ کامیاب نہ ہوسکی لیکن انہیں مخصوص سیٹ پر نمائندگی مل گئی۔ آہ یہ نمائندگی طاہرہ آصف کے نصیب میں نہیں تھی، غریب طبقے کی خدمت کرنا مظلوموں کے لیے آواز حق بلند کرنا ہمارے ملک پر قابض گلو بٹ جیسے جاگیرداروں سرمایا داروں کو پسند نہیں آیا، اور طاہرہ آصف کو بھی دہشت گردی جبر بربریت کا نشانہ بنا ڈالا، طاہرہ آصف کا قصور کیا تھا؟

اس کا قصور یہ تھا وہ غریب متوسطہ میڈل کلاس طبقے کے لوگوں کے حقوق کے لیے کام کررہی تھی وہ مظلوم عوام کو اس خاندانی مورثی سیاست سے نجات دلانے کے لیے کوشہ تھی، ابھی اس نے اپنی پیاری بیٹی کو رخصت کرنا تھا بیٹوں کے سر پر سہرا دیکھنا تھا، نہ جانے کس منحوس وحشی درندوں نے ایک ہنستا بستا گھر اجاڑ دیا، محبت کرنے والے شوہر کی دنیا اجاڑ دی معصوم لخت جگروں کو ماں کے رحمت بھرے سائے اور پیار سے ہمیشہ کے لیے محروم کردیا، اے پاک وطن تیرے اندر کس کے خفیہ ہاتھ چل رہے ہیں، کس کے اشاروں پر ہنستے بستے گھرانوں کو برباد کیا جارہا ہے، اس اسلامی مملکت پاکستان میں عورتوں کو سر بازار قتل کرنے کی روایت نہیں تھی، یہ روایت کس نے قائم کردی، اے جمہوریت کے علمبرداروں اسلام کے علمبرداروں قانون اور آئین کی بالا دستی کی رٹ لگانے والوں، آزاد عدلیہ کے گیت گانے والوں قانون کے محافظوں عوام کو سنہرے خواب دیکھانے والوں جمہوریت کی آڑ میں عوام پر ظلم جبر بربریت کرنے والوں، عوام کی دولت پر عیش کرنے والوں اپنے بچوں کو بیرون ملک عیش و عیاشی کرانے والے حکمرانوں عوام کو مرنے اور دکھوں میں جھونکنے والوں حاکموں بتائوں عورتوں کو بھی قتل کرنے کی روایت کس نے قائم کردی-

مردوں کا قتل عام تو اس سرزمین پر روز مرہ کا معمول بن گیا ہے، میدان جنگ میں بھی اگر کسی کافر کی ماں ہاتھ جوڑ کر مسلمان سے اپنی جان کی امان مانگتی تو مسلمان سپاہی فورا اسے جان کی امان دے دیتے۔ یہ کن سانپوں کی اولادیں ہیں، جو نہتی عورتوں پر ہتھیار اٹھاتے ہیں، چاہئے وہ طاہرہ ہوں فرزانہ ہوں شازیہ ہوں آخر ہیں تو یہ قوم کی بیٹیاں نا کسی کے گھر کی عزت تھیں معصوم بچوں کی مائیں تھیں، بیٹیاں تھیں بیویاں تھی، سو کسی کو تو ان میں سے اپنوں نے ہی ماردیا غیرت کے نام پر اور کسی کو حاکم کے حکم پر قانون کے محافظوں نے ہی ماردیا ، وہ کون شداد تھے چنگیز تھے یا فرعون تھے۔ جنہوں نے ہاتھ جوڑتی عورتوں پر گولیاں چلائیں اور وکٹری کا نشان بنایا، جنہیں تڑپتی ہوئی عورتوں پر ذرا بھی رحم نہ آیا، انہوں نے کونسی مائوں کا دودھ پیا تھا جو بے گناہ معصوم بچوں کی مائیں چھین لیں-

ارے یہ کیسے مسلمان ہیں ذرا ان کی خبر تو لو جنہوں نے بلکتی منتیں کرتی ہوئی عورتوں کی ذرا بھی فریاد نہ سنی، کار میں بیٹھی بے قصور عورت پر گولیاں چلا دیں عورتوں کو بالوں سے پکڑ کر گھسیٹا ان کی عزتوں کو تار تار کیا بے حرمتی کی ان کو تھپڑ مارے کپڑے پھاڑے یہ مردانگی نہیں ہے ۔ یہ شیطنیت ہے، ابلیسیت ہے، ابلیس تو بیٹھا ہوا ہنس رہا ہوگا کہ میرے چیلے تو زبردست کام کررہے ہیں، فرزانہ تیرے غم میں شازیہ کے غم میں طاہرہ آصف کے غم میں، مادر وطن کی ساری عورتیں غم میں مبتلا اور اداس ہیں۔ اب وہ گھر سے باہر نکلتے ہوئے ڈرتی ہیں، کہ یہ شاہراہیں ان کے لیے محفوظ نہیں ہیں، اب ان سڑکوں پر راہ زن اور قاتل بیٹھے ہوئے ہیں ان کے کبھی ایسا وہم و گمان میں بھی نہیں آیا کہ دن دیہاڑے بغیر کسی جرم کے ماڈل ٹائون کی عورتوں پر اندھی برسائی جائے گی-

