بے قابو جمہوریت ، اب قابو میں !

دل چاہ رہا ہے کہ پوری قوم کو مبارکباد دوں کہ ملک میں '' آمریت کم جمہوریت '' دور کا ایک بار پھر آغاز ہوگیا ہے ۔ یہ وہی دور تھا جو سابق صدر پرویز مشرف نے تخلیق کیا تھا لیکن خدشہ ہے کہ جمہوری حکومت اور جمہوریت کے وفادار اس کا اعتراف نہیں کریں گے تاہم یہ خبر ان لوگوں کے لیے تو باعث اطمینان ہوگی جو ملک میں سات سالہ مکمل جمہوری دور سے بیزار آچکے ہیں ، خبر یہ کہ ملک میں جاری جہوریت کو ابتدائی طور پر '' قابو '' میں کرلیا گیا ہے مطلب یہ کہ '' کنٹرول ڈیموکریسی '' شروع ہوچکی ہے ۔

سوال یہ ہے کہ کنٹرول ڈیموکریسی کیسے اور کب شروع ہوئی ؟ اس کے لیے باہر کی کسی قوت کی مداخلت کے شواہد مجھے نظر نہیں آتے بلکہ یہ سب کچھ شریف برادران اور آصف زرداری کی جمہوری حکومتوں کی نااہلی کی وجہ سے ہوا ہے، جس نے قوم سے صرف ووٹ نہیں بلکہ ان کا سکھ چین بھی لیا اور بدلے میں ان سے صرف وعدے اور دعوے کیئے ۔

پیر کو وزیراعظم نواز شریف کی صدارت میں ہونے والے اعلیٰ سطحی اجلاس میں انہوں نے آئین کے آرٹیکل 245 کے تحت فوج کو کارروائی کا اختیار دینے کا فیصلہ کیا جس کے تحت فوج سول انتظامیہ کی مدد کیلئے کارروائی کرے گی جبکہ سول انتظامیہ کسی بھی صورتحال سے نمٹنے کیلئے فوج کو طلب کرسکے گی۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ فوج کو کارروائی کا اختیار شمالی وزیرستان آپریشن کے بعد ممکنہ رد عمل سے نمٹنے کے لئے دیا گیا ہے جبکہ یہ فیصلہ بالخصوص کراچی،لاہور اور اسلام آباد میں سکیورٹی خدشات کے پیش نظر کیا گیا۔ ذرائع کامزید کہناہے کہ وزیراعظم نے فیصلے سے متعلق احکامات جاری کردیئے ہیں جس کے بعد کابینہ ڈویژن کی جانب سے جلد ہی اس کا نوٹی فکیشن جاری کردیا جائے گا۔

ایسا لگتا ہے کہ یہ فیصلہ بھی عسکری قوت کے دباؤ کے نتیجے میں کیا گیا ہے ۔ یہ وہ ہی فیصلہ ہے جس کا مطالبہ آصف زرداری کی پانچ سالہ حکومت کے دوران امن و امان کی تباہ حالت سے تنگ کراچی سمیت ملک بھر کے لوگ کرتے رہے تھے ۔

اس سے قبل حکومت ، طالبان یا عسکریت پسندوں کے خلاف فوجی آپریشن کا فیصلے کرکے اس پر عمل درامد کا آغاز کرچکی ہے یہ فیصلہ بھی جمہوری حکومت کی خواہشات کےخلاف کیا گیا تھا جس کا اظہار مختلف فورم پر ہورہا ہے ۔ جو حکومت عوام کی ترجیحات کے بجائے اپنی خواہشات کی تکمیل کو ترجیح دینے لگے اس کے اقدامات کا یہ ہی ردعمل نکلتا ہے ۔

عام تاثر یہ ہے کہ موجودہ حکومت جمہوریت کے راگ میں ایک طرف عوام کی خواہشات کو اور ان سے کیے گئے وعدوں کو بھول چکی تھی تو دوسری طرف عسکری قیادت کی مختلف اہم معاملات پر خاموشی کو اس کی کمزوری سمجھنے لگی تھی جس کے نتیجے میں شکوے شکایتیں بڑتی گئیں تاہم جب رد عمل شروع ہوا تو حکومت اس قدر کمزور نظر آنے لگی کہ وہ فوج کی مرضی کے بغیر کوئی بھی فیصلے نہیں کرسکتی ۔ اہم اجلاس میں عسکری قیادت کی موجودگی اس بات کا واضح ثبوت ہے۔

دوسری طرف تحفظ پاکستان بل قومی اسمبلی کے بعد سینیٹ سے بھی اتفاق رائے سے منظور کیا جاچکا ہے اہم بات یہ کہ اس بل کی اکثر سیاسی جماعتوں نے مخالفت کی تھی لیکن ایوانوں میں یہ دیکھا گیا گیا کہ اس کی مخالفت کسی بھی رکن نے ووٹ کے ذریعے تو کجا زبانی بھی واضح الفاظ میں نہیں کی ۔

پیپلزپارٹی کے سینیٹر رضا ربانی نے بل کی مخالفت کے بجائے سینیٹ اجلاس میں وزیر داخلہ چوہدری نثارعلی کی عدم موجودگی پر شدید تنقید کی اور یہ مضحکہ خیز موقف اختیار کیا کہ اگر غیر معمولی حالات نہ ہوتے تو بل کبھی منظور نہ ہونے دیتے۔

