آئی ڈی پیز کی خدمت ہمارا فرض

آئی ڈی پیز کی سندھ میں آمد کے خلاف حسب توقع ایک مرتبہ پھر سندھی قوم پرست جماعتوں نے تحریک چلانے کا اعلان کردیا ہے ۔ قوم پرستوں نے اعلان کیا کہ تحریک 9جولائی سے کشمور میں دھرنے سے شروع کی جا رہی ہے ۔ آئی ڈی پیز کی سندھ آمد کے خلاف تحریک چلانے کا اعلان جلال محمود شاہ کے گھر پر قوم پرست جماعتوں کے اجلاس میں کیا گیا۔جبکہ اس سے قبل پاکستان کے تین صوبے مہاجرین کی آمد پر اپنے تحفظات کا اظہار کرچکے تھے لیکن بعد میں سیاسی بیانات دئیے کہ ان کے صوبے میں مہاجرین کی آمد پر کوئی پابندی نہیں ہے،صرف شناخت کی جائے گی۔پختون بیلٹ کی بڑی بد قسمتی رہی ہے کہ ایک جانب انھیں اسلام کے نام پر مختلف ادوار میں استعمال کیا جاتا رہا تو دوسری جانب جب مغربی طاقتوں کا نزلہ گرتا ہے تو وہ بھی پختون بیلٹ پر ہی گرتا ہے۔جنوبی وزیر ستان کے بعد شمالی وزیر ستان میں فوج کی جانب سے آپریشن کے بعد فطری طور پر وہاں کی عوام کو نقل مکانی کرنی تھی ، اب چونکہ مہاجرین کی نقل مکانی میں دو قسم کے لوگ پائے جاتے ہیں ، ایک وہ جن کے گھر بار اور رشتے دار وزیر ستان میں تھے اور انھیں ہر صورت میں کیمپوں میں ہی رہنا ہوگا اور دوسری صورت ان کے ایسے رشتے دار جو پاکستان کے مختلف شہروں میں کاروبار کی غرض سے مقیم یا مستقل باشندے،اپنا کھاتے اور اپنا رہتے ہیں۔لہذا تکلیف کی اس گھڑی میں اپنوں کے پاس ہی جایا جاتا ہے ۔ہمیں یہ بات قطعی نہیں بھولنا چاہیے کہ سندھ سمیت تمام صوبے پاکستان کا حصہ ہیں اور بہ حیثیت پاکستانی ، کسی بھی پاکستانی کی نقل و حرکت پر پابندی عائد کرکے ایسے مخصوص جگہ پر روکنے پر مجبور نہیں کیا جاسکتا۔

سوات آپریشن کے بعد مہاجرین کی بہت بڑی تعداد ملک کے طول و عرض میں نقل مکانی پر مجبور ہوئی ، لاکھوں افراد کو کسی مخصوص جگہ رکھ کر دیکھ بھال کرنا ناممکنات میں سے ہے اور لاکھوں افراد کے مسائل کو ایک ادارہ اپنی محدود افرادی قوت سے کسی ایک حد تک تو حل کرسکتا ہے لیکن ثقافتی و معاشرتی مسائل کو کسی بھی صورت حل نہیں کیا جاسکتا ۔ اس کا واحد حل صرف یہی ہوتا ہے کہ ان مہاجرین کی مالی استطاعت اتنی ہو کہ وہ نزدیکی علاقوں میں مکانات کرایئے پر حاصل کریں یا پھر رشتے داروں کے پاس منتقل ہوجائیں ۔ اس لئے پہلی ترجیح کے طور پر مہاجرین کی خوائش یہی ہوتی ہے کہ انھیں مزید مشکلات کا سامنا نہ ہو اور وہ ان تکلیف دہ دنوں میں اپنے عزیزوں کے پاس رہ کر حکومت کے آئندہ لائحہ عمل کا انتظار کریں۔

