آپریشن متاثرین کی تعداد میں مسلسل اضافہ....ایک اور انسانی المیے کا جنم؟

18جون سے وزیرستان میں فوج کا آپریشن جاری ہے، جس کی زد میں عسکریت پسندوں کے ساتھ عوام بھی آرہے ہیں۔ منگل کے روز فوج کی بمباری سے ایک ماں اپنے پانچ بچوں سمیت زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھی۔ اس سے پہلے بھی ڈرون حملوں کی طرح فوجی آپریشن میں بھی عوام نشانہ بنتے رہے ہیں۔ پاک فوج کے وزیرستان میں آپریشن ”ضرب عضب“ شروع کرنے کے بعد سے وزیرستان کے عوام کی مشکلات میں مزید اضافہ ہوگیا ہے۔ لوگ اپنی جان بچانے کے لیے بے یقینی، خوف اور مایوسی کی کیفیت میں اپنا گھر بار چھوڑ کر جوق در جوق وزیرستان سے نکل کر ایسی منزل کی جانب رواں دواں ہیں، جس منزل کا انہیں خود بھی کچھ علم نہیں ہے۔ فوج کی جانب سے نقل مکانی کے لیے دی گئی مہلت میں گاڑیوں کا بھاری بھرکم کرایہ ادا کر کے اپنے سامان سمیت بہت سے لوگ وزیرستان سے نکلنے میں کامیاب ہوئے، جان لیوا گرمی میں بہت سے خاندان انتہائی بے چارگی و بے سروسامانی کی حالت میں پیدل 18 سے 20 گھنٹوں کی مسافت طے کر کے خواتین، بچوں اور مال مویشیوں سمیت بنوں پہنچے۔ راستے میں بھوک پیاس اور دیگر مشکلات کے باعث متعدد بچوں کی اموات بھی ہوئیں اور مسلسل پیدل چلنے کی وجہ سے بہت سے بیمار بھی پڑگئے۔ چند دنوں میں ہی ہزارہا گھرانے پاکستانی فوج کی بمباری سے بچنے کے لیے شمالی وزیرستان سے نکلنے پر مجبور ہوئے ہیں۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق آپریشن کے باعث اب تک پانچ لاکھ کے لگ بھگ افراد وزیرستان سے نقل مکانی کر چکے ہیں۔ پاکستان میں وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقوں میں آفات سے نمٹنے کے علاقائی ادارے فاٹا ڈیزاسٹر منیجمنٹ اتھارٹی کی طرف سے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق شمالی وزیرستان سے اب تک نقل مکانی کرنے والوں میں ایک لاکھ 90 ہزار سے زاید بچے، جب کہ ایک لاکھ 43 ہزار خواتین شامل ہیں۔ حکومت نے باضابطہ طور پر منگل کے روز یہ اعلان کیا کہ شمالی وزیرستان میں فوجی آپریشن آگے بڑھنے سے یہ تعداد چھ لاکھ تک پہنچ سکتی ہے۔ جبکہ مہاجرین کے حوالے سے کام کرنے والے اقوام متحدہ کے ادارے(عالمی ادارہ برائے مہاجرین) یونائٹڈ نیشنز ہائی کمیشن فار رفیوجیزکے مطابق وزیرستان سے نقل مکانی کرنے والے افراد کی تعداد چھ لاکھ تک پہنچ چکی ہے۔ نقل مکانی کرنے والوں میںبہت سے ایسے خاندان بھی ہیں جنہیں بنوں میں داخلے سے پہلے شدیدگرمی میں بھوکوں پیاسوں کئی کئی گھنٹے شہر سے باہر قائم حکومتی مرکز پر شناختی عمل سے بھی گزرنا پڑاہے۔ افراتفری میں بہت سے لوگوں نے اپنے خاندان سمیت وزیرستان سے نقل مکانی تو کرلی ہے، مگر ایسے بزرگ افراد جو چلنے پھرنے سے معذور ہیں، انہیں زیادہ تکلیف کا سامنا ہے۔ مسلسل چلنے کی وجہ سے اکثر و بیشتر بزرگ حضرات بیمار پڑ گئے ہیں۔

