امریکی میڈیا کے توسط سے دنیا
باخبر ہوئی کہ امریکی سیکورٹی ایجنسی کو 193ممالک کی جاسوسی کرنے کی اجازت
مل گئی ہے(جیسے اس سے قبل امریکہ ہاتھ پہ ہاتھ دھرے بیٹھا تھا)، امریکی
میڈیا کے مطابق 193ممالک میں پاکستان بھی شامل ہے ۔ نیشنل سیکورٹی لبنان ،
بولیویا اور اخوان المسلمون کی بھی جاسوسی کرسکتی ہے ۔امریکی سیکورٹی
ایجنسی کو "سیاسی جا سوسی" کے اختیارات بھی دئیے گئے ہیں۔ خبر کا سب سے دل
چسپ پہلو یہ تھا کہ ، نیشنل سیکورٹی ایجنسی کو پی پی پی (پاکستان پیپلز
پارٹی) اور بی جے پی(بھارتیہ جنتاپارٹی)کی" جاسوسی" کا اختیار بھی دیا گیا
ہے اور یہ ایجنسی ان کی جاسوسی ماضی میں کرتی رہی ہے۔ جس پر پی پی پی اور
حکومت نے امریکہ سے شدید احتجاج بھی کیا ہے کہ یہ غیر قانونی عمل ہے۔
امریکہ کی جانب سے کسی بھی ملک اور موبائل فون کی جاسوسی کرنا کرانا کوئی
نئی بات نہیں ہے ۔ اس سلسلے میں امریکہ کی جانب سے جرمنی کی چانسلر انگیلا
میر کل کے فون کی جاسوسی کرنے کی خبریں بھی سامنے آچکی ہیں تو اس سے قبل یہ
بھی منظر عام پر آچکا ہے کہ امریکہ اپنے دفاع کیلئے کس طرح پوری دنیا میں
جاسوسی کا نیٹ ورک استعمال کرتا ہے ، صرف ایک مثال موبائل فون کے حوالے سے
ہے کہ امریکی نیشنل سیکورٹی ایجنسی(NSA)کیلئے کام کرنے والے سابق جاسوس
ایڈورڈ سناؤڈن نے یہ تشویش ناک انکشاف کیا تھا کہ اگر آپ اپنا موبائل فون
آف کردیں تو بھی امریکی خفیہ ایجنسی ایسے ہزاروں میل دور بیٹھ کر خود بخود
آن کرسکتی ہیں اور اس کے ذریعے با آسانی آپ کی تمام گفتگو سن سکتیں ہیں۔اہم
بات یہ ہے کہ آپ کو اس در اندازی کا پتہ ہی نہیں چلے گا اور آپ کو یہ محسوس
ہوگا کہ آپ کا فون آف ہے۔ماہریں کا کہنا ہے کہ اس مقصد کیلئے امریکی
ایجنسیاں موبائل فون میں موجود بیس بینڈ(Base Band)ٹیکنالوجی استعمال کرتی
ہیں ۔موبائل فون میں دو قسم کے پروسیسر ہوتے ہیں ایک وہ جو آپریٹنگ سسٹم کو
کنٹرول کرتا ہے اور دوسرا وہ جو لہروں (یا سگنلز) کو کنٹرول کرتا ہے ، جب
فون آف ہوتا ہے تو آپریٹنگ سسٹم تو آف ہو جاتا ہے لیکن بیس بینڈ پروسیسر آن
ہی رہتا ہے اور یہ خفیہ ایجنسیاں اس ہی بات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے آپ کی
تمام خفیہ باتیں سن لیتی ہے۔
لیکن حیران کن بات یہ ہے کہ تمام تر جدید ترین ٹیکنالوجی کے باوجود امریکہ
اسامہ بن لادن کو تلاش کرنے میں ناکام رہا ، اور ابھی تک تحریک طالبان
افغانستان کے امیر ملا عمر کو بھی تلاش نہیں کرسکا ہے اور تحریک طالبان
پاکستان کے امیر ملا فضل اﷲ افغانستان کے علاقے کنٹر میں کہاں ہیں اس سے
بھی لاعلم ہے جبکہ پاکستان کی جانب سے گرفتاری کے مطالبے پر افغان حکومت پس
