صادق و امین کی جنگ
(Prof Riffat Mazhar, Lahore)
انقلاب کی راہ تکتے تکتے
ہم ڈھلتی عمر تک جا پہنچے لیکن پتہ نہیں وہ کہاں کھو گیا۔انقلاب کے داعی تو
بہت آتے رہے لیکن انقلاب نہیں آیا۔ایوب خاں بنیادی جمہوریت کی صورت میں
انقلاب کے داعی ہوئے،یحییٰ خاں کاانقلاب ڈھاکہ کے پلٹن میدان میں’’جنرل
اروڑا‘‘چھین کر لے گیااوربھٹو کے سوشلسٹ انقلاب کو ضیاء کا اسلامی انقلاب
ڈکار گیا۔اسلامی انقلاب کے نام پرایم ایم اے نے بھی’’رَج کے‘‘ووٹ لیے
اورصوفی محمدنے بھی خوب نام کمایا۔مُلّا فضل اﷲ المعروف’’مُلّا ریڈیو‘‘بھی
اپنا’’حق کا پرچم‘‘لے کر اُٹھااور اب چوہے کی طرح افغانستان کے
صوبے’’کنڑ‘‘میں چھپا بیٹھا ہے جبکہ اُس کے انقلاب کو فوجی بھائی بڑی تیزی
سے’’ہضم‘‘کرتے جا رہے ہیں۔اِس کے باوجود بھی ہمیں یقین ہے کہ پاکستان میں
آٹا دال ملے نہ ملے،انقلاب ضرور ملے گاکیونکہ اب انقلابی عَلم ایک نہیں بیک
وقت کئی’’انقلابیوں‘‘کے ہاتھ میں ہے اور سبھی کو انقلاب کی جلدی بھی
بہت۔عمران خاں کی انقلابی سونامی نئے پاکستان کی تَگ و دَو میں ہے۔اﷲ نہ
کرے یہ’’نیا پاکستان‘‘ویسا ہی ہو جیسا یحییٰ خاں بنا کر دے گئے۔مولانا
قادری سبز انقلاب کے داعی،الطاف بھائی کاجاگیرداروں کے خاتمے کا انقلاب ،شیخ
رشید اور چوہدری برادران کا’’سازشی انقلاب‘‘۔یہ سب ایک طرف لیکن جو انقلاب
ارسلان افتخار لا رہا ہے وہ تو’’چَک دے پھَٹے‘‘ٹائپ ہے۔وہ نوجوان عمران خاں
کی بہاولپور میں کی جانے والی تقریر پر ایسا بھڑکاکہ’’ چَل سو چَل‘‘۔ہم نے
تو ڈرتے ڈرتے کئی بار’’سونامیوں‘‘سے استدعا کی کہ
گرمی سہی کلام میں ،لیکن نہ اِس قدر
کی جس سے بات،اُس نے شکایت ضرور کی
لیکن ہم جیسوں کی بھلا کون سُنتا ہے ۔اب سبھی سونامیے غصّے میں بَل کھا رہے
ہیں لیکن’’خود کردہ را علاجے نیست ‘‘۔ہم تو اب یہی کہہ سکتے ہیں کہ
اب کیوں اُداس پھرتے ہو سردیوں کی شاموں میں
اِس طرح تو ہوتا ہے ،اِس طرح کے کاموں میں
ارسلان افتخار جو کچھ کہہ رہا ہے اُس کی بازگشت تو2013ء کے انتخابات میں
بھی اُس وقت سنائی دی جب نواز لیگ نے الیکشن کمیشن میں عمران خاں کو چیلنج
کرنے کا فیصلہ کیا لیکن بعد ازاں اسے ذاتی زندگی میں مداخلت تصور کرتے ہوئے
اعتراض واپس لے لیا گیا۔لیکن ارسلان افتخاراپنے والد چیف جسٹس(ر)افتخار
محمد چوہدری کی سرِعام توہین برداشت نہ کر سکا اور آرٹیکل 62,63کا سہارا لے
کر الیکشن کمیشن پہنچ گیا۔یہ قصہ تو شاید سبھی کے علم میں ہو گاکہ لارڈ
بیرن وائٹ کی بیٹی سیتا وائٹ جس کا اصل نام’’لوزا وائٹ‘‘تھا،کی عمران خاں
سے پہلی ملاقات 1985ء میں برطانیہ کی آکسفورڈ یونیورسٹی میں ہوئی۔بِن بیاہی
سیتا وائٹ کے ہاں1992ء میں ایک بچی پیدا ہوئی جس کا نام ’’ٹیرین جیڈ‘‘رکھا
