ڈاکٹر آمنہ خاتون۔ ایک جہد مسلسل

 آمنہ خاتون نہ صرف لائبریری سائنس کے باوقار شعبہ سے وابستہ ہیں بلکہ اس کے ساتھ ساتھ

ہومیوپیتھک ڈاکٹر بھی ہیں۔۲۰۱۱ء سے پریکٹس میں ہیں۔شام میں باقاعدہ اپنا کلینک بڑی محنت اور کامیابی کے ساتھ چلا رہی ہیں۔اللہ تعالی نے ان کے ہاتھ میں شفا دی ہے۔کیوں نہ ہوماشاءاللہ نبی ٘ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھرانے سے ان کا تعلق ہے یعنی یہ سیدہ اہل بیت ہیں۔بہت سے مریض ان کے ہاتھ سے شفا پا چکے ہیں۔ آپکے کلینک پہ مریضوں کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔

آبا واجدادوخاندان:
سیدہ آمنہ خاتون کے آباءواجداد کا تعلق انڈیا کے شہربدایوں سے تھا۔جنہوں نے تقسیم کے وقت پاکستان ہجرت کی اور کراچی شہر میں آباد ہوءے۔والدین کی شادی بھی کراچی میں ہوئ اور کراچی میں ہی مقیم اپنے والد کے انتقال کی وجہ تعلیم مکمل نہیں کر سکےاور چھوٹی عمر میں ملازمت کرنی پڑی۔ہمیشہ نماز کی پابندی اور پردے کی سخت ہدایت تھی۔والد صاحب کا کہنا تھا کہ کتنےہی اعزازات اور ڈگریاں مل جائیں مگر اللہ کی رضا کا کام نہ کیا تو سب بیکار ہے۔آمنہ خاتون کے والد صاحب نے اپنے ذہن سےکچھ ایجادات کیں ۴۵ سال پہلے بال پین بنایا جب کہ اس دور میں اس کا کوئی تصور نہیں تھا۔اس کے علاوہ ٹرانسسٹر ریڈیو بنا لیتے تھے انھوں نے اگر بتی کی ایک مشین تیار کی۔ڈاکٹر آمنہ کا کہنا ہے کہ اس وقت ہم چھوٹے تھے اتنی عقل نہیں تھی کہ والد صاحب کی ایجادات کو سنبھال کر رکھتے۔آپ کی والدہ محترمہ بہت متقی اور پرہیز گار خاتون ہیں۔ہمیشہ نماز کی پابندی کی تلقین کی اور کہا کہ نماز وقت کی پابندی سکھاتی ہے۔نماز پڑھنے سے انسان کے سارے کام آسان اور اچھے ہو جاتے ہیں۔والدہ صاحبہ ہر معاملے میں آپ کی رہنمائی کرتیں ۔ طالب علمی کے زمانے میں جب تک آپ پڑھتی رہتی تھیں۔ رات کا کتنا ہی پہر ہو جائے والدہ صاحبہ سوتی نہیں تھیں۔والدہ کی محنت، محبت، شفقت اور دعائوں سے آمنہ خاتون ایک بااصول اور محنتی شخصیت بنیں اور اپنے دونوں پیشوں لائبریرین شپ اور ہومیو میڈیکل میں کامیابی کے زینے طے کر رہی ہیں۔

ڈاکٹر آمنہ خاتون کی چار بہنیں اور دو بھائی ہیں ۔آپ اپنے بہن بھائیوں میں سب سے بڑی ہیں۔بہن بھائی اور اولاد سب ہی آپ کو آپا کے نام سے پکارتے ہیں۔ ایک بہن آپ کے نقش قدم پر چل کر ہومیو ڈاکٹر ہے۔ دوسری بہن گورنمنٹ کالج میں فائن آرٹ کی استاد ہے۔باقی دو بہنیں گھریلو خواتین ہیں اور بڑی خوش اسلوبی سے گھریلو معاملات چلارہی ہیں۔آپ کا ایک بھائی ٹیکسٹائل انجینئر اور دوسرا بھائی ایک پرائیویٹ کمپنی میں اچھے عہدے پر فائز ہے۔ڈاکٹر آمنہ کی شادی ۱۹۷۱ء میں میٹرک کے بعد ہو گئی تھی آپ کا ایک بیٹا ہے جوذہین اور فرمانبردار ہے۔گریجویشن کے بعد ایئر لائن میں ملازمت کر رہا ہے۔اس کے علاوہ سوشل ورکر بھی ہے۔آپ کی بہو نے ارود یونی ورسٹی سے جغرافیہ مین ماسٹرز کیا ہے۔پرائیویٹ اسکول میں پڑھارہی ہے۔ایک پوتا اور ایک پوتی ہے جو اسکول میں زیر تعلیم ہیں۔