متحدہ قومی موومنٹ نے بھی اس بل کی حمایت کردی جو بظاہر اس کی بڑی مخالف نظر آرہی تھی ۔ متحدہ کے قائد نے متحدہ کی جانب سے اس بل کی حمایت پر تاریخی بیان دے ڈالا ، الطاف حسین کا کہنا تھا کہ '' رابطہ کمیٹی نے بل کی حمایت میری اجازت کے بغیر کی ہے ، تاہم اسے زیادہ عرصے چلنے نہیں دیا جائے گا ''

واضح رہے کہ اس سے قبل تحفظ پاکستان بل پراکثر سیاسی جماعتیں اپنے تحفظات کا اظہار کرچکی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ بل انسانی بنیادی حقوق کے خلاف اور کالا قانون ہے کیوں کہ اس قانون کے تحت سیکورٹی فورسز کو یہ اختیار حاصل ہوجائے گا کہ وہ کسی بھی شخص کو صرف شک کی بنیاد پر حراستی مراکز میں 90 دن تک رکھ سکتی ہیں، اس کے علاوہ فورسز کو کسی بھی گھر یا جگہ کی تلاشی کے لئے عدالت کے اجازت نامے کی ضرورت نہیں ہوگی۔
اب ذرا غور کیجیئے کہ جمہوری لوگ خود اس بل ک
ی حمایت کررہے ہیں جنہوں نے خود ہی اس کے حوالے سے شور شرابا مچایا ہوا تھا ، آخر ایسا کیوں ہوا ؟ ۔ باخبر لوگ کہتے ہیں کہ تحفظ پاکستان بل دراصل عسکری قیادت کی خواہش کے مطابق ایوان میں لایا گیا ہے اگر ایسا ہے تو پھر یہ بات بھی عیاں ہوجاتی ہے کہ پاکستان اور پاکستانی قوم کے تحفظ کی اصل خواہشمند یہ ہی عسکری قیادت ہے ۔ اسٹبلشمنٹ کی خواہش یا اس بل کے پس پردہ ہونے کا فائدہ یہ ہوا کہ کسی بھی رکن اسمبلی کی ہمت نہیں ہوئی کہ اس بل کی مخالفت کرسکے ۔

اسے ہی کہا جاتا ہے '' کنٹرول ڈیموکریسی '' ۔

بقول سابق صدر اور سابق آرمی چیف پرویز مشرف کے '' ہم بحیثیت قوم آئیڈیل جمہوریت کے قابل نہیں ہیں ''

گزشتہ سات سال سے جاری رواں جمہوری نظام نے بار بار یہ احساس دلایا ہے کہ پرویز مشرف کا مئوقف ہی درست تھا ۔ لیکن بد قسمتی کہ اب بھی بعض سیاسی لوگ پرویز مشرف کو غلط ہی سمجھتے ہیں حالانکہ کنٹرول ڈیموکریسی کے پرویز مشرف والے فارمولے پر اتفاق ہر منتخب اور غیر منتخب سیاسی حلقے میں نظر آرہا ہے ۔

یہ اور بات ہے کہ سیاست دانوں کو اب بھی اس بات کے خدشات ہیں کہ جمہوریت کو ڈی ریل کردیا جائے گا ۔ پیپلز پارٹی کے رہنما اور سینیٹ میں اپوزیشن لیڈر رضا ربانی نے ملک اور جمہوریت کو درپیش خطرات سے نمٹنے کے لیے 14 نکاتی چارٹر پیش کرتے ہوئے اس پر عمل درآمد کی ضرورت پر زور دیا ہے ۔

مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ملک کی دوسری بڑی سیاسی پارٹی جو جمہوری دور میں اپوزیشن کا درست کردار بھی ادا نہیں کرپارہی ، جو عسکری قوت کے پسندیدہ بل ، پسندیدہ فیصلوں اور اقدامات کی مسلسل حمایت کررہی ہے ، کیا وہ واقعی '' جمورہت کا تحفظ چاہتی ہے ؟

جمہوری حکومت کا حال تو دیکھیے حکومت کے اہم وزیر چوھدری نثار ناراض ہوگئے تو وزیراعظم نواز شریف کی نیندیں اڑ گئیں اور خبریں آنے لگی کہ وہ اپنا علیحدہ فارورڈ گروپ بنانے پر غور کررہے ہیں ۔ تصور کریں کہ اگر چوہدری نثار فارورڈ گروپ بناتے ہیں یا تحریک انصاف یا کسی اور گروپ سے جا ملتے ہیں تو پھر کیا ہوگا ، یہ حکومت نہیں رہی تو پھر کس پر الزام آئے گا پھر تو نہیں کہا جائے گا نہ کہ تیسری قوت نے جمہوریت کو ڈی ریل کردیا ۔

جمہوریت وہ بھی ایسی جمہوریت جس کے بارے میں سبکدوش ہونے والے آزاد عدلیہ کے دوسرے جسٹس تصدق حسین جیلانی کا کہنا ہے کہ '' ایسی جمہوریت نہیں چل سکتی جس سے لوگوں کی زندگی میں مثبت تبدیلی نہ آئے '' ۔ قوم تو ایسی جمہویت اور جمہوری لوگوں سے مسلسل تنگ ہے۔۔۔۔۔ نہیں نہیں ایسی جمہوریت میری قوم کو نہیں چاہیئے -
Muhammad Anwer
About the Author: Muhammad Anwer Read More Articles by Muhammad Anwer: 179 Articles with 152419 views I'm Journalist. .. View More