دُنیاکے مختلف شعبوں میں ایسی بے
شمارشخصیات ہوگذری ہیں جنھوں نے اپنے اپنے شعبہ جات میں بے لوث خدمات انجام
دیں مگراُن کی ذات میں دُنیاوی لالچ ذرابرابرنہ ہونے کے سبب ان کانام پس
پردہ چلاگیا۔اُردوادب کے میدان میں بھی بے شمارادباءوشعراایسے گذرے ہیں
جنھوں نے اپنے نام کی پرورش کرنے کے بجائے اُردوادب کواوڑھنے بچھونے کی طرح
سمجھااورخونِ جگرسے اُردوادب کے چمن کوسینچا۔آج میں ایک ایسے شاعر،ادیب
اورصحافی سے قارئین کوروبروکرانے کاخواہشمند ہوں جس نے اُردوادب کوسینچنے
کاکام بیسویں صدی کی ساتویں دہائی میں شروع کیاجب اُردوادب سیاست کی آمیزش
کاشکارنہ تھا اور نہ ہی سیاسی جگادریوں کے ہاتھ لگاتھا۔مجموعی طورپربیسویں
صدی کو خالص اُردوادب کی زرخیزترین صدی قراردیاجائے توبے جانہ ہوگا۔
اشارتاً جس شخصیت کومتعارف کرانے کی بات قارئین سے کی گئی اُس
ادیب،شاعراورصحافی کانام بیتاب جے پوری ہے۔یہ نام والدین کی طرف سے نہیں
رکھاگیاتھابلکہ ادب کے گلیاروں میںگھومتے گھومتے پڑگیا۔بیتاب جے پوری
بنیادی طورپرایک سنجید ہ غزل گوشاعرہیں ،ان کاکلام بیسویں صدی کے سترکے
عشرے سے آج تک ہندوستان کے موقررسائل وجرائد اوراخبارات میں شائع
ہوتاآرہاہے۔حقیقت میں بیتاب جے پوری ابتداءمیں ملکی سطح کے موقررسائل
وجرائدکواپناکلام ارسال کرتے تواس پرBetab.J.Puri لکھاکرتے تھے جسے
جرائدورسائل کے ایڈیٹوریل سٹاف نے اُردومیں بیتاب جے پوری لکھناشروع
کردیا،اوریوں جے کشن پوری کاقلمی نام بیتاب جے پوری ہوگیا۔بیتاب جے پوری کی
پیدائش سرینگرکے ایک کشمیری کھتری متھراداس پوری کے گھرہوئی اُس وقت ہوئی
جب ملک ایک طرف انگریزوں کی غلامی سے آزادی حاصل کررہاتھااوردوسری طرف
برصغیرکی تقسیم کاہنگامہ برپاتھا۔
بیتاب جے پوری کی تعلیمی لیاقت انٹر(ایف۔اے) ہے۔بیتاب جے پوری نے ابتدائی
تعلیم حبہ کدل کے سرکاری سکول سے ،مڈل تک سنٹرل ہائی سکول حبہ کدل اورمیٹرک
ایس پی ہائی سکول سے حاصل کی اورگھرکے ناموافق حالات کے سبب وہ جموں چلے
آئے ۔اپنی تعلیم اورجموں ہجرت کے حوالے سے بیتاب جے پوری اپنے ایک تعارفی
مضمون میں یوں رقمطرازہیں۔
”ابتدائی تعلیم حبہ کدل کے ایک سرکاری سکول سے حاصل کی جبکہ مڈل تک کی
تعلیم سنٹرل ہائی سکول فتہ کدل اورمیٹرک ایس پی ہائی سکول سے جبکہ میٹرک
کانتیجہ امتحان کے دوسال بعدجموں میں کسی دوست نے سُنایاکیونکہ میرے والدین