تعلیمی ادوار:
آمنہ خاتون بچپن ہی سے محنتی اور ذہین طالبہ رہیں۔ہوم ورک اور کلاس ورک وقت پر مکمل کرکے اپنے اساتذہ کے سامنے پیش کردیتی تھیں۔ اساتذہ کی عزت کرتیں اور انکاحکم مانتیں ہر کلاس میں اچھے نمبروں سے پاس ہوتیں اور اسکول میں اپنے اساتذہ سے خوب انعامات حاصل کرتی تھیں۔ ڈاکٹر آمنہ نے میٹرک ۱۹۷۰ء میں حسینی گورنمنٹ گرلز ہائی اسکول ناظم آباد سے فرسٹ ڈویژن میں کیا۔ چونکہ میٹرک کے بعد ہی شادی ہو گئی تھی لہذا دو سال پڑھائی کا سلسلہ منقطع رہا۔دو سال بعد عبداللہ گورنمنٹ گرلز کالج نارتھ ناظم آباد میں داخلہ لے لیا۔ یہاں سے انٹرمیڈیٹ اور گریجویشن فرسٹ ڈویژن میں پاس کیا۔ کالج کے دور میں تعلیم کے ساتھ ساتھ غیر نصابی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔کالج میگزین میں ان کے کئی مضامین شائع ہوئے۔

آمنہ خاتون نےکراچی یونیورسٹی میں داخلہ لینے سے پہلے ہی یہ طے کر لیا تھاکہ لائبریری سائنس کےشعبہ میں ہی داخلہ لینا ہے۔ دراصل ان کے ایک محلہ دار نصیرالدین جو آدم جی سائنس کالج کے لائبریرین تھے انھوں نے آپ کو مشورہ دیا کہ اگر تم ملازمت کرنا چاہتی ہو تو اس پیشہ میں آجائو جلدی ملازمت مل جائے گی۔ کیونکہ لائبریری سائنس ایک پیشہ ورانہ مضمون ہے لہذا انھوں نے ۱۹۷۹ء میں کراچی یونیورسٹی کے شعبہ لائبریری اینڈ انفارمیشن سائنس میں داخلہ لے لیا۔ڈپلومہ میں سیکنڈ پوزیشن حاصل کی۔۱۹۸۰ء میں ماسٹرز فرسٹ کلاس فرسٹ پوزیشن میں کیا۔اور اسپل گولڈ میڈل حاصل کیا۔جامعہ کراچی میں اپنے شعبہ کی طلبہ یونین کی نائب صدر رہ چکی ہیں۔ ماسٹرز کی سطح پر دوران تعلیم آپ کے رشتہ کے بھائی محمود صاحب نے آپ کی بہت رہنمائی کی اس کے بعد ڈاکٹر نسیم فاطمہ جو آپ کی استاد بھی ہیں انہوں نے دوران تعلیم اور بعد میں بھی رہنمائی اور لکھنے لکھانے میں بڑی مدد اور حوصلہ افزائی کی۔ علم حاصل کرنے کا شوق آمنہ خاتون کو لاء کالج اور ہومیوپیتھ کالج کی طرف لے آیا۔آپنے ایل۔ایل۔بی۱۹۸۲ء میں اردو کالج سے کیا۔ ہومیومیڈیکل جناح ہومیو پیتھک کالج سے اگست ۲۰۰۲ء کیا۔ ماسٹرز کے دوران عربی اور فارسی میں جامعہ کراچی سے ایک ایک سال کا ڈپلومہ کیا۔فارسی زبان کے ڈپلومہ میں سیکنڈ پوزیشن حاصل کی۔

