بسم اﷲ الرحمن الرحیم
اسرائیل کی طرف سے معصوم اور نہتے فلسطینی بچوں، عورتوں اور جوانوں پر
بمباری کا سلسلہ جاری ہے۔ صیہونی فوج کی زمینی اور فضائی کاروائیوں سے تین
سو سے زائد مسلمان شہید جبکہ ہزاروں زخمی ہوئے ہیں۔ظلم و بربریت اور ریاستی
دہشت گردی کا یہ عالم ہے کہ ساحل پر کھیلتے معصوم بچوں پر بھی بمباری کر کے
ایک ہی خاندان کے چار بچوں سمیت 23فلسطینیوں کو شہید کر دیا گیا
ہے۔اسرائیلی درندوں نے شہید بچوں کی لاشیں اٹھانے والوں کو بھی نہیں
بخشااور ان پر بھی اندھا دھند شیلنگ کر دی۔سیاسی رہنماؤں کے گھروں پر بارود
برسایااور چلتی گاڑیوں کو نشانہ بنایاجارہا ہے۔فلسطینیوں نے الزام عائد کیا
ہے کہ اسرائیلی فضائیہ کی طرف سے حملوں کے دوران فاسفورس بموں کا بھی
استعمال کیاجارہا ہے۔ یہ وہی وائٹ فاسفورس بم ہیں جنہیں اسرائیلی فوج نے
2008ء میں غزہ کی پٹی پر’’لیڈ کاسٹ آپریشن‘‘ کے نام سے مسلط جنگ کے دوران
فلسطینیوں پر گرا کر پندرہ سو سے زائد مسلمانوں کو شہید اور پانچ ہزار سے
زائدافراد کو زخمی کر دیا تھا۔ فلسطینیوں پر استعمال کردہ انتہائی مہلک
ہتھیاروں کے استعمال کے اثرات آج بھی ظاہر ہور ہے ہیں اور ان ہتھیاروں کی
زد میں آنے والے فلسطینی بڑی تعداد میں اپاہج اور معذور ہوچکے ہیں۔ وائٹ
فاسفورس کا استعمال عالمی سطح پر جنگی جرائم میں شمار ہوتا ہے مگر یہ مہلک
ہتھیار چونکہ غاصب اسرائیل استعمال کر رہا ہے اس لئے اسے کوئی پوچھنے اور
اس کا ہاتھ روکنے والا نہیں ہے۔ کچھ عرصہ قبل خود اسرائیل کی سپریم کورٹ
میں ایک درخواست دائر کی گئی تھی جس میں وائٹ فاسفورس بموں کے استعمال پر
پابندی لگانے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ نہتے فلسطینیوں پر فاسفورس بم گرانے
کی تصدیق ماضی میں ناروے کے طبی عملہ نے بھی کی اور فلسطین میں الشفاء
ہسپتال میں دس روز تک خدمات انجام دینے کے بعد اوسلو میں زخمیوں سے متعلق
سوالات کا جواب دیتے ہوئے کہا تھا کہ اسرائیل مہلک ہتھیاروں کے ٹیسٹ کیلئے
فلسطین کو لیبارٹری کے طور پر استعمال کر رہا ہے۔ طبی عملہ کے ڈاکٹرز کا
کہنا تھا کہ اسرائیل کی جانب سے استعمال کیاجانے والا یہ انتہائی طاقتوراور
چھوٹادھماکہ خیز ہتھیار ہے جو پانچ سے دس میٹر کی حدود میں تباہی پھیلاتا
ہے۔ ہم نے اپنے طویل کیریئر میں مختلف طرح کے زخمی دیکھے ہیں مگر فلسطین
میں اسرائیلی بربریت کا شکار زخمیوں کی نوعیت بالکل مختلف ہے۔ اسرائیل کی
طرف سے مختلف اوقات میں نہتے فلسطینیوں پر سفید فاسفورس کے استعمال کی
دھمکیاں بھی دی جاتی رہی ہیں مگر کسی بین الاقوامی ضابطہ اور قانون کے تحت
اس کے خلاف کاروائی نہیں کی گئی جس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ وہ آج بھی
ممنوعہ ہتھیار استعمال کر رہا ہے۔ حالیہ بمباری کے دوران بھی نہتے اور
معصوم فلسطینی بچوں کے لاشے جس طرح ٹکڑوں میں تقسیم اور جھلسے ہوئے دکھائی