کی وفات کے بعدگھریلوحالات میرے موافق نہ رہنے کی وجہ سے مجھے گھرکوہمیشہ
کےلئے خیربادکہہ کرہجرت کرنے کے لئے مجبورہوناپڑا۔میراارادہ پنجاب جانے
کاتھا۔لیکن جموں آکرمیر ی مُلاقات ایک ایسے شخص سے ہوگئی جومیراشناساتھااُس
سے شناسائی اس طرح تھی کہ ہمارے گھرکے سامنے ڈرائی کلین کاکارخانہ تھااوروہ
گرمیوں میں آکروہاں کام کرتاتھااوروہاں میرااکثر جاناہوتاتھا۔ وہ شخص کوئی
اورنہیں عبدالغفارمالک اقبال ڈرائی کلینرزتالاب کھٹیکاں تھا۔ جس نے مُجھے
حوصلہ دیااوراپنے گھرمیں پناہ دی ۔حالانکہ اُس کی نئی نئی شادی ہوئی تھی
میرے اعتراض کرنے کے باوجودکہ میں کہیں اوررہ لوں گالیکن وہ دونوں میاں
بیوی نہیں مانے اورہم تینوں ایک ہی کمرے میں رہتے رہے اوران دونوں نے مجھے
جوپیاردیاشایدمیرے اپنے بہن بھائی نہ دے پائے۔ اس دوران مجھے ہائی
لینڈڈرائی کلینرزکے ہاں کام بھی دلِوایا۔پڑھنے لکھنے کاشوق چوں کہ بچپن سے
تھامیں رات کے وقت اُردوناول ومختلف کتابیں پڑھتارہا۔1964 میں جموں آنے کے
بعدمیرے یہاں کئی دوست بن گئے جن میں آفاق کاظمی ، اکرم خان (سابقہ
سیکریٹری میونسپلٹی جموں۔عاشق حسین مالک تاج ہوٹل ، ماسٹرلطیف ، عجب سنگھ ،
نناٹھیکیدار،نواب وغیرہ جنھوںنے میری ہرقدم پرمددکی۔عبدالغفارکاگھرچھوڑنے
کے بعدمیں 1974ءتک تاج ہوٹل (پرانے) کے کمرہ نمبر6 میں بغیرکسی کرایہ کے
رہتارہا۔ ان دوستوں کے گھروں میں بلاجھجھک آناجانامیرے معمول میں شامل
ہوگیااوران کے والدین بھی مُجھ سے اپنے بچوں کی طرح ہی پیارکرتے رہے۔یہاں
تک میرے انٹرامتحان کی فیس آفاق کاظمی کے والدمرحوم سعیدفتح حسین کاظمی نے
اداکی“
یوں بیتاب جے پوری سرینگرسے چل کرجموں آبسے ،یہاں پرکافی لوگ دوست بھی بن
گئے ۔انہوں نے مالی طورسے تنگ دستی کی زندگی شروع سے گذاری ،بیچ میں کچھ
عرصہ تک مالی حالات بہتربھی ہوئے مگرتنگ دستی نے پھرسے بیتاب کوپھرسے اپنے
چنگل میں پھانس لیا۔جموں میں آکربیتاب جے پوری مکھن لال صراف، معروف ادیب
وعالمی شہرت یافتہ پینٹرغلام رسول سنتوش،میکش کاشمیری ،عرش صہبائی ،مرحوم
نورصاحب، حکیم منظور،منظراعظمی ، عشرت کاشمیری ، عابدمناوری ، طالب ایمن
آبادی ، مالک رام ، نندگوپال باوا، شام طالب وغیرہ ادیبوں سے گھُل مل گئے۔
ادبی سفرکے آغازوارتقاءکے حوالے سے بیتاب جے پوری اپنے تعارفی مضمون میں
یوں رقمطرازہیں
” میراادبی سفرنامہ طالب علمی سے شروع ہواتھا۔ میں نوویں کلاس میں زیرتعلیم
