کیا واقعی حکومت نے این آر اُو پر ہار مان لی ہے....؟

صدر زرداری نے الطاف حسین کا مشورہ مان لیا ....
اَب این آر او پارلیمنٹ میں پیش نہیں کیا جائے گا

یہ حقیقت ہے کہ حکومت نے این آراو کو پارلیمنٹ میں پیش نہ کرنے کا فیصلہ کر کے ملک میں جمہوریت کی آبیاری کے لئے ایک اچھا قدم اٹھایا ہے۔ مگر حکومت کے اِس اچھے اقدام کو بھی بعض ملکی سیاسی حلقے اِسے حکومتی ہار سے تعبیر کرتے نہیں تھک رہے ہیں۔ کہ یہ حکومت این آر او کو پارلیمنٹ میں پیش نہ کرنے کا فیصلہ کرکے کسی سنگین جرم کی مرتکب ہوگئی ہے۔ یا جو اِس کی ناکامی کے ساتھ ساتھ اِس کی ہار کے بھی مترادف ہے۔ حالانکہ ایسی کوئی بات قطعاً نہیں ہے۔ جس سے متعلق یہ خبرہے کہ حکومت نے این آر او کے معاملے میں پھر پور مخالفت برداشت نہ کرتے ہوئے گھٹنے ٹیک دیئے ہیں۔ اور حکومت نے اپنی ہار مان لی ہے اور اَب ہمیشہ ہمیشہ کے لئے قومی مصالحتی آرڈیننس کو لپیٹ دیا گیا ہے۔

جبکہ ایسا کچھ نہیں ہے اِس کی اصل وجہ یہ ہے کہ حکومت یہ بات تسلیم کرنے سے کترا رہی ہے کہ اِسے این آر او کو ایسے وقت میں پیش ہی نہیں کرنا چاہئے تھا کہ جب ملک پہلے ہی اپنے اندورنی اور بیرونی طور پر کئی سیاسی اور اقتصادی لحاظ سے بھی بہت سے چیلنجز میں گھرا ہوا ہے۔ ایسے وقت میں این آر او کو پیش کرنا اِس کی ایک بڑی غلطی تھی۔ اور اب حکومت اپنے ایک مخلص دوست ایم کیوایم کے قائد الطاف حسین کے مشورے سے این آر او کو پارلیمنٹ میں پیش کرنے جیسی غلطی سے پہلے ہی رک گئی ہے۔ جو ملک اور قوم کے حق میں بہت اچھا ہوا ہے۔

یہاںراقم الحرف یہ سمجھتا ہے کہ حکومت اِس بات کا بھی برملا اظہار کرے کہ حکومت نے این آر او کو پارلیمنٹ میں پیش نہ کر کے کوئی ہار نہیں مانی ہے۔ بلکہ حکومت نے تو تیل دیکھا اور تیل کی دھار کو دیکھتے ہوئے این آر او کی بساط پلٹی ہے اور اِس کے ساتھ ہی حکومت یہ بھی کہئے کہ جب کبھی بھی حکومت کو یہ یقین ہوجائے گا کہ این آر او کے معاملے میں نمبر گیم پورا ہوگیا ہے تو پھر حکومت ایک لمحہ بھی ضیائع کئے بغیر ہی این آر او کو پارلیمنٹ میں لے آئے گی اور واضح اکثریت سے پارلیمنٹ سے این آر او کو منظور کروانے میں کامیاب ہوجائے گی۔

اور اَب جبکہ اِس میں بھی کوئی شک نہیں کہ حکمران جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین اور صدر مملکت آصف علی زرداری نے اپنی سیاسی بالغ النظری کا مظاہر کرتے ہوئے قومی مصالحتی آرڈیننس پر اپنے اتحادیوں میں پیدا ہونے والے تحفظات اور مخمصوں کے باعث گزشتہ پیر کی شب اپنی جماعت کی پارلیمانی پارٹی کے ایک انتہائی اہم اجلاس کے بعد این آر او کو پارلیمنٹ میں پیش نہ کرنے کا فیصلہ کرکے ملک کو ایک بڑے سیاسی بھوچال سے بچا لیا ہے۔ جو یقیناً ملک اور قوم کے حق میں اِن کا اور اِن کی جماعت کا ایک اچھا اور قابلِ تعریف فیصلہ ہے۔