وپش سے کام لے رہی ہے۔ نیز اب دنیا میں ایک نئی خلافت قائم کرنے کے دعوی
دار ابوبکرالبغدادی جو اسلامک اسٹیٹ آف عراق و شام (آئی ایس آئی ایس )کے
خلیفہ بھی وارد ہوگئے ہیں، جن کے بارے میں دنیا و امریکہ لاعلم رہے۔ ان کی
جانب سے ایک آڈیو پیغام میں دنیا بھر کے مسلمانوں سے عراق اور شام ہجرت
کرکے اسلامی ریاست کی تعمیر و تشکیل میں تعاون کی اپیل کی گئی ہے ۔امریکہ
داعش کے خلیفہ ابوبکر البغدادی کو بھی تلاش نہیں کرپایا انھوں نے خود ہی
ویڈیو بنا کر بتا یا کہ جی یہ ہیں ہم۔ ۔امریکہ ابھی تک بے خبر اور جان ہی
نہیں سکا تھا کہ القاعدہ سے الگ ہونے والا یہ نیا گروپ دنیا میں کیا نئی
تبدیلی لانے والا ہے ۔امریکہ کا جاسوسی نظام یہ بھی نہیں جان سکا کہ عراق
میں صرف جون کے مہینے میں 2417عراقیوں کی ہلاکت کا ذمے دار کون ہے۔شام میں
کیمیائی ہتھیار کس نے استعمال کئے امریکہ کا جاسوسی نظام تو کئی برس تک یہ
بھی نہیں جان سکا تھا کہ ان کے امریکی صدر کے مونیکا لیونسکی کے ساتھ
تعلقات کس نہج پر پہنچ چکے تھے کہ انھیں پوری دنیا میں سبکی کا سامنا کرنا
پڑا۔
متعدد معاملات ہیں کہ امریکہ کا تمام تر جاسوسی کا نظام صرف محدود حد تک ہی
کامیاب ہے ، خفیہ معلومات حاصل کرنے کیلئے دنیا کی ہر حساس خفیہ ایجنسی
اپنے ذرائع کا استعمال کرتی رہتی ہے۔لیکن دل چسپ پہلو یہ ہے کہ 193ممالک کے
ساتھ پاکستان کی سیاسی جماعت پیپلز پارٹی اور بھارت کی سیاسی جماعت بھارتیہ
جنتا پارٹی کی بھی جا سوسی کی جائے گی۔پاکستان کی اور سیاسی جماعتوں کی بھی
جاسوسی کی جا رہی ہوگی ،جیسا کہ بتا یا جاتا ہے کہ تحریک انصاف کے چیئرمین
عمران خان کو الیکشن میں35 پنکچرز کے حوالے سے نجم سیٹھی اور نواز شریف کے
درمیان گفتگو کی فون ریکارڈنگ غیر ملکی سفارت خانے نے فراہم کیں ۔ اسی طرح
میمو گیٹ اسکینڈل کے حوالے سے بھی خفیہ معلومات کا تبادلہ کوئی ڈھکی چھپی
بات نہیں رہی ہے ۔
دل چسپ خبر یہ ہے کہ پیپلز پارٹی کی جاسوسی بھی کی جاتی رہی ہے اور مزید
بھی کی جائے گی ۔ یقینی طور پر یہ پاکستانیوں کیلئے بھی دل چسپ خبر ہے
کیونکہ پاکستانی عوام بھی جاننا چاہتے ہیں کہ سابق صدر پاکستان آصف زرداری
، سب پر بھاری کس طرح ہوگئے تھے ۔مفاہمت کے نام نپی تلی ایسی پختہ سیاست
پاکستان کی تاریخ میں کسی بھی سیاسی جماعت کے لیڈر کے حصے میں نہیں آئی ،
جس قدر پیپلز پارٹی کے کو چیئرمین آصف علی زرداری کے حصے میں آئی۔اقلیتی
جماعت ہونے کے باوجود پورے پانچ سال حکمرانی کی نئی تاریخ رقم کی ، کوئی
بھی ایسی سیاسی جماعت نہیں تھی کہ ایسے اپنے ساتھ نہ ملایا ہو، کئی چینلز
کے اینکرز تو حکومت جانے کی تاریخ کا کاؤنٹ ڈاؤن تک شروع کردیتے تھے ، لیکن
