ڈائپرز/پیمپرز کا بے جا استعمال اور اس کے نقصانات

موجودہ دور میں ہر شے کو ڈسپوزایبل بنانے یعنی ایک یا ایک سے زائد بار استعمال کرکے ضائع کر دینے کا رجحان عام ہو رہا ہے۔ ان اشیاءمیں شیونگ ریزر‘ سوفٹ ڈرفکس کے کین‘ سیل پیک دودھ کے ڈبے اور انسانی صحت اور ماحول کی دشمن پولی تھین کی تھیلیاں وغیرہ شامل ہیں۔ ڈسپوزایبل پولی تھین کی تہہ سے بنی ہوئی بچوں کی نیپیز اور ڈائپرز کا استعمال بھی والدین میں عام ہو رہا ہے۔ متوسط اور غریب طبقے کے برعکس امیر طبقے میں ان نیپیز اور ڈائپرز کے استعمال کا رجحان بہت زیادہ ہے‘ اس کی ایک وجہ کپڑے کی (دوبارہ استعمال ہونے والی اور ماحول دوست) نیپیز کو بار بار دھونے کی ”زحمت“ سے بچنا بھی ہے۔ پلاسٹک کے بنے ہوئے ڈسپوزایبل ڈائپر کے استعمال کا عام ہونا اور ان کی مقبولیت کی ایک وجہ ان کی میڈیا پر بے پناہ پبلسٹی بھی ہے جس سے متاثر ہو کر والدین اپنے معصوم بچوں کے لئے پیسوں سے بیماریاں خرید رہے ہیں۔ دوسری طرف میڈیا پر نیپیز اور ڈائپرز کی شکل میں بیماریاں خریدیں اور پھر ان نیپیز اور ڈائپرز سے پیدا ہونے والی جلدی بیماریوں کے علاج کا انتظام کریں۔

متعدد ترقی یافتہ ممالک میں پاسٹک کے ڈائپرز سے بچوں کی صحت پر مضر اثرات مرتب ہونے کے بعد اب ان ممالک میں پلاسٹک کے ڈائپرز کی حوصلہ شکنی ہو رہی ہے۔ ذیل میں ہم آپ کو ان ڈائپرز سے پیدا ہونے والی بیماریوں کے بارے میں بتاتے ہیں۔

مردانہ بانجھ پن (Male infertility)
بی بی سی نیوز آن لائن کی ایک رپورٹ کے مطابق جرمنی میں ہونے والی تحقیق سے یہ ثابت ہوا ہے کہ پولی تھین کی ڈسپوزایبل ڈائپرز بچوں میں مردانہ بانجھ پن (Male Infertility)کا سبب بن رہا ہے۔ جرمنی کی یونیورسٹی آف کیل کے سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ پلاسٹک کے ڈائپرز استعمال کرنے والے معصوم بچوں کے خصیوں (Testicales)کے گرد درجہ حرارت میں اضافہ ہو جاتا ہے جس کی وجہ سے ان کو بچپن ہی میں مردانہ بانجھ پن کا روگ لگ جاتا ہے، وہ بچے جو اپنی قوت مدافعت سے پلاسٹک کی ان نیپیز اور ڈائپرز کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت پیدا کرلیتے ہیں، ان کا Sperm counts بے حد کم رہتا ہے جس کی وجہ سے وہ صاحب اولاد نہیں ہوسکتے۔

بیشتر یورپی اور امریکی ممالک میں تحقیق سے یہ بھی ثابت ہوا ہے کہ پلاسٹک کی تہہ والی نیپیز اور ڈائپرز پہننے والے اکثر بچے خصیوں کے سرطان (Testicular Cancer)میں بھی مبتلا ہوئے۔ یورپ میں گذشتہ تیس سال سے پلاسٹک کے ان ڈائپرز اور نیپیز کا استعمال ہو رہا ہے۔ بی بی سی نیوز آن لائن کے مطابق جرمنی کے سائنس دانوں نے کپڑے اور پلاسٹک کی نیپیز پہنے والے ایک سے تین سال کے 48 لڑکوں کا 24 گھنٹوں کے دو ادوار کا مطالعہ کیا‘ کپڑے کی نیپیز پہنے ہوئے بچوں کے نازک اعضاءکے گرد درجہ حرارت معمول کے مطابق رہا۔ پلاسٹک کے ڈائپرز اور نیپیز سے چونکہ جلد کو ہوا نہیں لگتی، اس لئے پلاسٹک کی نیپی پہننے والے بچوں کے خصیوں کے گرد درجہ حرارت معمول سے زیادہ ریکارڈ کیا گیا۔