جس کا ساراکریڈیٹ جہاں صدر مملکت آصف علی زرداری اور اِن کی پارٹی کی اعلیٰ سطح کی قیادت کو جاتا ہے تو وہیں ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین کے سر بھی اِس کا سہرا جاتا ہے کہ جنہوں نے صدر مملکت آصف علی زرداری کو این آر او پارلیمنٹ میں پیش نہ کرنے کا مشورہ دیا۔ اور جس پر صدر مملکت اور اِن کی پارٹی کی اعلیٰ قیادت نے بروقت اور دور اندیشی مظاہرہ کرتے ہوئے فوری طور پر عمل کیا اور این آر او کو پارلیمنٹ میں پیش نہ کرنے کا فیصلہ کر کے ملک کو ایک ایسے سنگین سیاسی بحران سے بچا لیا جو بعد میں رکنے سے بھی نہ رکتا۔

اگرچہ یہ حقیقت ہے کہ موجودہ حکومت نے قومی مصالحتی آرڈیننس (این آر او) کو اپنی تمام حلیف جماعتوں کو ملا کر اپنے نمبر آف گیم کے تسلی بخش ہونے کے تصور کے ساتھ اِسے چند ایک دو روز یا آئندہ چند دنوں میں اپنے تئیں پارلیمنٹ میں پیش کرنے کا ہوم ورک مکمل کرلیا تھا اور اِس کے ساتھ ہی اِسے ہر صورت میں پارلیمنٹ میںپیش کرنے کا تہیہ بھی کر رکھا تھا مگر حکومت اور صدر مملکت کو اُس وقت اپنے اِس پہلے سے طے شدہ پروگرام پر نظرثانی کرنی پڑی۔ کہ جب خبروں کے مطابق حکومت کی اتحادی ایک بڑی جماعت ایم کیوایم کے قائد الطاف حسین بھائی نے اپنے ایک انٹرویو میں(جو انہوں نے ایک نجی ٹی وی کو دیا تھا )جس میں انہوں نے تمام جماعتوں کے تناظر میں مخلصانہ مشورہ دیتے ہوئے کہا کہ حکومت این آر او کے مسئلے پر جمہوریت اور موجودہ نظام کو بچانے کے لئے ہر ممکن قربانی دے۔ اور اِس موقع پر انہوں نے صدر زرداری کو اپنا برادرانہ یہ مشورہ بھی ضرور دیا تھا کہ این آر او کو پارلیمنٹ میں پیش نہ کریں اور اِس کے ساتھ ہی اپنے اِسی انٹرویو میں پاکستان متحدہ قومی موومنٹ(ایم کیو ایم)کے قائدالطاف حسین نے یہ گلہ بھی کیا تھا کہ پیپلزپارٹی نے اپنی حلیف جماعت یعنی ایم کیو ایم کو اہم معاملات پر اعتماد میں نہیں لیا۔

یہاں میرے نزدیک مگر پھر بھی ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین نے صدر مملکت آصف علی زرداری کو برادرانہ مشور دیا۔ اِن کا یہ مشورہ ہر لحاظ سے پاکستان کے اندرونی اور بیرونی معاملات میں پل پل کی بدلتی ہوئی سیاسی اور اقتصادی طورپر انتہائی گھمبیر صورتحال کے حوالے سے بروقت اور مفید مشورہ ہے۔ اور جِسے مان کر ایک دوست(زرداری) نے دوسرے دوست (الطاف حسین)کی عزت افزائی کی ہے۔ جنہوں نے ملک میں ایک جمہوری عمل کو جاری رکھنے کی اچھی روایت ڈالی ہے۔

اور اُدھر دوسری طرف اگر ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین صدر مملکت کو این آر او سے متعلق اپنا بروقت مشورہ نہ دیتے تو شائد حکومت کسی خوش فہمی میں مبتلا ہونے کی وجہ سے قومی مصالحتی آرڈیننس( این آر او )کو تزک و احتشام کے ساتھ آئندہ چند ایک روز میں اِسے ویسے ہی پارلیمنٹ میں پیش کردیتی۔ تو پھر شائد حکومت خود ہی اپنے منہ کی کھا کر رہ جاتی۔ کیوں کہ اِسے اُس وقت اپنے نمبر کے اہداف کسی صورت میں بھی پورے نہیں ملتے حکومت کو جو اَب کچھ عرصہ انتظار کے بعد پارلیمنٹ میں این آر او پیش کرنے کی صورت میں حوصلہ افزا حاصل ہونگے۔

اور اِس کے باوجود اَب کوئی کچھ بھی کہے مگر حقیقت تو یہ ہے کہ حکومت نے این آر او کو پارلیمنٹ میں پیش نہ کرنے کا اعلان کر کے جس دانشمندی کا ثبوت دیا ہے یہ اِس کی سیاسی بلوغت کی جانب کھلی نشاندہی کرتا ہے۔ حکومت کتنی دور اندیش اور بالغ النظر ہے۔
Muhammad Azim Azam Azam
About the Author: Muhammad Azim Azam Azam Read More Articles by Muhammad Azim Azam Azam: 1230 Articles with 973891 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.