موجودہ ملکی حالات کو دیکھا جائے
تو نہ جانے کیوں خوش فہمی کا شکار بھی نہیں ہو ا جا سکتا ، ہر مشکل اور
کٹھن وقت میں بھی کچھ امید اور آس باقی رہتی ہے لیکن اب خدا کی ذات سے امید
ہے کہ وہ اگر ہمارے حالات پر رحم کرے تو کچھ بہتر ہو جائے ورنہ تو آثار
اسکے نظر نہیں آتے باوجود اسکے کہ نوجوان نسل بہت زیادہ با شعور ہو چکی ہے
مگر اسکے ساتھ ساتھ وہ اپنے مستقبل کے بارے میں بھی فکر مند ہے آج کوشش
کرتے ہیں کہ ان لوگوں کے دعووں پر جو مسلم لیگ کی ایک سالہ حکومت کو کامیاب
قرار دے رہے ہیں ایک سیر حاصل بحث کی جائے فیصلہ اپنے قارئین پر چھوڑ دیا
جائیگا کہ وہ اس بارے میں کیا کہتے ہیں ۔
یہ درست کہ مسلم لیگ نواز کو جن حالات میں حکومت ملی وہ نہایت ہی دگرگوں
تھے ۔ امن و امان کا مسئلہ ، توانائی کا بحران ،مہنگائی ،بے روزگاری ، روپے
کی گرتی ہوئی ساکھ ، بد ترین معاشی حالات اور سیاسی بنیادوں پر بھرتی کیئے
گئے افراد سے بھرپور خسارے میں چلنے والے ادارے ۔ لیکن انتخابات سے پہلے کے
اگر مسلم لیگ نواز کے نعرے دیکھے جائیں تو ایسا محسوس ہوتا تھا کہ جیسے
چٹکی بھر میں یہ مسائل ہو جائیں گے ۔ خزانے میں عوام کا لوٹا ہوا پیسہ واپس
لایا جائے گا اور اسے عوام کی فلاح و بہبود کے اوپر خرچ کیا جائے گا ۔
کرپشن کرنے والوں کو گلیوں میں گھسیٹا جائے گا ، لوڈ شیڈنگ 6 ماہ کے قلیل
عرصے میں ختم کردی جائے گی اور مذاکرات کرنے والے گروہوں کے ساتھ مذاکرات
کیئے جائینگے ملک میں ریلوے کو بہتر کیا جائیگا اور بلٹ ٹرین چلانے کے ساتھ
ساتھ بہت زیادہ ائیرپورٹ بنانے کا بھی وعدہ کیا گیا ۔ قطع نظر اس بات کے کہ
عمران خان حکومت کی اکثریت کو نہیں مانتے اور یہ کہتے ہیں کہ ان انتخابات
میں بہت بڑا فراڈ ہوا اور تحریک انصاف کا ووٹ چرایا گیا ہم اس بات کو تسلیم
کر لیتے ہیں کہ عوام نے مسلم لیگ نواز کو واضح اکثریت دی ۔ عمران خان ایک
نیا آدمی تھا جسکے پاس ملک چلانے کے لیئے کوئی تجربہ کار لوگ نہیں تھے
لوگوں نے عمران خان کے برعکس مسلم لیگ نواز کے تجربہ کاری کو ووٹ دیا ۔لیکن
یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا مسلم لیگ نواز کو نہیں پتہ تھا کہ ملک کے
حالات اتنے دگرگوں ہیں کہ اتنے کم عرصے میں ٹھیک نہیں ہو سکتے ؟ یا پتہ تھا
مگر لوگوں کے ساتھ جھوٹ بولا گیا ؟ دونوں صورتو ں میں ملبہ انکی جماعت پر
گرتا ہے یا تو انکی نا اہلی سامنے آتی ہے یا انکی بد نیتی ۔ باوجود اسکے کہ
