انتظار کی گھڑیاں بیت گئی، طاہرالقادری کی آمد سے قبل جو
بحث چل رہی تھی یہ ہوگا وہ ہوگا جو ہوا کل سب نے دیکھ لیا، شکر ہے اللہ کا
سب با خیرو عافیت ہوا اب طاہرالقادری اپنے وطن میں موجود ہے، ڈاکٹر
طاہرالقادری ائیر پورٹ سے اپنے گھر جا چکے ہیں، حکومت وقت شرارت اور اوچھے
ہتھکنڈوں سے باز نہیں آئی، ان کے طیارے کو لینڈ کرنا تھا اسلام آباد ائیر
پورٹ پر حکومتی لوگوں نے طیارے کا رخ لاہور ائیر پورٹ کی جانب
کردیا،طاہرالقادری نے فوج سے رابطہ کئے بغیر طیارے سے باہر نہ آنے کا فیصلہ
سنایا، مگر پھر گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد نے ڈاکٹر طاہرالقادری سے
رابطہ کیا اور تجویز پیش کی کہ آپ گورنر پنجاب چودھری سرور کے ہمراہ گھر
جائے قادری صاحب نے یہ پیش کش قبول کرلی اور گھر جانے پر راضی ہوگے، چودھری
پرویز الہی نے ان کے لیے بلٹ پروف گاڑیاں بھجوائی اور تاکید کی کہ آپ میری
گاڑی میں بیٹھے، قادری صاحب نے دونوں گورنروں پر بھر پور اعتماد کا اظہار
کیا، یہ ان کے بہت قابل اعتبار انسان ہونے کی گواہی ہے، ڈاکٹر قادری شریف
برادران ان کے وزیروں خاص کر پرویز رشید پر بالکل اعتماد نہیں کیا یہ
طاہرالقادری نے بہت اچھا کیا، پرویز رشید بڑا چھچھورا قسم کا وزیر اطلاعات
ہے، ڈاکٹر قادری کی آمد سے قبل کہہ رہا تھا کہ طیارے کا رخ نہیں موڑا جائے
گا اور پھر طیارے کا رخ لاہور کی جانب موڑ دیا، حکومت نے ایک بار پھر 1999ء
کی تاریخ دہرا دی ہے، پہلے انہوں نے پی آئی اے کے طیارے کو ہائی جیک کیا،
اب ایک غیر ملکی طیارے کو ہائی جیک کرنے کی کوشش کی-
ہم دونوں گورنروں کو سلام پیش کرتے ہیں، مجھے گورنر سندھ سے ذاتی لگائو بھی
ہے وہ خدا ترس انسان ہے، چودھری پرویز الہی نے بہت اچھا کردار ادا کیا، پر
عمران خان نے کوئی کردار ادا نہیں کیا قادری صاحب کی آمد کے موقع پر، خان
صاحب نے پھر پرویز رشید کی طرح دل میں آگ لگا دیں کہتے ہیں کہ آپریشن ضرب
عضب کو وقتی طور پر روک دیا جائے، کیا خان صاحب خارجی دشمنوں کو بھاگنے کا
موقع دینا چاہتے ہیں، ہمیں یاد ہے خان صاحب نے یہ بھی کہا تھا کہ حکومت ایک
موقع اور دیتی لیکن اب آپریشن ضرب عضب شروع ہوگیا ہے تو ہم پاک فوج کی
حمایت کرتے ہیں، سچ بات ہے وہ اندر سے طالبان سے مذاکرات کے حامی ہے اور
باہر سے پاک فوج کے ساتھ یہ خان صاحب کی صرف زبانی شاہ خرچیاں ہے-
میرے خیال میں کل جو کچھ ہوا وہ غیر ضروری اور غیر سیاسی تھا، شہباز شریف
ماڈل ٹائون میں ہونے والی پولیس گردی سے لا علم تھے تو کیا اسلام آباد سے
لاہور تک تمام کارروائی سے نواز شریف کو بھی لا علم رکھا گیا۔ اس تمام تر
شرارت کے انچارج پرویز رشید ہے۔ ایک دن پہلے پرویز رشید نے کہا کہ ہم کسی
کو بھی گرفتار نہیں کریں گے، نہ طیارے کا رخ موڑیں گے، مگر طیارے کو ہائی
جیک کیا گیا۔ ایمریٹس ائیر لائنز نے بین الااقوامی قانون کے تحت مقدمہ درج
