نا رو۔ نا رو ۔۔ میرے بچے نا رو ۔۔شیخ صاحب
اپنے شاگرد کو سمجھا رہے تھے۔ لیکن شاگرد تھا کہ روئے جارہا تھا۔ بات ہی
کچھ ایسی تھی جس پر شاگرد کو آخر کار رونا ہی تھا۔ شیخ نے اپنے شاگرد کو
مشورہ دیا تھا کہ وہ شادی کرلے۔ شادی میں مسئلے مسائل ہوتے ہی ہیں۔ اس لئے
اب شیخ صاحب نے مشورہ دیا کہ طلاق دے دو۔ شاگرد کو لڑائی جھگڑے کے باوجود
بیوی پسند ہے اس لئے چھوڑنا بھی نہیں چاہتا۔ اس لئے وہ رو رہا ہے۔ الطاف
حسین اپنے دوستوں کو بہت کم مشورہ دیتے ہیں۔ لیکن چونکہ ان کے مشورے تجربے
کا نچوڑ ہوتے ہیں اس لئے بڑی افادیت رکھتے ہیں۔ جب الطاف بھائی نے آصف علی
زرداری کو صدر بننے کا مشورہ دیا تھا تو ان کی صائب رائے کے احترام میں
زرداری صاحب نے مسند صدارت پسند کی تھی۔ اب متحدہ قومی موومنٹ کے قائد
الطاف حسین نے صدر آصف علی زرداری کو ایک اور مشورہ دیا ہے کچھ کہتے ہیں کہ
یہ استعفیٰ کا مشورہ ہے اور کچھ اسے جمہوریت بچانے کو مشورہ کہتے ہیں۔ لیکن
یہ مشورہ ایک بم شیل تھا جس نے زور دار دھماکہ کردیا تھا۔ ایک ٹی وی چینل
نے اپنی رپورٹ میں بتایا کہ ایم کیو ایم کے قائد نے صدر کو یہ مشورہ وفاقی
وزیر برائے پارلیمانی امور ڈاکٹر بابر اعوان کے ذریعے دیا جس میں انہوں نے
کہا ہے کہ بطور دوست میں آپ کو یہ مشورہ دینا چاہتا ہوں کہ جمہوریت بچانے
کیلئے آپ اپنے ساتھیوں سمیت بڑی قربانی دیں اور عدلیہ کا سامنا کریں۔ رابطہ
کمیٹی کے رکن مصطفیٰ عزیز آبادی نے اپنے ایک وضاحتی بیان میں کہا ہے کہ
قائد تحریک الطاف حسین نے نجی ٹی وی چینل کو انٹرویو میں آصف علی زرداری کو
استعفیٰ دینے کے مشورے کی کوئی بات نہیں کی۔ ٹی وی کے اینکر پرسن نے اس
حوالے سے جو خبر بھی دی ہے وہ اسلام آباد میں اپنے ذرائع کے حوالے سے دی ہے۔
اب تک صدر آصف علی زرداری نے بڑی مہارت، سیاسی سوجھ بوجھ اور دانشمندی سے
حکومت کی ہے۔ انہوں نے غیر ممالک کے ۲۲ دورے بھی کئے ہیں۔ قومی اسمبلی میں
صرف 120 ارکان کی اکثریت کے ساتھ خود صدر منتخب ہوئے۔ چیئرمین سینٹ اور
سپیکر قومی اسمبلی اپنی مرضی سے منتخب کرائے۔ اب صدر زرداری تھوڑی سی آزادی
چاہتے ہیں۔ جس کے لئے اپنے ساتھیوں سے مشورہ کیا تھا۔ میاں نواز شریف نے
صدر زرداری کو مشورہ دیا تھا کہ وہ ایسی غلطی نہ دہرائیں جس کے سبب انھیں
طویل عرصہ اقتدار کی راہداریوں سے دور رہنا پڑا تھا۔ انھوں نے اپنے بھائی
شہباز شریف اور چوہدری نثار کی بہت ہلکے انداز میں سرزنش کی تھی کہ انھیں
رات کے اندھیرے میں آرمی چیف سے جاکر نہیں ملنا چاہئے تھا۔ اسلام آباد میں
سیاسی ذرائع اس بات کی پیشن گوئی کررہے ہیں کہ ایوان صدر کا گھیراﺅ کرلیا
گیا ہے۔
جنرل کیانی کی مدت ملازمت 11 نومبر 2010ء میں ختم ہو گی ابھی ان کے پاس
پورا ایک سال ہے اس لئے ان کی ملازمت میں توسیع کے حوالے سے اختلافات کی
باتیں محض ہوائی کہی جاسکتی ہیں۔ بعض ذرائع کہتے ہیں کہ صدر زرداری 17 ویں
ترمیم کے اختیارات سے سبکدوش ہونے پر کسی طرح تیار نہیں ہیں جن کا تحت صدر
زرداری کو تینوں مسلح افواج کے سربراہان چیف جسٹس سپریم کورٹ و ہائی کورٹس
کی تقرری کا اختیار حاصل ہے۔ لیکن اس بارے میں بھی ایوان صدرارت سے وضاحت
کی جاچکی ہے۔ مسلم لیگ ن کی طرف سے بار بار یہ اعلان ہوتا رہا ہے کہ غیر
آئینی طریقے سے حکومت گرانے کی کسی کوشش کا ساتھ نہیں دیا جائیگا۔ میاں نوز
شریف خود اسی میدان کے شہسوار ہیں۔ کل انھیں بھی ان ہی حالات سے سابقہ پڑ
سکتا ہے۔ گزشتہ ڈیڑھ سال میں صدرآصف زرداری نے ملک کے ہر طبقہ کو بڑی
کامیابی سے استعمال کیا۔ تاہم ان کا اصل امتحان اب شروع ہوا ہے۔ موجودہ
حکومت پر کرپشن کے الزامات کا انبار ہے اور حکومت کسی بھی معاملہ میں اپنی
پوزیشن کلیئر نہیں کر سکی، حالیہ چینی کے بحران، سرکاری اراضی کی لوٹ سیل
اور کرائے کے بجلی گھروں کے علاوہ بیرونی سودوں میں بھی کمیشن اور کک بیکس
کا الزام ہے۔ ایسے میں این آر او پر حکومتی پسپائی ایک حکمت عملی بھی کہی
جاسکتی ہے لیکن یہ بات طے ہے کہ کھیل شروع ہوچکا ہے۔ اب یہ کھلاڑیوں پر
منحصر ہے کہ وہ کیا حکمت عملی ترتیب دیتے ہیں۔ |