کل جماعتی کانفرنس جو کہ مذاکرات یا آپریشن کے معاملے پر ہوئی تھی نے حکومت
کو مذاکرات کا مینڈیٹ دیا مگر کوئی ٹھوس پالیسی مذاکرات کے حوالے سے سامنے
نہ آسکی اور نہ ہی آپریشن اور اس سے ہونے والے نقصانات کے اوپر کوئی بحث
ہوسکی ،فوج علاقہ شدت پسندوں سے خالی کروا لے گی مگر اسکے بعد کیا ہوگا
تقریباُ آٹھ لاکھ لوگ جو کہ اس آپریشن کے نتیجے میں بے گھر ہوئے ہیں انکے
مستقبل کے بارے میں کوئی منصوبہ بندی نظر نہیں آتی ، اسکے بعد نہ تو کوئی
ایسی فورس بنائی گئی جسکی دہشت گردی کے ساتھ نبٹنے کی اہلیت ہو اور نہ ہی
پولیس کی حالت بہتر کی گئی آج حالت یہ ہے کہ پولیس نے 90 کے قریب منہاج
القرآن کے لوگوں پر سیدھی فائرنگ کرد ی اور پولیس میں کوئی بھی بڑا عہدیدار
اسکی ذمہ داری قبول کرنے کو تیا ر نہیں اسکے بدلے میں وزیرقانون رانا ثناء
اﷲ کو ہٹا دیاگیا اور ابھی تک یہ بھی سامنے نہیں آسکا کہ کس کے حکم پر یہ
گولیاں چلیں ۔ بجلی چوری کے لیئے کوئی مناسب اقدامات جو کہ نظر آتے نہیں
کیے گئے ۔ مہنگائی کو کنٹرول کرنے کے دعوے کئے جارہے ہیں مگر کیلا 250 روپے
درجن اور آلو 80 روپے کلو میں فروخت ہو رہا ہے لیکن وزیر اطلاعات ایک
پروگرام میں انکے دام بتانے سے قاصر رہے ۔ صاف پانی کا کوئی بڑا منصوبہ
نہیں بنایا جاسکا۔ جتنے بڑے الزامات ان انتخابات پر لگے بطور ایک سیاسی
جماعت کے مسلم لیگ نواز کو ان الزامات کی تحقیات کروانی چاہئے تھی کہ کیا
وجہ ہے اسٹیبلشمنٹ کا انتخابات میں اثرورسوخ کم نہیں ہوسکا ، ہماری
اسٹیبلشمنٹ دنیا کو یہ باور کروانے میں کامیاب ہو چکی ہے کہ ہمارے سیاستدان
شدت پسندوں سے مذاکرات چاہتے ہیں اور ہم انکے خلاف آپریشن کر رہے ہیں ،
دوسرا یہ کہ وہ تمام قوتیں جو پاکستان کے اندر جمہوریت کے حق میں آواز بلند
کرتی تھیں انکی آواز کمزور پڑتی جارہی ہے اور عوام اور دنیا کو یہ باور
کروایا جا چکا ہے کہ یہ سیاستدان کسی کام کے نہیں بہت ہی نااہل لوگ ہیں تو
اب آپکے پاس کوئی اور آپشن ہی نہیں بچتا سوائے اسکے فوجی حکومت کی حمایت کی
جائے اسکے لیئے گراؤنڈ ورک کر لیا گیا ہے جیو کے ساتھ ساتھ تمام میڈیا
چینلز کو عوام کی نظروں میں گرا دیا گیا ہے اور ایک نئے چینل کے لانچ کرنے
کی تیاری کی جارہی ہے جسکی باگ ڈور بالواسطہ طور پر اپنے ہاتھوں میں رکھی
جائے گی ۔
بھارت سمیت تمام ملکوں سے اچھے تعلقات کسی بھی حکومت کی خواہش ہو سکتی ہے
مگر یہ سب نہیں ہونے دیا جائے گا ان کرداروں کو پکڑ کر عوام کے سامنے ایک