انھیں انتہائی مایوسی کا سامنا کرنا پڑتا تھا کہ آصف علی زرداری کی حکومت
قائم دائم رہتی ،اقلیت میں ہونے کے باوجود بڑے دھڑلے سے اکثریت پر حکومت
کی۔
خاص طور پرآصف علی زرداری کی جاسوسی اس لئے بھی ضروری ہے کہ انھوں نے قومی
سیاست کا کھیل چالاکی سے کھیلا تو صوبائی سیاست میں بھی خوب دھما چوکڑی کی
، تحریک انصاف تو زرداری دور حکومت میں دور دور تک نظر نہیں آئی تو دوسری
جانب سب سے بڑا کارنامہ مسلم لیگ ق کو ساتھ ملانے کا تھا ،لیکن ہمت وصبر کی
اعلی مثال سپریم کورٹ میں چیف جسٹس کے ساتھ سو ئس کیس کے سلسلے میں سامنے
آئی کہ دو وزیراعظم بھینٹ چڑھانے کے باوجود سوئس کیس کھولنے کی معیاد گزار
کر اپنی سیاسی دور اندیشی وچالاکی کی دھاک دنیا پر بیٹھا دی ، میمو کیس
اسکینڈل ہو کہ اسامہ بن لادن کا معاملہ یا پھر نیٹو سپلائی بند کرا کر ،
امریکی سی آئی اے کو ناکوں چنے چبوانا ، یا ریمنڈ ڈیوس کیس کو ہنڈل کرنا کہ
پنجاب سے امریکی جاسوس ، بغیر پاسپورٹ کے با خیریت وطن پہنچ گیا ، یا پھر
سوات آپریشن میں کامیابی ، اور شمالی وزیرستان آپریشن کی بَلا کو ٹالنا ،
غرض یہ کہ نواز شریف کو یہاں تک مشورہ دیا گیا کہ انھیں سیاست کے اسرار ،
راز و امور سے آگاہی کے لئے آصف زرداری سے استفادہ و شاگردی اختیار کرلینی
چاہیے ۔ کہ سندھ میں قبر میں پاؤں لٹکائے وزیراعلی کپتان کراچی آپریشن کو
جوانوں کی طرح اس طرح استعمال کر رہے ہیں کہ مخالفین بھی عش عش کر اٹھے ہیں
، بلاول زرداری کی تربیت ہو کہ حنا ربانی کا "فرضی" اسکینڈل ، بھارت سے
تعلقات ہوں کہ امریکہ سے کھنچاؤ ،آصف علی زرداری کا پیپلز پارٹی کو کامیابی
سے چلانا ، حیران کن رہا ہے۔ ان کے سیاسی حکمرانی دور میں کنٹینر والے
طاہری بابا نے جب سینکڑوں خواتین ، بچوں کو سردی کے سرد ترین موسم میں اپنی
جنونیت کی بھینٹ چڑھا دیا تھا کہ کمال چابکدستی سے طاہر القادری کو محفوظ
راستہ دیا اور کینڈا کی راہ دکھائی کہ اب جاکر نواز حکومت کیلئے درد سر بنے
ہوئے ہیں کہ کس طرح طاہری ایجنڈا سے جان چھڑائی جائے۔
بہرحال کچھ بھی ہو ، امریکہ یقینی طور پر پیپلز پارٹی کی مفاہمت کی سیاست
کی جاسوسی کرکے زرداری کے راز معلوم کرنا چاہ رہے ہونگے ، شاید انھوں نے
بھارتیہ جنتا پارٹی بی جے پی کی بھی جاسوسی کرنے کا فیصلہ اس لئے کیا ہے
کیونکہ پاکستان پیپلز پارٹی اور بھارتیہ جنتا پارٹی ، دونوں ہم مطلب ہیں
صرف بھارت اور پاکستان کے نام کا فرق ہے۔
امریکہ اپنی من مانی کرتا رہے گا ، پوری دنیا کی جاسوسی کرلے ، کامیاب بھی
ہوجائے گا لیکن زرداری کے معاملے میں ناکامی ہی ہوگی ، سنا ہے کہ کچھ
یونیورسٹیاں آصف علی زرداری کی سیاست پر تحقیق کرنے والوں کو پی ایچ ڈی بھی
دیں گی۔ |