نقل مکانی کرنے والے افراد کی بے چارگی کا یہ عالم ہے کہ خلیل وزیر شمالی وزیرستان کے ایک فلاحی ورکر، جو 1500 رضاکاروں اور بلڈ ڈونرز پر مشتمل ایک فلاحی ادارے شمالی وزیرستان ایکشن کمیٹی کے صدر ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ پہلے وہ خود دیگر افراد کی امداد کرتے تھے، مگر اب انہیں خود مدد کی ضرورت ہے۔ ذرائع کے مطابق عوام کی ایک بڑی تعداد ابھی تک وزیرستان میں پھنسی ہوئی ہے۔ نقل مکانی کر کے بنوں پہنچنے والے افراد کا کہنا ہے کہ جو لوگ کرایہ ادا کرسکتے تھے، وہ تو قبائلی علاقے سے نکل گئے ہیں، مگر بہت سے لوگ تاحال شمالی وزیرستان میں موجود ہیں اور وہاں سے نہ نکل پانے کی صورت میں فوجی بمباری کے دوران ان کے مارے جانے کا خدشہ ہے۔ فوج کی جانب سے نقل مکانی کے لیے ملنے والی مہلت کے دوران ڈرائیوروںنے کرایہ اتنا زیادہ بڑھا دیاتھا کہ غریب لوگ کرایہ ادا کر ہی نہیں سکتے تھے اور حکومت نے بھی ان کی مدد کے لیے مناسب اقدامات نہیں کیے۔ میران شاہ سے بنوں پہنچنے والے غلام رسول کہتے ہیں: ”میرے گھر کے افراد ابھی تک وہاں پھنسے ہوئے ہیں۔ میرے کچھ رشتہ داروں کو یہاں آنے کے لیے میلوں پیدل چلنا پڑا ہے۔“ غلام رسول کا کہنا ہے کہ بمباری شروع ہونے سے پہلے عسکریت پسند میر علی اور میران شاہ سے نکل چکے تھے۔ اب اس فوجی کارروائی کا کیا فائدہ ہے؟ یہ کسے مارنے کی کوشش کر رہے ہیں؟ طالبان جنگجوؤں کو، ازبکوں کو یا چیچن کو؟ زیادہ تر عسکریت پسند تو کافی عرصہ پہلے ہی علاقے سے نکل چکے تھے۔ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے بھی اتوار کے روز اسی حوالے سے بیان دیتے ہوئے کہا تھا کہ کچھ وقت کے لیے آپریشن کو روکنا چاہیے، کیونکہ وہاں عورتیں اور بچے محصور ہیں۔ ایسے میں شہری آبادی کو نقصان پہنچنے کا خدشہ ہے۔