کیوں دوپٹہ محفوظ نہیں ہے کیوں چار دیواری محفوظ نہیں ہے، کیوں چادر محفوظ نہیں ہے، کیوں مسجد منبر محفوظ نہیں ہے۔۔۔۔ اتنی شدید گرمی میں کیوں معصوم گھروں میں بیٹھے لوگوں پر قہر برسایا جارہا ہے، ہماری عقل اس کو تسلیم کیوں نہیں کرتی، ہر شخص کا چہرہ سوالیہ نشان بنا ہوا ہے، اس ایسے وقت میں جب ملک کی فوج خارجی دہشت گردوں کے خلاف میدان جنگ میں ملک کی بقا و سلامتی میں جتی ہوئی ہے، مائوں کے بیش بہا لعل پہاڑوں کے اندر دشمنوں کی سرکوبی میں جان کی بازی لگائے ہوئے ہوئے ہیں، ان کی مائوں نے ہاتھ پھیلا رکھے ہیں، اور پوری قوم کی سانسیں روکی ہوئی ہیں، یہ بڑا درپیش مرحلہ ہے، اس مرحلے سے پاک فوج کے جوانوں کو سرخرو ہوکر نکلنا ہے، سبزہ زاروں لہراتے کھیتوں کو اور بہتے دریائوں سمندروں آبشاروں کو بارود سے بچانا ہے انشا اللہ فتح یابی میرے بہادر جوانوں کا مقدر بنے گی، سانحے کے اندر سانحہ برپا کرنے کی کیا ضرورت تھی خون پہاڑوں پر بہہ رہا تھا۔ تو خون کے دریا شہروں میں بہانے کی کیا ضرورت تھی، یہ کونسا موقع تھا اپنا طبل بجانے کا، کون انصاف دلائے گا، اب ان بلکتے دلیر یتیم بچوں کو کون اب اجڑے ہوئے گھروں کو بسائے گا کون اب روتے چہروں اور نم آنکھوں کو مسکراہٹ بخشے گا، کون ان بچوں کو ماں باپ کا نعم البدل لاکر دے گا، ارے بھائی لوگوں تم شمعیں کیوں جلاتے ہوں، ان بد بختوں کی خبر لو جو مائوں کی زندگیوں کی شمع گل کررہے ہیں، گھروں کو اجاڑ رہے ہیں، جلانی ہے تو انصاف کی شمع جلائوں، روا داری محنت کی شمع جلائو، یہ کیا رسم وفا تم نے نکالی ہے، کہ شمع جلتی چھوڑ جاتے ہوں، وہ رات بھر روئے یہ لمحہ بھر روئے وہ جانے والوں کو واپس نہیں لا سکتی،،
آنکھیں وہ منظر بھولتی نہیں ہے، گرم زمین پر تڑپتے ہوئے معصوم عورتوں مردوں کے لاشے اور پولیس کی بربریت، طاہرہ آصف تو بازار جانے کے لیے گھر سے خوشی خوشی نکلی تھی ایسے کیا پتہ تھا کہ وہ دنیا سے ہی نکل جائے گی، کیا ان عورتوں کو انصاف ملے گا، ان کے بچے ساری عمر بند دروازوں کو دیکھتے رہیں گے، طاہرہ آصف تیرے بغیر اسمبلیاں تو چلتی رہیں گی تیری سیٹ خالی نہیں رہے گی اس پر کوئی دوسرا براجمان ہوجائے گا، پر تیرا گھر تیرے معصوم بچے تیرے قہقوں سے ترستے رہیں گے، تیرے بچے تیری آغوش سے محروم رہے گے۔

بھائی لوگوں حرمت والے مہینوں میں شرفاء کی عورتوں کو بے حرمت کیوں کیا گیا، یہ کھیل کس نے کس کے اشاروں پر کھیلا اور کیوں کھیلا، عقل حیران ہے دل پریشان بے چین ہے دل فریادی ہے، اب تو سوال کرو تو جواب بھی نہیں ملتا،
تجھ سے فریاد ہے اے گنبد خضری والے
کعبے والوں کو ستاتے ہیں یہ کعبے والے

Mohsin Shaikh
About the Author: Mohsin Shaikh Read More Articles by Mohsin Shaikh: 69 Articles with 61257 views I am write columnist and blogs and wordpress web development. My personal website and blogs other iteam.
www.momicollection.com
.. View More