تھاکہ میں نے ایک کہانی لکھی لیکن وہ کہانی میں نے اپنے ایک ہمسایہ مکھن
لال صراف کودکھائی جس کاادیبوں میں اُٹھنابیٹھناتھااُس نے کچھ مشورے دیئے
تومیں نے اِسے دوبارہ لکھا۔ اُس کے مشورے سے جہاں پہلی کہانی قریباً۰۳
صفحات پرمشتمل تھی وہ سِمٹ کر۳۱صفحات پرآگئی۔ میں نے دوبارہ اُسے کہانی
دکھائی توانہوں نے مُجھے مشورہ دیاکہ تم یہ کہانی لے کرمشہورادیب اورعالمی
شہرت یافتہ پینٹرغلام رسول سنتوش کے پاس جاﺅ۔وہ بھی ہمارے ہمسایہ تھے توایک
ایتوارکواُن کے ہاں حاضرہواتوانہوں نے مجھے دیکھ کرکہاکہ ”فدا“ اُن
کاچھوٹابھائی جومیرادوست تھاگھرپرنہیں ہے لیکن میں نے آنے
کامدعاظاہرکیاتووہاں ہی آنگن میں بیٹھ کرانہوں نے اس میں کانٹ چھانٹ کی
اورمشورہ دیااس بیماری کوگلے مت لگاﺅ۔پہلے پڑھائی ختم کرو“۔
بیتاب جے پوری کومطالعے کاحددرجہ شوق تھاجواب بھی برقرارہے ،اسی لیے وہ
پیسے جمع کرکے دلی اورجالندھرسے ریاست میں پہنچنے والے رسائل اوراخبارات
کوخریدلیاکرتے تھے ۔چونکہ ریاست سے اس زمانہ میں نہ ہی زیادہ اخبارات اورنہ
رسائل شائع ہوتے تھے۔اخبارات اوررسائل کے مطالعے سے ادب اورصحافت کی طرف
بیتاب جے پوری کاذہن مائل ہوااورپھر جموں کے متعدداخبارات جن میں سندیش ،
اُجالا، سچ، آزادہند، ریفارمروغیرہ شامل ہیں کےلئے لکھناشروع کیا۔ 1971 میں
آل انڈیاریڈیوجموں میں کاپیسٹ کی تین اسامیوں کے لئے اخبارمیں ایک
اشتہارشائع ہوا۔جس کےلئے بیتاب جے پوری نے بھی فارم بھرا۔اوربالآکربیتاب جے
پوری کاانتخاب کاپیسٹ اسامی کےلئے ہوگیا۔آ ل انڈیاریڈیومیں بیتاب جے پوری
کی سلیکشن نے ان کی زندگی میں اہم موڑلایااورجہاں انہیں ادباءوشعراءکی صحبت
میسرہوئی جس نے ادب سے شغف رکھنے والے نوعمرلڑکے کوآخرکارشاعربنادیا۔اس
حوالے سے بیتاب جے پوری یوں رقمطرازہیں۔
”ریڈیوکشمیرجموں میں ملازمت کے دوران میری ملاقات جناب میکش کاشمیری کے
ساتھ ہوئی کیونکہ مجھے اُن کے ہی اُردوسیکشن میں کیجول آرٹسٹ کے
طورپرتعینات کیاگیا۔میں نے انہیں کئی مشاعروں میں سُناتھااُن کی طبیعت سے
بھی واقف ہونے کےلئے اُن کی پرچھائی بنناپڑااورجلدہی میں نے اُن کی شخصیت
کے کئی پہلوجان لئے وہ جب کسی کام پریامیرے تلفظ پربگڑجاتے تھے تومیں
خاموشی سے کمرے سے باہرنکل جاتااوراُن کےلئے کنٹین سے چائے کاکپ لے
کرآتالیکن میں نے اکثردیکھاکہ اُن کے غصے میں شفقت کاعنصرپوشیدہ
ہوتاتھا۔چائے پینے کے بعدوہ ایک اُستادکی طرح سمجھاتے کہ یہ جملہ کس طرح