دوسری جانب وزیرستان سے نقل مکانی کرنے والے متاثرین سخت گرمی کے علاوہ دیگر بہت سی مشکلات کا شکار ہیں۔ انہیں رہائش کے لیے کوئی جگہ میسر نہیں ہے۔ حکومت دعویٰ کر رہی ہے کہ وہ متاثرین کی ہر مدد کرے گی، وزیر اعظم اور دیگر رہنماﺅں نے تمام صوبوں سے متاثرین کے ساتھ تعاون کرنے کی اپیل بھی کی تھی، لیکن حکومت کی جانب بنائے گئے کیمپ ہر قسم کی سہولت سے محروم ہیں، بجلی، پانی کی ضروت کو پورا کرنا تو ایک طرف رہا، ان متاثرین کی خوراک کا انتظام بھی نہیں کیا جارہا۔ اگرچہ عالمی پروگرام خوراک (ڈبلیو ایف پی) نے پیر کو مقامی امدادی گروپ کی مدد سے متاثرین میں خوراک تقسیم کرنا شروع کردی تھی، لیکن خوراک کی تقسیم میں تعطل پر ان افراد میں شدید اشتعال پھیل گیا۔ تاہم منگل کو ان مشتعل افراد کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا اور انہوں نے بنوں سے پشاور جانے والی مرکزی شاہراہ کو بند کر کے شدید احتجاج کیا۔ تقریباً 500 افراد نے سڑک بند کر کے احتجاجاً سیکورٹی فورسز پر پتھراؤ کیا، جس کے باعث پولیس کو انہیں منتشر کرنے کے لیے ہوائی فائرنگ کرنا پڑی۔ حکومتی کیمپوں میں بے شمار مشکلات کے پیش نظر متاثرین کی بڑی تعداد یا تو اپنے طور پر مہنگے کرایوں پر مکان لے کر رہ رہے ہیں یا پھر اپنے رشتہ داروں کے گھروں میں پناہ لینے پر مجبور ہیں۔ دوسری جانب شمالی وزیرستان سے اپنے گھروں کو خیربادکہنے والوں کے لیے صرف گھرچھوڑنے کا غم، رہائش اورکھانے پینے کی آزمائش ہی نہیں، سفری مشکلات کی وجہ سے مختلف امراض بھی نقل مکانی کرنے والوں کے لیے امتحان بن کر سامنے آرہے ہیں۔ وومن اینڈ چلڈرن ہسپتال بنوں کا ایک بڑا ہسپتال ہے، جہاں تقریباً 130 بستروں کی گنجائش ہے۔ یہ گنجائش بنوں کی 9 لاکھ آبادی کے لیے پہلے ہی ناکافی تھی، لیکن شمالی وزیرستان میں آپریشن کے بعد نقل مکانی کرنے والوں کے دباﺅ نے اس ہسپتال کے لیے بے ہنگم کیفیت پیدا کردی ہے۔ اس وقت اس ہسپتال میں تقریباً 8 سومریض زیرعلاج ہیں۔ درد اور تکلیف سے کراہتے بچے پیٹ کی بیماری، سفر کی وجہ سے بخار کی شکایت، جسم درد، ڈائریا اوردیگر بیماریوں میں مبتلا ہیں۔ مریضوں کی بھرمار کی وجہ سے بستر مل جانا خوش قسمتی سمجھا جاتاہے۔ اکثرمریضوں کو صحن میں فرش پر ہی علاج کے لیے لٹا دیا جاتا ہے۔ یہاں بڑی تعداد خواتین مریضوں کی بھی لائی جارہی ہے۔ حاملہ خواتین کے لیے یہ سفر اور اس سے جڑی ہرمشکل مزید سخت ہورہی ہے۔

واضح رہے کہ سیکورٹی فورسز کو فاٹا اور خیبرپختونخواہ میں جنگ شروع کیے کو ایک دہائی سے زاید عرصہ ہوگیا ہے۔ اس دوران نو بڑے آپریشن کیے گئے، مالاکنڈ اور سوات میں 2009 میں ہونے والی کاروائی کے باعث 25 لاکھ کے قریب افراد بے گھر ہونے پر مجبور ہوئے تھے، جو ملک کی تاریخ کی ریکارڈ نقل مکانی تھی، گزشتہ برسوں میں کسی حد تک پہلے سے متاثرین کے لیے کچھ نہ کچھ انتظامات کیے گئے تھے، لیکن وزیرستان میں آپریشن اچانک شروع کردیا گیا ہے اور نہ ہی حکومت متاثرین کے لیے پیشگی انتظامات کیے، جس سے متاثرین کی مشکلات میں مزید اضافہ ہوگیا ہے۔ مبصرین اور کچھ اعلیٰ حکومتی عہدیداران نے موجودہ نقل مکانی کو ایک انسانی المیہ قرار دیا ہے۔ قبائلی علاقوں میں ماضی کے فوجی آپریشنز کا نتیجہ بڑے پیمانے پر تباہی کی صورت میں نکلا تھا۔ وزیرستان کے افراد کو درپیش اس مشکل صورتحال کا خاتمہ کب تک ہوگا اس بارے میں ابھی تک کسی نے کوئی اقدام نہیں کیا۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ وزیرستان سے نقل مکانی کرنے والے چھ لاکھ افراد کی ضروریات کو پورا کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے، ایک جانب ملک بھر میں سخت گرمی ہے، جبکہ دوسری جانب چند روز کے بعد ہی رمضان المبارک شروع ہورہا ہے، ان حالات میں متاثرین کی مشکلات کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے۔ جب ہم اس قسم کے حالات میں رہنا پسند نہیں کرتے تو اپنے وزیرستانی بھائیوں کو بھی ان حالات سے بچانے کی کوشش کریں۔ حکومت کو چاہیے جلد از جلد آپریشن مکمل کرے، تاکہ تمام متاثرین اپنے گھروں کو واپس لوٹ سکیں۔

عابد محمود عزام
About the Author: عابد محمود عزام Read More Articles by عابد محمود عزام: 869 Articles with 636333 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.