تحفظ پاکستان بل……کالا قانون؟

کچھ عرصہ قبل دراب سپیشل آڈیٹوریم میں انسانی حقوق کمیشن آف پاکستان کے زیر اہتمام ایک سیمینار منعقد ہوا تھاجس میں تحریک انصاف ،ایم کیو ایم، اے این پی، جماعت اسلامی ، بلوچ قوم پرست جماعتیں اور سول سوسائٹی کے ارکان شامل تھے۔ سیمینار کا مقصد یہ تھا کہ تحفظ پاکستان بل کو ناصرف سختی سے رد کیا جائیگا بلکہ ہر سٹیج پر اس کی مخالفت کی جائے گی ۔سیمینار میں انسانی حقوق کی علمبردار عاصمہ جہانگیر نے وضاحت کرتے ہوئے کہا تھا کہ اگر پارلیمنٹ نے تحفظ پاکستان بل منظور کیا تو سیاسی جماعتوں کے ساتھ ساتھ سول سوسائٹی کے لوگ بھی سڑکوں پر ہوں گے بندوق کا قانون کسی صورت میں لاگو نہیں ہونے دیں گے۔ فاروق ستار نے فرمایا کہ یہ کالا قانون ہے اگر دہشت گردوں پر بھی بنایا گیا تو اس کی مخالفت کریں گے ہم ما ورائے عدالت قتل کو نہیں مانتے ۔سیکیورٹی اداروں کو گولی مارنے، بغیر ورانٹ چھاپے اور گرفتاری وجہ بتائے بغیر وراثت میں رکھنے جیسے قوانین انسانی حقوق کی کھلی خلاف ورزی ہیں آج ہمارے ساتھ یہ ہورہا ہے تو کل خواجہ سعد رفیق اور خواجہ آصف کے ساتھ بھی ہو سکتاہے۔ اے این پی کے راہنما حاجی عدیل نے کہا کہ اگر یہ قانون قبائلی علاقوں اور وزیرستان میں نافذ نہیں ہوگا کہ یہ قانون بے معنی ہے بے کار ہے جماعت اسلامی کے رہنما لیاقت حسین بلوچ نے کہا کہ محض معلومات کی بنیاد پر کسی کو گولی نہیں ماری جاسکتی کیونکہ معلومات غلط بھی ہوسکتی ہے اور اسی طرح اس قانون کا استعمال بھی غلط ہو سکتا ہے جیسے کہ اس قانون کو فوجداری قانون پر ترجیح دی گئی اس کے لئے نئی عدالتیں قائم ہوں گی جس کا مقصد یہ ہے کہ من پسند ججز کو تعینات کیا جائے گا اور اپنی مرضی کے فیصلے مسلط کیے جائیں گے لہذا ہم ان کی شدت سے مخالفت کرتے ہیں ۔تحریک انصاف کے شفقت محمود نے کہا تھا کہ ہم نے اصولوں کی بنیاد پر اس کو رد کیا ہے اور اس کی مخالفت میں ہر حد کو جانے کیلئے تیار ہیں ۔میں یہ بھی یاد دلانا چاہتا ہو ں کہ ماضی میں نواز شریف نے انسداد دہشت گردی کا قانون بنایا تھا جس پر صحیح معنوں میں درآمد نا ہوسکا اور بالآخر اس کا اطلاق خود نواز شریف پر ہوا ۔بلوچ رہنماؤں کے مطابق یہ جبرواستبداد کا قانون ہے اور انسانی حقوق سے متصادم ہے لہذا اس کا اطلاق نہیں ہونا چاہیے۔