لکھناچاہیئے اوراس لفظ کاتلفظ کیاہے ۔مختصراً اُن کے ساتھ تقریباً ۴ سالہ
صحبت میں اُردوزبان اورادب کے بارے بہت کچھ سیکھا۔شاعری کی طرف میرامائل
ہونابھی اتفاق ہی ہے ۔ ہماری سیکشن میں اکثرشعراءحضرات ریکارڈنگ کے لئے آتے
تھے توکچھ شعرسُن کرمجھے محسوس ہوتاتھاکہ میں ان سے اچھے شعرکہہ سکتاہوں
اورمیں نے ایک دن بغیرکسی تجربے کے ایک غزل لکھ دی۔”لکھ دی اس لئے استعمال
کررہاہوں کیونکہ وہ شعرآمدکے نہیں تھے بلکہ وہ صرف ترکھانی تھی “ اورجناب
میکش کے سامنے یہ کہہ کررکھ دی کہ میرے ایک دوست نے یہ غزل لکھی ہے ذرااسے
دیکھیے توغزل لکھنے پرایک لمبی تقریرسننی پڑی کہ غزل کہتے ہیں لکھتے نہیں
ہیں وغیرہ وغیرہ ۔ انہوں نے غزل کوپہلے پڑھاپھرقلم اُٹھاکراس کاپوسٹ مارٹم
کردیا۔ اس طرح میں ایک مہینے تک تقریباً انہیں چارغزلیں دکھاچکاتوایک دِن
کہنے لگے تمہارے دوست میں شاعری کے جراثیم ہیں انہیں باہرنکالنے کی ضرورت
ہے اُس کوکسی دِن اپنے ساتھ لے کرآﺅ۔ اُن کی وساطت سے ”بزم فروغ اُردوتک
رسائی ہوئی ۔جہاں اُس وقت مرحوم نورصاحب، حکیم منظور،منظراعظمی ، عشرت
کاشمیری ، عابدمناوری ، طالب ایمن آبادی ، مالک رام ، شام سندرآنندلہر،
نندگوپال باوا، پرتپال سنگھ بیتاب، شام طالب وغیرہ اپناکلام اورتخلیقات پیش
کرتے تھے جن پردِل کھول کرتنقیدہوتی تھی ۔اُس تنقیدکاڈرمجھ پراتناغالب
تھاکہ میں نے دوسال تک وہاں کوئی تخلیق پیش نہیں کی ۔ آخرایک دِن عشرت
کاشمیری کے اصرارپرمیں نے ایک شائع شدہ افسانہ پڑھاجس کی تنقیدکے ذریعہ
دھجیاں اُڑائی گئیں ۔یہاں تک کہ میرے آنسونکل پڑے ۔ لیکن مرحوم عشرت صاحب
اورمنظراعظمی نے میراساتھ دیااورایک ایسے تنقیدنگارسے اُلجھ بھی پڑے کہ
بتاﺅ زباں کی چندخامیوں کے بغیرا س افسانے میں کیاخامی ہے ۔کچھ عرصہ کے
بعدمیں نے ایک اورغزل کہی اورمیکش صاحب کے سامنے رکھ دی اورصرف دوشعروں کی
نوک پلک سنوارنے کے بعدکہنے لگے یاراس میں سدھارآگیاہے اورایک شعرکی دادبھی
دی جواس طرح تھا”دوستوں کویہ فکرلاحق ہے ۔کیوں کھڑاہوں میں پاﺅں پراپنے “۔
پھراصرارہواکہ اُس دوست کوانجمن میں لاﺅں وہاں بیٹھ کروہ بہت کچھ سیکھ لے
گا۔میں نے ڈرتے ڈرتے کہاجناب یہ غزل میں نے کہی ہے توپوچھ بیٹھے وہ پہلی
والی غزلیں تومیں نے سرجھکاتے ہوئے کہاوہ بھی میں نے کہی تھیں۔ اسی اثنامیں
جناب عرش صہبائی کمرے میں واردہوئے اورمیکش صاحب کوکچھ کہنے لگے لیکن انہوں