ملازمت:
آمنہ خاتون نے جامعہ کراچی سے ماسٹرز کرنے کے بعد ۱۹۸۱ء میں سپر مارکیٹ لیاقت آباد میں واقع کراچی ٹیکنیکل کالج برائے خواتین میں تجربہ حاصل کرنے کے لئے تین ماہ تک کام کیا۔اس دوران آپ کی استاد پروفیسر ڈاکٹر نسیم فاطمہ نے آپ کو پاکستان ببلیوگرافیکل ورکنگ گروپ میں تدریس کے لئے کہا یہاں ایک ٹیچر کی ضرورت تھی لہذا آپ نے سوچا کہ جب تک نوکری نہیں ملتی اس ادارہ میں پڑھانا شروع کر دیا جائے۔ ۱۹۸۱ئ سے تاحال پاکستان ببلیوگرافیکل ورکنگ گروپ میں بحیثیت استاد خدمات انجام دیں۳۲ سال سے کیٹلاگنگ پڑھانے کی ذمہ داری ان کے سپرد رہی ہے۔ آج کل اس ادارے میں ۲۰۱۱ء سے پرنسپل کا ٰعہدہ بھی سنبھال لیا ہے اور بڑی خوش اسلوبی ، محنت اور توجہ سے اپنے فرائض نبھارہی ہیں۔آپ کو یہاں ڈاکٹر رئیس احمدصمدانی اور دیگر ساتھیوں کا بھرپور تعاون حاصل ہے۔جب آمنہ خاتون کو ایم ۔ایل۔ایس کئے ہوئے ایک سال گزر گیاآپ کا کہنا ہے کہ"میرے ساتھیوں کونوکریاں مل گئیں مگر ہم بیٹھے رہ گئےوجہ یہ تھی کہ سب نے ہم سے کہا کہ ہمیں جو چھوٹی بڑی نوکری ملی ہم نے کر لی مگر تم ایم اے کی پوزیشن ہولڈر ہو لہذا ۱۷ گریڈ سے کم کی ملازمت نہیں کرنا۔ لہذا ہم بھی آسمان پر چڑھ گئے۔پھر معلوم ہوا کہ بڑی نوکری کے لئے چھوٹی نوکری کا تجربہ بہت کام آتا ہے تو بغیر کسی شرط کے ہمدرد یونیورسٹی کی لائبریری میں ملازمت قبول کر لی"۔

فروری ۱۹۸۲ء سے اگست ۱۹۸۳ء تک ڈاکٹر آمنہ خاتون کو ہمدرد یونیورسٹی کی وسیع لائبریری میں بہت سارے اسٹاف اور بہت سارے ذخیرہ کتب کے درمیان بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملا۔ حکیم محمد سعید ان کے کام سے خوش ہوئے۔ یہاں پر آپ کو حکیم زبیری اور حکیم برکاتی جیسے مدبر اشخاص کے ساتھ کام کرنے کا اعزاز حاصل ہوا۔ہمدرد لائبریری کی ملازمت کے دوران قرآن پر ایک ببلیوگرافی بھی تیار کی جو انگریزی زبان اور ٹرانس لیٹریشن میں تھی یہ دہلی کانفرنس کے لئے تیار کی گئی تھی سب کو بہت پسند آئی جس پر انعام بھی ملا یہ گروپ ورک تھا۔قرآن پر ببلیو گرافی کرنے میں تین ماہ کا عرصہ لگا یہ کام انہوں نے خالد اسحاق لائبریری میںجا کر کیا۔اس لائبریری مین اسلامی لٹریچر ،قانون،فقہ اور معاشیات پر مواد موجود تھا۔۱۶اگست ۱۹۸۳ء میں آمنہ خاتون کا تقرر ایچ ۔آئی۔عثمانیہ گرلز کالج،عثمانیہ کالونی، کراچی میں ہوا لہذا انہوں نے ہمدرد لائبریری کو خیرباد کہہ دیا۔عثمانیہ کالج میں سندھ پبلک سروس کمیشن کے تحت امتحان اور انٹرویو پاس کرکے لائبریرین کی حیثیت سے ۱۷ گریڈکلاس ون آفیسر کے عہدہ پر فائز ہوئیں۔تا حال اسی کالج میں اپنے فرائض بڑی محنت اور ایمانداری سے انجام دے رہی ہیں۔چند سال پہلے اٹھارواں۱۸ گریڈ ح کے ساتحاصل کر چکی ہیںاور ۱۹ گریڈ میں آنےکے معاملات چل رہے ہیں۔جون ۱۹۸۶ء میں آپ کی ملازمت جامعہ کراچی میں ہوگئی تھی لیکن آپ نے جوائن نہیں کیا۔ان کو آئی۔بی ۔اے سے بھی ۱۶ گریڈ کی آفر ملی تھی۔ آپ نے علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی میں ۱۹۸۷ء سے لائبریری سائنس بی اے کی سطح پر کئی کورسز پڑھائے۔ اساتذہ کی کمی کے باعث طویل عرصے تک بیک وقت چار چار کورسز بھی پڑھانے کا اعزاز حاصل ہوا۔اس یونیورسٹی کے ڈائریکٹرنظر کامرانی نے انہیں لائبریری کا ٹیوٹر مقرر کیا ۔۲۰۱۳ء سےیہاں پر ایم۔اے کی کلاسز کوبھی پڑھا رہی ہیں۔آپ کے شاگرد سندھ، پنجاب اور بلوچستان سے تعلق رکھتے ہیں۔
آپ نے ڈاکٹر جمیل جالبی کی لائبریری میں ٹیکنیکل کام کیااس کےعلاوہ سندھ اسمبلی کی لائبریری میں بھی ٹیکنیکل خدمات انجام دیں۔