دفعہ پھر لا کھڑا کیا جائے گا جو ہمیشہ سے اسٹیبلشمنٹ کے آلہ کار رہے ہیں ،
یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مسلم لیگ نواز کی حکومت اگر سنجیدہ ہو تو اسے
کیا کرنا چاہیئے ؟ میری ناقص رائے میں مسلم لیگ نواز کی حکومت کے سامنے جو
مسائل ہیں انکا حل درج ذیل ہے ۔
عوام کے حالات زندگی بہتر کرنے کے لیئے سب سے پہلے انکو ـ ـــ’’ زیرو
ٹالرنس ‘‘ دکھانا ہوگی اپنے آپ سے آغاز کرنا ہوگا اپنی اور اپنی کابینہ میں
شامل تمام ارکان کی دولت کا زیادہ سے زیادہ حصہ ملک میں لانا ہوگا ،
بدعنوانی کے اوپر بالکل کمپرومائز نہ کیاجائے ۔ وہ تمام منصوبے جیسا کہ’’
میٹرو بس ‘‘ وغیرہ انکو ختم کرنا ہوگا اور عوام کو ریلیف صحیح معنوں میں
دینا ہوگا اس تمام پیسے کو صحت تعلیم اور روزگار کے اوپر لگانا ہوگا ، اپنی
’’ ٹیکس کولیکشن ‘‘ بڑھانے کے لیئے وہ تمام لوگ جنکو غریب آدمی کے اوپر
ٹیکس کا بوجھ ڈال کر بچایا جارہاہے پر ٹیکس لاگو کرنا ہونگے ، اپنے خرچے
بچانا ہونگے ، اپوزیشن کے خدشات کو دور کرنا ہوگا خاص طور پر عمران خان کے
خدشات جو کہ دھاندلی سے متعلق ہیں فوری طور پر چند حلقے کھول دیئے جائیں
اور اگر ان میں دھاندلی ثابت ہو جائے تو عمران خان کو راضی کیا جائے کہ
مڈٹرم انتخابات ہونگے لیکن اسکے لیئے ایک سال کا مزید وقت درکار ہوگا تو تب
تک جتنے قانونی سقم انتخابات کو شفاف بنانے میں حائل ہیں انکو دور کر دیا
جائے ، ساری قوم کو اعتماد میں لے کر دہشت گردی کی عفریت جو کہ ہماری جڑوں
میں بیٹھ چکی ہے سے نبٹنے کی ٹھوس حکمت عملی بنائی جائے ، اور ایک آزاد اور
غیر جانبدار انسداد دہشت گردی فورس بنائی جائے جو کہ کم از کم ایک لاکھ
افراد پر مشتمل ہو اور تمام سیاسی جماعتوں سے اس فیصلے پر دستخط لیئے جائیں
کہ اگر انکی حکومت آئی تو وہ اس فورس کو ختم نہیں کریں گے بلکہ اس پروجیکٹ
کو جاری و ساری رکھیں گے ۔ بیرون ملک پاکستانیوں کو ووٹ کا حق اور انسے ملک
میں جاری معاشی ابتری پر مدد مانگنی ہوگی اور انکے پیسے کا صحیح استعمال
کرنے کی ضمانت دینا ہوگی ۔ اگر مسلم لیگ نواز کی حکومت یہ سب نہیں کریگی تو
معذرت کے ساتھ مشکل سے ہی مزید ایک سال نکال سکے گی یہی سب اقدامات آنے
والی حکومت کو بھی کرنا ہونگے میں عمران خان سے بھی گزارش کرونگا کہ کسی
بھی حالت میں آمریت کی حمایت نہ کی جائے کیونکہ جمہوریت ہوگی تو عوام کے
نمائندے اقتدار کے ایوانوں میں پہنچیں گے اور وہ بلدیاتی انتخابات کے ذریعے
عوام کو اپنے اقتدار میں شریک کریں گے ۔ |