نے درمیان میں ٹوکتے ہوئے کہاعرش پہلے میری بات سُن ۔میںاس لڑکے کوتمہارے
سپردکرتاہوں ۔ساتھ میں وہ غزل بھی تھمادی۔ اس کے بعدافسانے لکھنے کم کردیئے
اورشاعری کے سفرکی طرف گامزن ہواجوآج تک جاری ہے “
بیتاب جے پوری نے اپناپہلا افسانہ جالندھرسے شائع ہونے والے ”چتراویکلی“
کوبھیجاجوایک لمبے انتظارکے بعد آخر1963میں ”پرچھائیاں“ کے عنوان سے شائع
ہوا۔جموں آکرکچھ عرصہ خاموش رہنے کے بعد لکھنے کاسلسلہ پھرشروع
کردیااور1974تک یہ سلسلہ جاری رہا۔اس دوران میرے افسانے ”تعمیر، ہندسماچار،
بیسویں صدی، آئینہ “ وغیرہ جریدوں میں شائع ہوتے رہے جبکہ ان میں سے
دوافسانوں ”ڈرمحافظ کا“ اورہدایت نامہ لیڈران کاہندی ترجمہ بھی کیاگیا۔
پختہ زبان وکلام کی بدولت بیتاب جے پوری کاکلام ہندوپاک کے درجنوں جریدوں
میں شائع ہواہے اورہنوزہورہاہے ۔ان کے زبان وکلام میںجوسادگی، چاشنی
اوربرجستگی ہے اُسے پڑھ کرقاری کامتاثرہوئے بغیررہناممکن نہیں۔بیتاب جے
پوری کاکلام بیرون ملک، ملک اورریاست کے جن اہم رسائل وجرائدمیں شائع ہواہے
اُن کی مختصرتفصیل یوں ہے۔
۱۔ماہنامہ ۔گلبن ۔احمدآباد۔۸۷۹۱ئ۔
۲۔ماہنامہ گُل کدہ ۔نئی دہلی۔۹۷۹۱ئ۔
۳۔تعمیر۔سرینگر۔۹۷۹۱ئ۔
۴۔ماہنامہ ۔نسرین۔ممبئی۔۹۷۹۱ئ۔
۵۔ماہنامہ سہیل۔۹۷۹۱ئ۔
۶۔ماہنامہ سہیل۔۰۸۹۱ئ۔
۷۔ماہنامہ ۔کنگری۔۰۸۹۱ئ۔
۸۔ماہنامہ ۔گلبن۔۰۸۹۱ئ۔
۹۔ماہنامہ ۔گلبن۔۲۸۹۱ئ۔
۰۱۔ماہنامہ ۔لمحہ فکریہ۔
۱۱۔سہ ماہی ۔ابر۔بدایوں۔۶۹۹۱ئ۔
۲۱۔دیہات سدھار۔۸۹۹۱ئ۔
۳۱۔نذرِعقیدت(سلام)۔۸۹۹۱ئ۔
۴۱۔سہ ماہی ۔انجمن۔۰۰۰۲ئ۔
۵۱۔سلام۔نذیرحسین۔۲۰۰۲ئ۔
۶۱۔سلام۔تنویرکربلا۔۳۰۰۲ئ۔
۷۱۔سلام۔اشک ِ جگرسوز۔۴۰۰۲ئ۔
۸۱۔سلام۔اشک ہائے رنگین۔۵۰۰۲ئ۔
۹۱۔ماہنامہ سبق اُردو۔بھدوہی۔یوپی۔
۰۲۔شیرازہ۔۰۰۰۲۔بعنوان۔خدادادصلاحیتوں کاشاعر۔
۱۲۔سیارہ ۔لاہور۔۱۰۰۲ئ۔
بیسویں صدی ۔۳۲۔اسباق۔شاعر۔ہندسماچار،لفظ لفظ ،سرکتاآنچال ،اُڑان وغیرہ
1975اپریل میں بیتاب جے پوری کی شادی دہلی کے ایک کھتری گھرانے میں ہوئی
۔ابھی شادی کوتین ہی مہینے گذرے تھے کہ ڈائریکٹرریڈیوجموں کے ساتھ کچھ تلخ
کلامی کے بعدمیں نے ریڈیوکوخیربادکہہ دیا۔اس طرح سے بیتاب جے پور ی کی
زندگی کی اس عجیب سی کروٹ نے ان کی زندگی میں ہلچل مچادی۔حالانکہ میکش صاحب
اورعرش صہبائی نے بیتاب کو ملازمت نہ چھوڑنے کی صلاح بھی دی مگرباغیانہ
طبیعت ہونے کے سبب بیتاب جے پوری نہ مانے ۔پھرایک پرائیویٹ کمپنی میں کام