دیتے ہیں اس سے فلسطینیوں کی یہ باتیں واضح طور پر درست ثابت ہو رہی ہیں کہ
پچھلے چند دنوں سے ایک بارپھر یہی کھیل کھیلاجارہا ہے۔اسرائیل کی طرح اس کا
اتحادی ملک بھارت بھی مقبوضہ کشمیر میں آزادانہ طور پر مہلک ہتھیار استعمال
کر رہا ہے۔2010ء میں خاص طور پر جب مظلوم کشمیری مسلمانوں نے جموں کشمیر
چھوڑ دو تحریک شروع کی تو بھارتی فوج اور سی آر پی ایف کو مہلک اور کیمیائی
ہتھیاروں سے لیس کرتے ہوئے انہیں کروڑوں روپے مالیت کے دس ہزار سے زائد
مرچی گرنیڈ فراہم کئے گئے۔ اسی طرح اسرائیل کے تعاون سے فلسطین میں استعمال
کئے جانے والے امریکی ساختہ مہلک ہتھیار بھی سکیورٹی فورسز کو دیے گئے جن
میں سب سے خطرناک پمپ ایکشن گن (پی اے جی) ہے جسے اگر نوے فٹ سے کم فاصلے
سے فائر کیا جائے تو اس کی زد میں آنے والے شخص کی فوری جان جا سکتی ہے۔پی
اے جی کے علاوہ پیپر بال لانچر(پی بی ایل) گنیں اور ٹیزر ایکس 26 پستول بھی
تقسیم کئے گئے ۔جب جموں کشمیر چھوڑ دو تحریک جاری تھی تو امریکی اسلحہ
سازوں کے تیار کردہ خطرناک ہتھیاروں کی دو طیاروں پر مشتمل کھیپ سری نگر
پہنچائی گئی جس کی تصدیق سرینگر کے حساس ترین شمالی زون( ڈاؤن ٹاؤن) کے
پولیس سربراہ شوکت حسین شاہ نے بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے بھی کی تھی۔
مقبوضہ کشمیر میں سکیورٹی فورسز میں تقسیم کئے گئے ہتھیار پی اے جی کی
بناوٹ عام شکاری بندوق کی طرح ہے اس میں استعمال ہونے والے ہر کارتوس میں
سخت ترین پلاسٹک کی تیس گوٹیاں ہوتی ہیں جو فائر کرنے پر نشانہ کے تقریبا
بیس فٹ کے دائرے میں بکھر جاتی ہیں۔ یہ بندوق تین سو فٹ تک نشانہ باندھ
سکتی ہے۔ محکمہ صحت سے متعلقہ ماہرین کا کہنا ہے کہ کسی انسان کے جسم پر
لگنے والی گولی کو آپریشن کے ذریعہ نکالا جا سکتا ہے مگر پی اے جی کے ریزے
پورے جسم میں پھیل جاتے ہیں جس کے لئے درجنوں آپریشن کرنا پڑ سکتے ہیں اس
لئے یہ ہتھیار انتہائی مہلک تصور کیا جاتا ہے۔ پی اے جی کی طرح پی بی ایل
میں مرچ اور دوسرے اجزا سے بنی گوٹیاں استعمال ہوتی ہیں۔ یہ بندوق ان
گوٹیوں کو گیس کی مدد سے پھوڑتی ہے جس سے گھنے دھوئیں کے بادل پیدا ہوتے
ہیں اور ہجوم میں شامل لوگوں کا دم گھٹنے لگتا اور آنکھوں کے سامنے اندھیرا
چھا جاتا ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فورسز کو فراہم کئے گئے تیسرے خطرناک
ہتھیار ٹیزر ایکس 26پستول میں تانبے کی تار کے چھلے استعمال ہوتے ہیں۔
انگریزی کے حرف ڈبلیو کی بناوٹ کے یہ چھلے گولی کی رفتار سے چلتے ہیں گیس
کے دباؤ سے فائر ہونے والے ان چھلوں میں برقی رو پیدا ہوتی ہے جس کی زد میں
آنے والے کو بجلی کا شدید جھٹکا لگتا ہے اور وہ بے ہوش ہو جاتا ہے۔ ماہرین
کے مطابق 21فٹ سے کم فاصلے سے اگر اسے فائر کیا جائے تو ان چھلوں کے لگنے