سب بخوبی جانتے ہیں کہ شمالی وزیرستان کوئی معمولی آپریشن نہیں ہے کہ جیٹ طیاروں سے کچھ ٹھکانے تباہ کرکے یا خالی گھروں کی تلاشی لیکر امن قائم ہوجائے گا ، بلکہ اصل مرحلہ آپریشن ک کے بعد کا یہی ہوتا ہے کہ سوات طرز پر، اس خطے پر اپنی رٹ مستقل قائم رکھنے کیلئے سیکورٹی ادارے وہاں قیام کریں اور دوبارہ ان عسکریت پسندوں کو اپنی کاروائیوں کو جاری رکھنے کا موقع فراہم نہ کریں ۔شمالی وزیرستان کے ساتھ افغانستان کی سرحدیں جڑی ہوئی ہیں اور وہاں کی سرحدوں کی حفاظت مقامی افراد ہی کرتے رہے ہیں ، اب آپریشن کے بعد لاکھوں فوجیوں کو بائیس سو کلومیٹر لمبی سرحد پر ہزاروں چیک پوسٹوں کے ساتھ مستقل تعینات رکھنا ، پاکستان کیلئے سب سے بڑا چیلنج اور نہایت مشکل و ناممکن عمل ہے کیونکہ افغانستان کی جانب سے اس کے 25 لاکھ افغان مہاجرین کو کئی دہائیوں سے پناہ دینے کے باوجود پاکستان کے لئے نرم گوشہ پیدا نہیں ہوا ہے اور اب بھی افغان حکومت ،پاکستان پر الزامات لگانے کا کوئی موقع لگانے سے نہیں چوکتی۔اس مرحلے پر بھی افغانستان کی حکومت ، پاکستان کے ساتھ زبانی کلامی ساتھ دینے کے وعدے وعید تو کرتی ہے لیکن عملی طور پر پاکستان کے شہریوں کو پاکستان کے خلاف بھڑکانے کا اس سے بہتر سنہری موقع بھی نہیں گنوانا چاہتی ، اس لئے ان کی جانب سے میڈیا میں یہ خبریں چلائی جارہی ہیں کہ ایک لاکھ پاکستانیوں نے افغانستان میں پناہ حاصل کرلی ہے۔

اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ شمالی وزیرستان کی عوام نے افغانستان میں پناہ حاصل نہیں کی ہوگی ، کیونکہ صدیوں سے یہ سرحدیں ایک ہیں اور ان کی رشتے داریاں اور کاروبار بھی مشترکہ ہیں اس لئے بیشتر خاندان اگر افغانستان گئے ہونگے تو اس بات سے انکار ممکن نہیں ہوگا کیونکہ حالت ِ جنگ کے علاوہ سینکڑوں سالوں سے بھی ان کے خاندان پاک ، افغان سرحدوں کے قرب و جوار یا علاقوں میں رہتے ہیں اور ان کا آپس میں آنا جانا روایت کے مطابق ہے ۔ اس لئے جو مہاجرین اگر افغانستان میں گئے تو ان کی پہلی ترجیح اپنے رشتے دار ہی ہیں ، لیکن اس سلسلے میں پاکستان کو پہلے ہی منصوبہ بندی کرلینے چاہی تھی ، غالب امکان تو یہی ہے کہ پاک فوج نے سب سے پہلے اسی نقطے کو سامنے رکھا ہوگا کہ آپریشن کے نتیجے میں نقل مکانی کرنے والوں میں عسکریت پسند افغانستان کوچ نہ کرجائیں اور اطلاعات یہی ہیں کہ اہم کردار افغانستان ، بھارت ، ایران سمیت پاکستان کے اہم شہروں میں روپوشی اختیار کرچکے ہیں۔