گیا۔سیتا وائٹ نے 1995ء میں لاس اینجلس کورٹ میں یہ دعویٰ دائر کر دیا کہ
عمران خاں ہی بچی کا والد ہے۔14جولائی1997ء میں لاس اینجلس کورٹ نے سیتا
وائٹ کے حق میں فیصلہ دے دیا۔سیتا وائٹ تو اب اِس دُنیا میں نہیں لیکن
عمران خاں صاحب نے بھی اِس سلسلے میں کبھی کوئی واضح جواب نہیں دیا البتہ
ٹیرین کی عمران خاں کی سابقہ بیوی جمائما خاں کے ساتھ کئی تصاویر موجود ہیں
اور جمائما نے یہ اقرار بھی کیا کہ ٹیرین عمران خاں کی ہی بیٹی ہے۔ارسلان
افتخار کہتا ہے کہ عمران خاں صاحب نے الیکشن کمیشن میں کاغذاتِ نامزدگی پُر
کرتے ہوئے صرف اپنے دوبیٹوں کا ذکر کیا اورlove childٹیرین کا کہیں ذکر
نہیں اِس لیے آرٹیکل 62کے تحت وہ قومی اسمبلی کی رکنیت کے اہل نہیں
رہے۔ارسلان نے اِس سلسلے میں علماء کرام سے فتویٰ مانگا اور اسلامی نظریاتی
کونسل سے بھی۔علماء کرام تو خیر آجکل ماہِ رمضان کی افطاریوں میں اتنے
مصروف ہیں کہ اُنہیں سَرکھجانے تک کی بھی فرصت نہیں،فتویٰ کہاں سے دیں۔رہی
اسلامی نظریاتی کونسل کی بات تو اُس نے آج تک کونسا قانون اسلامی شریعہ کے
مطابق ڈھالا ہے،جو اب ڈھالے گی اِس لیے ارسلان کو چاہیے کہ وہ شیخ الاسلام
سے رجوع کرے کیونکہ ایک تو شیخ الاسلام فتوے دینے میں لاثانی ہیں اور دوسرے
آرٹیکل 62/63کا ٹھیکہ آجکل اُنہی کے پاس ہے۔البتہ یہ احتیاط کہ چونکہ شیخ
الاسلام اِن دنوں تھوڑے تھوڑے مائل بہ عمران خاں ہیں اِس لیے بہتر ہوگا کہ
اِس کَرم گُستری کے’’ توڑ‘‘ کے لیے ارسلان نذر نیاز لے کر جائیں،اُمیدِ
واثق ہے کہ افاقہ ہو گا۔
ہم پاکستانیوں کی یہ عادت سی ہو گئی ہے کہ ہر الزام بغیر سوچے سمجھے امریکہ
پر دھر دیتے ہیں۔قوم کو خاں صاحب کا شکر گزار ہونا چاہیے کہ اُنہوں نے
اِس’’قومی عادتِ بَد‘‘سے چھٹکارا دلوانے کے لیے الزامات کا رُخ امریکہ سے
موڑ کر’’میاں برادران‘‘کی طرف کردیا ہے۔ابھی ہماری یہ عادت’’کچی‘‘ہے لیکن
جلد ہی’’پکی‘‘بھی ہو جائے گی اور امریکہ بھی سُکھ کا سانس لے گا۔ ارسلان
افتخار کے الیکشن کمیشن سے رجوع کرنے پرارسطوانِ تحریکِ انصاف نے سوچاکہ یہ
امریکہ کی سازش تو ہو نہیں سکتی،یقیناََ یہ میاں برادران کی ہی چال ہو
گی۔پھر سبھی بزرجمہرسَر جوڑ بیٹھے اورفیصلہ یہ ہوا کہ وزیرِ اعظم صاحب کی
رکنیت کو بھی چیلنج کر دیا جائے۔پھر عمران خاں کے بعد تحریکِ انصاف کے سب
سے زیادہ جذباتی رُکنِ اسمبلی مراد سعید کو میاں صاحب کے کاغذاتِ نامزدگی
کی نقول لینے کے لیے الیکشن کمیشن بھیج دیا گیا۔اب میاں نواز شریف اور
عمران خاں میں صادق و امین کی جنگ چھِڑ چکی ،دیکھیں نتیجہ کیا نکلتا ہے۔میں
نے یہی بات جب ایک نون لیگیئے کو بتائی تو اُس نے ماتھے پر بَل ڈالتے ہوئے
کہا’’ڈِگا کھوتے توں تے کَن مروڑے کمیاری دے‘‘۔ |
|