یہ تمام باتیں اور بیانات دہرانے کا مقصد یہ ہے کہ کچھ عرصہ قبل جو لوگ اور جماعتیں تحفظ پاکستان بل کی شدومد کے ساتھ مخالفت کر رہی تھیں۔ اسے کالا قانون قرار دے رہی تھیں انسانی حقوق کی کھلم کھلا خلاف ورزی گردان رہی تھیں ان میں سے اکثر بل کے منظور ہونے کے وقت اس کے حق میں فیصلے دیتی رہیں یا خاموشی اختیار کرلی اور خاموشی بھی نیم رضا مندی سمجھی جاتی ہے ۔سب سے زیادہ شور مچانے والے فاروق ستار نے بھی اس کے حق میں فیصلہ دیا جبکہ الطاف حسین اس کی مخالفت کر رہے ہیں اور یہ بھی کہ رہے ہیں کہ دوستوں نے مشاورت کے بغیر فیصلہ کیا ہے ۔

بہر حال ان تمام باتوں سے قطع نظر اس قانون کے تحت ملک میں تھوڑی بہت بچی کچی قانون کی عملداری ہے وہ بھی ختم ہو جائے گی پولیس جوکہ بے لگام گھوڑے کا روپ دھار چکی تھی سیاستدانوں کے گھر کی باندی بن چکی تھی اب بدمست ہاتھی بن جائے گی سیاستدان اور انکے گر کے کسی بھی شخص کو پولیس مقابلے میں پار کراویں گے اور مرنے والے تک کو پتہ بھی نہیں ہوگا کہ مجھ پر دہشت گرد غدار وطن مخالف یا ملک دشمن عناصر ہونے کا الزام تھا اور اس حوالے سے یہ کبھی بھی ثابت نہ کر پائیں گے کہ مرنے والا ان کاعزیز ایک شریف النفس اور محب وطن شہری تھا اسکا جرم اتنا تھا کہ اس نے اپنے حق کیلئے آواز اٹھائی تھی ارباب اختیار وا قتدار کو آئینہ دکھانے کی کوشش کی تھی کس جاگیردار ، وڈیرے یا رسہ گیر کا ناجائز حکم ماننے سے انکار کردیا تھا اور پولیس کو گناہگار ثابت کرنا تو اونٹ کو رکشے میں بٹھانے کے مترادف ہے سابقہ تاریخ واضح طور پر ثابت کرتی ہے کہ کتنے ہی جعلی پولیس مقابلوں میں بے گناہ اور گناہگاروں کو پار کرایاگیا تھا اور آج تک کسی پولیس والے ،کسی سرپرستی کرنے والے کسی حکم دینے والے کا واضح ثبوت کے باوجود کچھ نہ بگڑا۔ ہاں ایسی مثالیں موجود ہیں کہ ان جعلی مقابلوں کو کنڈکٹ کرنے والوں کو ترقیاں دے کر ان کی ’’خدمات‘‘ کو سراہا گیا ۔حکومتی رٹ کو چیلنج کرنا ملک دشمنی گردانا جائے گا۔بالکل صحیح! حکومت کچھ بھی کرتی رہی وہ ٹھیک ہے اور اگر اس کے ناجائز غلط اور خلاف قانون افعال و اعمال کے خلاف آواز اٹھائی جائے گی تو اس کا گلا گھونٹ دیا جائے گا یہ کونسا انصاف ہے اور کونسا عدل ہے ؟یعنی چند ہاتھوں میں اکثریت کو یرغمال بنانے کی مزید کوشش کی جارہی ہے۔ملک کو پولیس سٹیٹ بنایا جارہا ہے۔ تحفظ پاکستان بل کا نفاد اور اس پر عمل درآمد کا جتنا بھی عرصہ گزرے گا وہ پاکستانی تاریخ کا ایک سیاہ باب ہوگا ۔ اس کے نافذ کرنے والوں اس کی حمایت کرنے والوں اور اس پر خاموش رہنے والو ں کو تاریخ کبھی مغاف نہیں کرے گی-
liaquat ali mughal
About the Author: liaquat ali mughal Read More Articles by liaquat ali mughal: 238 Articles with 211813 views me,working as lecturer in govt. degree college kahror pacca in computer science from 2000 to till now... View More