سے انسان کی موت واقع ہونے کے چانسز بہت زیادہ ہوتے ہیں۔ ماضی میں بھارت
سرکار کی جانب سے وفاقی سطح پر ایک اعلیٰ سطحی کمیٹی تشکیل دی گئی تھی جس
میں ریاستی پولیس کے سربراہ کلدیپ کھڈا، آندھرا پردیش کے اے ڈی جی پی، اتر
پردیش کے ڈی جی پی، سی آر پی ایف کے آئی جی ، ریپڈ ایکشن فورس کے آئی جی
اور مختلف حفاظتی اداروں کے سینئر افسران شامل تھے۔ مذکورہ کمیٹی کی
سفارشات پر سی آر پی ایف کو مرچی گرینیڈ اور دیگر مہلک ہتھیار یہ کہہ کر
فراہم کئے گئے کہ یہ غیر مہلک ہیں اور ان کے استعمال سے بغیر کسی جانی
نقصان کے مظاہرین پر قابو پایا جا سکتا ہے مگریہ باتیں درست نہیں ہیں۔
بھارتی فورسز کی جانب سے پرامن مظاہرین پر پیلٹ گن اور دیگر مہلک ہتھیاروں
کے استعمال سے سینکڑوں نوجوانوں کی آنکھیں ناکارہ ہو چکی ہیں اوروہ بڑی
تعدادمیں مستقل طور پر معذوراور انتہائی خطرناک بیماریوں میں مبتلا ہو چکے
ہیں۔حریت کانفرنس کے دونوں دھڑے، جے کے ایل ایف، دختران ملت اور انسانی
حقوق فورم وائس آف وکٹمز سمیت مختلف کشمیری جماعتیں اس سلسلہ میں طویل عرصہ
سے احتجاج کرتی چلی آرہی ہیں۔ انسانی حقوق کے عالمی اداروں اور ایمنسٹی
انٹرنیشنل نے بھی نہتے افراد کے خلاف جان بوجھ کر ایسے غیر موزوں ہتھیاروں
کے استعمال پر برہمی کا اظہا رکیا ہے مگر بھارت سرکار کے کانوں پر بھی جوں
تک نہیں رینگ رہی۔ہم سمجھتے ہیں کہ فلسطین اور کشمیر دنیاکے واحد ایسے خطے
ہیں جہاں تمامتر بین الاقوامی پابندیوں کو پاؤں تلے روندتے ہوئے اس طرح کے
انتہائی مہلک ہتھیار استعمال کئے جارہے ہیں۔مقبوضہ کشمیر میں ڈاکٹرز کا
کہنا ہے کہ گولی سے زخمی ہونے والوں کا علاج آسان ہے مگر پیلٹ کے شکار
افراد کے بیک وقت جسم کے کئی اعضاء کاٹنا پڑ سکتے ہیں۔ اس کازخم عمومی طور
پر مچھر کے کاٹے جتنا دکھائی دیتا ہے مگر اس کے اثرات انتہائی تباہ کن ہوتے
ہیں اور اگر ایسے مریض کے علاج کو نظر انداز کیاجائے تو اس کی جان بھی
جاسکتی ہے بہرحال فلسطین اور کشمیر میں جان بوجھ کر مسلمانوں کو ایسے
ہتھیاروں کا نشانہ بنایاجارہا ہے۔مقبوضہ کشمیر میں توسو ل سوسائٹی اس بات
کا بھی انکشاف کر چکی ہے کہ بھارتی فورسز مشقوں کے دوران گولوں میں تابکاری
مواد یورینیم کااستعمال کر رہی ہے جس سے بڑے پیمانے پر تابکاری کے اثرات
پھیل سکتے ہیں۔ توسہ میدان میں خاص طور پر آئے دن نہتے کشمیری بھارتی فوج
کی مشقوں کے دوران پھٹنے سے رہ جانے والے شیل کا شکار ہو کر موت کے منہ میں
جارہے ہیں۔اس علاقہ میں بھارتی مشقوں سے قرب و جوار کے بیس فیصد لوگ سماعت
سے محروم اور چالیس فیصد لوگ جسمانی طور پر معذور ہو چکے ہیں مگرپھر بھی یہ
سلسلہ بند نہیں کیاجارہا۔ضرورت اس امرکی ہے بین الاقوامی دنیا فلسطین اور
کشمیر میں ہونے والی اس بربریت کو فوری طور پر روکے تاکہ کشمیری و فلسطینی
مسلمانوں کو اس اذیت ناک عمل سے نجات مل سکے۔ |