باقی یہی صورتحال سندھ میں آنے والے مہاجرین کی ہے ، جو سندھ کے مختلف شہروں میں اپنے رشتے داروں کے پاس آنا چاہتے ہونگے ، انھیں پاکستانی ہونے کے سبب دنیا کی کوئی طاقت پاکستان کے کسی بھی حصے میں جانے سے نہیں روک سکتی ، جبکہ یہ صوبائی حکومتوں کے فریضے میں ہے کہ وہ پاکستان کے حالات کے پیش نظر ایسے مہاجرین کو پریشان کرنے کے بجائے انھیں ان کے رشتے داروں کے پاس جانے اور ان کا ڈیٹا اکھٹا کرنے کیلئے اپنا مثبت کردار ادا کرے ۔ چونکہ وفاقی حکومت کی جانب سے خیبر پختونخوا کے علاوہ دیگر صوبوں میں مہاجرین کو نہیں بسایا جارہا اس لئے صوبائی حکومتیں ان آئی دی پیز کے لئے کوئی کیمپ بھی قائم کرنے کی مجاز نہیں ہے جس کا مہاجرین کو بھی علم ہے اور وہ توقع بھی نہیں رکھتے ۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ مہاجرین جب آپریشن زدہ علاقے سے باہر نکل رہے تھے تو ان کی مکمل چانچ پڑتال عسکری ادارے کر رہے ہیں تاکہ مہاجرین کی آڑ میں کوئی مطلوب دہشت گرد روپوشی اختیار نہ کرلے۔

صوبائی حکومتیں کی ویسے بھی ذمے داری اور فراٰئض میں شامل ہے کہ عام حالات میں بھی صوبائی سرحدوں پر چیکنگ کا انتظام سخت سے سخت رکھے ، لیکن کرپٹ اہلکاروں کی وجہ سے قانون شکن ایک صوبے سے دوسرے صوبے با آسانی چلے جاتے ہیں ۔لہذا سب سے پہلے اہم توجہ خود صوبائی حکومتوں کو اپنے کرپٹ اہلکاروں پر دینا ہوگی ۔ ویسے بھی یہ ناممکن ہے کہ ہزاروں گاڑیوں کی ممکنہ چیکنگ کی جاسکے اور یہ بھی ضروری نہیں ہے کہ بھاگنے والے وہی حلیہ رکھیں گے جیسے تلاش کیا جارہا ہے ۔ یہاں تو یہ حال ہے کہ حساس ادارے اطلاع فراہم کردیتے ہیں کہ فلاں جگہ دہشت گردی کا خدشہ ہے ، لیکن صوبائی حکومتیں خواب خرگوش کے مزے اُس وقت تک لیتی رہتی ہیں جب تک کوئی اندوہناک واقعہ نہ ہوجائے۔

اس سلسلے میں تمام صوبائی حکومتوں سمیت تمام قوم پرست جماعتوں کو اس بات کا ادراک کرنا ہوگا کہ ان مہاجرین کو ایک نہ ایک واپس اپنے علاقوں میں جانا ہے اور ان سرحدوں کی دوبارہ حفاظت کرنی ہے جو قیام پاکستان سے لیکر اب تک بلا معاوضہ کرتے چلے آئے ہیں۔ان کے ساتھ غیر انسانی و غیر اخلاقی رویہ رکھنا نامناسب ہوگا ۔ نیز انھیں کسی قومیت کے خلاف ایسے بیانات سے بھی گریز کی راہ اختیار کرنی ہوگی کہ سندھ بین الاقوامی یتم خانہ نہیں۔معتصبانہ بیانات سے لسانیت و قوم پرستی کی بو آتی ہے اور پاکستانیت کے تشخص کو نقصان ہی نہیں بلکہ دنیا بھر میں جگ ہنسائی کا موجب بھی بنتا ہے۔ان مہاجرین پر تکلیف کا یہ دور پاکستان کی بقا کے خاطر ہی ہے ۔ اگر یہ پاکستان کا ساتھ نہ دیں تو کیا دنیا کی کوئی طاقت ان پر جبری طور پر مسلط کی جاسکتی ہے ؟․ یقینی طور پر اس کا جواب مشکل ہے کیونکہ پختون کی تاریخ رہی ہے کہ وہ مہمان نواز رہا ہے اور اپنے اوپر احسان کرنے والوں کیلئے اپنی جان تک قربان کرنے سے دریغ نہیں کرتا۔ سات لاکھ مہاجرین اپنی تکالیف میں پاکستان کی سلامتی کو دیکھ رہے ہیں ، اگر خدانخواستہ یہ بھی عسکریت پسندوں کے ساتھ مل جاتے تو تصور کریں کہ پاکستان کی کیا حالت ہوتی۔
Qadir Khan
About the Author: Qadir Khan Read More Articles by Qadir Khan: 937 Articles with 747235 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.