ہمارے ملک میں گذشتہ چند سال سے ڈسپوزایبل ڈائپرز کا استعمال عام ہوگیا ہے۔ میڈیا پر ان کی بے پناہ تشہیر نے بیشتر سست اور کاہل ماﺅں کو ان کا عادی بنا دیا ہے۔ اس سے قبل مائیں اپنے بچوں کےلئے سوتی کپڑے کی نیپیز استعمال کرتیں تھیں جو نہ صرف سستی تھیں بلکہ دوبارہ استعمال کے قابل بھی ہوتی تھیں۔ کپڑے کی یہ نیپیز بچوں کی صحت اور قدرتی ماحول کے لئے کسی قسم کے کوئی مسائل پیدا نہیں کرتی تھیں۔ رفع حاجت کے فوراً بعد کپڑے کی ان نیپیز سے گیلا پن محسوس ہوتا تھا مگر پلاسٹک کی ڈائپر میں ایسا نہیں ہوتا جب تک کہ ان کو کھول کر دیکھا نہ جائے۔ مہنگی ہونے کی وجہ سے اکثر والدین ان ڈائپرز اور نیپیز کو ایک بار بچے کو باندھنے کے بعد گھنٹوں دیکھنے کی زحمت گوارہ نہیں کرتے جس کی وجہ سے بچوں کے نازک اور حساس اعضاءسے گھنٹوں غلاظت کا تھیلا بندھا رہتا ہے جو بچوں میں نازک اعضاءکے گرد خارش کے مرض کا ایک اہم سبب ہے۔

پلاسٹک کی یہ نیپیز اور ڈائپرز بچوں کی جلد کے لئے کس قدر نقصان دہ ہیں، اس کےلئے آپ کو کسی ڈاکٹر یا چائلڈ سپیشلسٹ کے پاس جانے کی قطعی ضرورت نہیں، سردیوں میں تین گھنٹے اور گرمیوں میں صرف دو گھنٹے تک اپنے نونہال کو پلاسٹک کی ڈائپرز باندھیں اور پھر بچے کی جلد کا غور سے مشاہدہ کرکے دیکھیں، آپ کو بچے کی جلد گہری سرخ دکھائی دے گی۔ نادانستگی میں بچوں کی نازک اور حساس جلد پر اس سے بڑا ظلم اور کیا ہوگا۔

پلاسٹک کی نیپیز اور ڈائپرز کے حوالے سے برٹش میڈیکل جرنل میں شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق ایک سے تین سال کا عرصہ بچوں کی جسمانی افزائش میں اہم ہوتا ہے مگر والدین بچوں کو پلاسٹک کی یہ نیپیز پہنا دیتے ہیں جس کی وجہ سے بچوں کے خصیوں پر مضر اثرات مرتب ہوتے ہیں۔

جرمنی میں ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق رفع حاجت سے از خود فارغ ہونے کی صلاحیت حاصل کرنے تک ایک بچہ تقریباً آٹھ ہزار ڈائپرز اور نیپیز استعمال کرلیتا ہے، ڈسپوزایبل ڈائپرز اور نیپیز کے کاغذ کی تہوں میں کیمیائی مادے ڈائی اوکسن (Dioxin)بھی ہوتا ہے۔ ڈائی اوکسن ایک انتہائی خطرناک کیمیائی مادہ ہے۔ پلاسٹک کے شاپنگ بیگ کے جلنے سے ان کا اخراج بھاری مقدار میں ہوتا ہے جو سرطان کا باعث بنتا ہے۔ ڈائپرزپہننے والے بچوں کی حساس اور نازک جلد کو ڈائی اوکسن سے سخت خطرات لاحق رہتے ہیں‘ بچوں کی نازک اور حساس جلد کے ذریعے ڈائی اوکسن کے جسم میں سرائیت کرنے کے امکانات موجود ہوتے ہیں۔