کرناشروع کیااورچھٹی ہونے کے بعد اخبارسچ اوراُجالامیں کام کرنے کےلئے
جایاکرتے تھے اورپھربیتاب جے پوری کوآہستہ آہستہ صحافت کاچسکاسالگ گیایایوں
کہیئے کہ بیتاب جے پوری کوصحافت کی بیماری لگ گئی۔کسی کے اخبارمیں کام کرتے
ہوئے ہی بیتاب جے پوری نے فروغ وطن نام کااخبار شروع کرلیاجوبیتاب کواس کے
کسی دوست نے شروع کرکے دیاتھا۔فروغ وطن کے شروع کرنے سے متعلق بیتاب جے
پوری یوں رقمطرازہیں۔
” میرے ایک دوست نے مجھے کہاکہ میراایک دوست اخبارجاری کرناچاہتاہے مجھے دس
نام لکھ کردومیں نے دس نام لکھ دیئے جن میں ایک نام فروغِ وطن بھی تھا۔کچھ
عرصہ کے بعدوہ میرے پاس آکرکہنے لگایہ چھ فارم ہیں ان پردستخط کردومیں نے
بھی بغیرپڑھے ہی دستخط کردیئے ۔شام کووہ میرے ہاتھ میں یہ کہہ کرایک سرکاری
چٹھی تھماگیا۔لوگوں کےلئے لکھتے ہواب اپنے لئے لکھو۔ وہ سرکاری چٹھی اورکچھ
نہیں میرے نام اخبارفروغ وطن کاڈیکلریشن تھا۔میں نے اُجالامیں کام کررہے
ایک کاتب سے بات کی تووہاں بیٹھے چاروں کاتب حضرات نے یک زبان ہوکرکہاجب تک
آپ کااخباراشتہارات کے لئے منظورنہیں ہوتاہم آپ کےلئے مفت لکھیں گے۔ یعنی
کتابت مُفت، کاغذاُدھار،چھپائی ادھاراورہم اس طرح اخبارنویس ہوگئے “
فروغ وطن اخبارجوشروع میں ہفت روزہ تھااوربعدمیں روزنامہ بھی کافی عرصہ تک
رہا،مگربیتاب جے پوری صاحب مالی وسائل نہ ہونے کے سبب اخبارکی اشاعت کوجاری
نہ رکھ سکے۔اس وقت بیتاب جے پوری کانام ریاست جموں وکشمیرکے
مستندشعرااورصحافیوں میں شمارہوتاہے۔ ریاست وبیرون ریاست کئی کُل ریاستی
اورکُل ہند مشاعروں میں بھی بیتاب جے پوری نے شرکت کی۔بلاشبہ بیتاب جے پوری
نے اُردوادب اورصحافت کےلئے گراں قدرخدمات انجام دی مگراناپرست نہ ہونے کے
سبب انہیں ان کی خدمات کاصلہ نہ ملاجوانہیں ملناچاہیئے تھا۔بیتاب جے پوری
نے کبھی خودنمائی کےلئے کام نہ کیا،شہرت کی بھوک نہ ہونے کے سبب وہ شہرت نہ
پاسکے جس کے وہ حقدارہیں۔ بلنداخلاقی ،سادگی اورغمگساری بیتاب جے پوری کی
شخصیت کے اہم پہلوہیں ۔اس وقت بیتاب جے پوری جموں کے موقرروزنامہ اُڑان سے
وابستہ ہیں اوراُردوادب وصحافت میں شاندارخدمات انجام دینے میں مصروف عمل
ہیں۔بیتاب جے پوری گذشتہ 32سالوں سے صحافت اور40سے زائدبرسوں سے اُردوادب
کی خدمت کررہے ہیں اورمجھے یہ یقین کامل ہے کہ آخری دم تک بیتاب جے پوری
اُردوادب وصحافت کےلئے خدمات انجام دیتے رہیں گے جسے مورخ کبھی فراموش نہ
کرسکے گا۔ |