کرنے کا حکم دیا ہے، اب پرویز رشید کہیں گے کہ یہ مقدمہ بھی ڈاکٹر
طاہرالقادری کے خلاف درج ہوگا، جبکہ اصل میں یہ مقدمہ پرویز رشید کے خلاف
بننا چاہیے، پرویز رشید نے نواز حکومت کو جو مسلسل نقصان پہنچایا ہے، اس کی
مثال نہیں ملتی، قادری صاحب نے بھی خوب اچھا کہا کہ اگر میرے کارکنوں کو
کچھ ہوا تو نماز جنازہ وزیراعظم ہائوس میں ہوگی، پرویز رشید نے پیش کش کردی
کہ میں نماز جنازہ پڑھائوں گا۔ پرویز رشید نے ڈاکٹر قادری کی آمد کو ضرب
عضب سے تشبیہ دی ہے جو بہت شر انگیزی ہے، یہ سب پرویز رشید کا سیاسی غیض و
غصب کی بات ہے، اور یہ پاک فوج کی توہین کے مترادف ہے،وہ اب بھی ظالمان کے
ساتھ نظر آتے ہیں، ڈاکٹر بریلوی لوگوں کے قائد ہیں، اور طالبان دیوبندی ہیں
مولانا فضل الرحمان بھی دیو بندی ہے عمران خان اور حکومتی لوگوں میں اکثریت
بھی دیو بندیوں کی ہیں،اس حکومت نے ان لوگوں کی پارٹیوں کو وزارتیں دے رکھی
ہیں-
زرداری حکومت میں بھی ڈاکٹر قادری نے اسلام آباد کے ڈی چوک پر دھرنا دیا
تھا۔ مگر حکومت کی طرف سے کوئی انتقامی رد عمل کا اظہار نہیں ہوا اور سارا
معاملہ سلامتی کے ساتھ ختم ہوگیا۔ اب بھی ڈاکٹر قادری کی آمد پر معاملات
وقتی طور پر ختم ہوگئے ہیں، مگر ابھی بہت سے موقف اور بے قراریاں مچل رہی
ہیں، یہ سب کچھ ردی کی ٹوکری میں نہیں گیا۔ ابھی خاک و خون اور آگ کا گٹر
دہک رہا ہے شعلے ابل رہے ہیں، نئے فساد خون ریزی کا خدشہ ہے، حکومت اور
پولیس کی ساکھ تو جل کر راکھ ہوگئی اب راکھ اڑانے کی تیاریاں ہورہی ہیں جو
انتہائی خطرناک ہے، اس ساری صورتحال میں پولیس بہت گندی ہوگئی ہے انہوں نے
پنجاب حکومت کے اشاروں پر خوب گندگی پھیلائی ہے، منہاج سیکرٹریٹ میں انہوں
نے جو کیا پولیس گردی دہشت گردی سے بہت آگے نکل گئی تھی، پولیس نے بزرگوں
کی داڑھیاں نوچیں لوگوں کو سڑکوں پر لٹا لٹا کر مارا گیا، عورتوں کو تار
تار کرکے جان سے ماردیا گیا، پہلے پولیس والوں کو کہا گیا کہ لوگوں کو خوب
کٹو اب کہا گیا کہ تم کٹ جائوں، پولیس والوں کا امیج تو پہلے ہی خراب تباہ
وبرباد تھا، اب رہی سہی کسر بھی پوری ہوگئی، اب کون پولیس پر اعتماد کرے
گا-
یہ حکمران کتنے ظالم بے رحم اور سنگدل ہیں، اب حاکم اور ظالموں میں کوئی
فرق نہیں رہا، وہ پولیس کے ذریعے حکومت کرتے ہیں، پولیس تو ان سے بھی بڑی
ظالم ہے، پولیس حکمرانوں کو اپنا آقا اور عوام کو ملزم سمجھتی ہے، میڈیا نے
ایک ایک منظر صاف دیکھا دیا ہے لوگوں کو پتہ چل گیا ہے کہ جمہوریت اور
آمریت میں کوئی فرق نہیں ہے، یہ افسوسناک بات ہے جو سیاستدان کہتے ہیں کہ
بد ترین جمہوریت اعلی آمریت سے اچھی ہے، انہوں نے خود جمہوریت کو بدترین تو
مان لیا بد ترین جمہوریت کے کارنامے بھی عوام نے دیکھ لیے ہیں، تو پھر اس
بد ترین جمہوریت سے بہتر تو آمریت ہی بہتر ہے،مرزا غالب نے کہا تھا کہ
کیا وہ نمرود کی خدائی تھی
بندگی میں مرا بھلا نہ ہوا، |