کپڑے کی ماحول دوست نیپیز کے ذریعے کسی بھی بیمار بچے کا فضلہ براہ راست نکاسی آب کے نظام کے تحت تحلیل ہو جاتا ہے مگر ڈسپوزایبل ڈائپرز اور نیپیز کوڑا کرکٹ میں جانے کے بعد بھی بہت سے مسائل کا باعث بنتی ہیں۔ پولیو کے مریض بچوں کے ڈائپرز کچرا کنڈی میں جانے کے بعد ان میں موجود پولیو کے جراثیم قریبی تندرست بچوں میں فوری طور پر منتقل ہونے کے امکانات موجود رہتے ہیں۔

قدرت نے ہر انسان کی جلد کو بیرونی ماحولیاتی اثرات سے بچانے کے لئے ایک حفاظتی روغنی تہہ (Stratum corneum)بنائی ہے۔ پلاسٹک کے ڈائپرز اس تہہ کی تباہی کا باعث بنتے ہیں۔ پیدائش کے چند دنوں بعد اگر ڈائپر باندھ دیا جائے تو بڑی تیزی سے بچے کی جلد کی یہ حفاظتی تہہ برباد ہونے لگتی ہے۔ پیدائش کے پانچ ماہ بعد بچے کو ماں کے دودھ کے ساتھ ساتھ ٹھوس غذا دینے سے بچے کے فضلے کی کیمیائی ترکیب میں تبدیلی واقع ہوتی ہے۔ ڈائپرز کی شکل میں بچوں کے جسم کے ساتھ غلاظت کا ایک تھیلا گھنٹوں بندھے رہنے سے بچے کے فضلے سے خارج ہونے والے Lipases اور Proteases نامی اجزاءپیشاب کے ساتھ کیمیائی عمل کرتے ہیں جس کی وجہ سے بچے کے نازک اعضاءپر سرخ دھبے ابھرنے کے ساتھ ساتھ سرخ دانے بھی نکل آتے ہیں۔ بچوں کے ڈائپرز استعمال کرنے اور دودھ پلانے والی وہ مائیں جن کی غذا میں ٹماٹر اور اس سے بنی ہوئی دیگر غذائیں شامل ہوتی ہیں، ایسی ماﺅں کے بچوں میں سرخ دانے اور دھبے نازک اعضاءکے ساتھ ساتھ پھیلتے ہوئے پیٹ تک بھی پہنچ جاتے ہیں۔

ہر انسان کی خواہش ہوتی ہے کہ اس کی اولاد صاف ستھری اور دوسروں کی اولاد سے منفرد نظر آئے مگر بیرونی طور پر اپنے بچوں کو صاف ستھرا دکھانے کے لئے بچوں کی صحت کو داﺅ پر لگا دینا دانش مندی نہیں۔ یورپ اور امریکا کے متعدد ممالک میں ڈسپوزایبل ڈائپرز اور نیپیز کی مضر اثرات سامنے آنے کے بعد والدین میں ان کے استعمال کے رجحانات کم ہو رہے ہیں اور دوبارہ سے پرانے‘ ماحول دوست اور باکفایت طریقہ کار یعنی مکمل اور سوتی کپڑے کی ایک سے زائد بار استعمال ہونے والی نیپیز کی طرف لوٹ رہے ہیں۔

Disclaimer: All material on this website is provided for your information only and may not be construed as medical advice or instruction. No action or inaction should be taken based solely on the contents of this information; instead, readers should consult appropriate health professionals on any matter relating to their health and well-being. The data information and opinions expressed here are believed to be accurate, which is gathered from different sources but might have some errors. Hamariweb.com is not responsible for errors or omissions. Doctors and Hospital officials are not necessarily required to respond or go through this page.

سید قمر احمد سبزواریؔ
About the Author: سید قمر احمد سبزواریؔ Read More Articles by سید قمر احمد سبزواریؔ: 35 Articles with 61829 views میرا تعلق صحافت کی دنیا سے ہے 1990 سے ایک ماہنامہ ّّسبیل ہدایت ّّکے نام سے شائع کر رہا ہوں اس کے علاوہ ایک روزنامہ نیوز میل لاہور
روزنامہ الجزائر ل
.. View More