مزاج و شخصیت:
ڈاکٹرآمنہ خاتون بڑی عاجزی وانکساری کے ساتھ لوگوں کی خدمت کرنے کو تیار رہتی ہیں۔انتہائی محنتی واقع ہوئی ہیں۔ کسی مشکل کو مشکل نہیں سمجھتیں۔ ہر مشکل راہ پر قدم اٹھا لیتی ہیں اورکامیاب و کامران ہوتی ہیں۔ اپنی عملی زندگی میں مخالفت کی پروا کئے بغیر خلوص نیت کے ساتھ مصروف رہتی ہیں۔آپ کا کہنا ہےکہ "جو لوگ اچھے کاموں میں مصروف رہتے ہیں۔بہت سی برائیوں سے بچ جاتے ہیں۔اگر میں آج زندہ ہوں تو اس لئے کہ میں مصروف ہوں" وعدہ کی پابند ہیں۔ دنیا میں بے غرض ہو کر کام کرنے کو پسند کرتی ہیں۔ اپنے شاگردوں کو علم حاصل کرنے کی نصیحت کرتی ہیں ان کی خواہش ہے کہ ہر انسان بے غرض ہو کرتعمیری و علمی کام کرے۔ بہت مہمان نواز واقع ہوئی ہیں اگر کوئی آپ کے گھر پر تشریف لائے اس کو اپنے ہاتھ سے کھانا پکا کر کھلاتی ہیں۔ مطالعے کا شوق ہے۔اپنے مضامین کے علاوہ تاریخی ناول اور سفر نامہ پڑھنا پسند کرتی ہیں۔ مختلف شعراء کا کلام بہت شوق سے پڑھتی ہیں شعراء و ادیبوں میں مظفر وارثی، احمد ندیم قاسمی ، پروین شاکر، سلیم احمد اور ابن انشاء کو پڑھنا پسند کرتی ہیں۔

آپ کا پسندیدہ شعر یہ ہے:
زندگی تجھ سے ہمارا کوئی سودا نہ ہوا
موت آئے گی تو کر جائے گی مہنگا ہم کو
دوست نہیں بناتیں کیونکہ دوستی نبھانا مشکل ہوتا ہے یہ اور بات ہے کہ خود بخود دوستوں میں اضافہ ہوتا رہتا ہے۔

عثمانیہ کالج اور لائبریری میں خدمات:
۱۹۵۰ء میں عثمانیہ کالج کے قیام کے ساتھ ہی کتب خانہ کا قیام عمل میں آیا۔ بدقسمتی سے یہ کتبخانہ کلرکوں کے ہاتھوں میں رہا۔۱۹۸۳ء میں آمنہ خاتون نے یہاں کا چارج لیا اس وقت کالج کی پرنسپل سلیمہ سلطانہ بیگم تھیں۔کتب کخانہ دو کمروں پر ٘مشتمل تھا۔کتب کی تعداد تقریبا چار ہزار تھی بیشتر کتابیں بے ترتیب رکھی تھیں ۔ تقریبا ایک سال بعد حسن شہوار حورانی یہاں کی پرنسپل بنیں ان کے تعاون سے لائبریری کی حالت بہتر بنانے کا موقع ملا انہوں نے ایک بڑے کلاس روم کو لائبریری کا اسٹاک روم بنا دیا۔ اس طرح ایک ریڈنگ روم اور درمیان میں چھوٹا کمرہ آفس کے طور پر استعمال ہونے لگا۔ کتابوں کی درجہ بندی ڈیوی کے ۱۹ ویں ایڈیشن سے کی اور کتابوں کو موضوع وار الماریوں میں رکھا۔ نئے شیلف منگوائے گئے۔ بہت سی نئی کتابیں پرنسپل کے کمرہ میں عرصے سے بند رکھی تھیں انہیں وہاں سے کتبخانے میں منتقل کرکے ترتیب دیا۔

عثمانیہ کالج کے کتبخانہ میں طالبات اور اساتذہ کی تعداد محدود تھی کتب خانے میں مطالعے کے لئے پر سکون ماحول فراہم کیا گیا اس وجہ سے قارئین کی تعداد لائبریری میں بڑھ گئی۔ڈی۔ڈی ۔ شیڈول منگوائے،کیٹلاگ کیبنٹ بنوائےاور کتب خانے کے لئے فنڈ کے علاوہ دیگر ذرائع سے بھی کتابوں میں اضافہ ہوا۔کتابوں کی تعداد ۱۲۰۰۰ سے زائد ہے۔ یہاں اسلامیات اور اردو پر بہترین ذخیرہ کتب موجود ہے۔اس کے علاوہ تمام موضوعات پر طالبات اور اساتذہ کے لئے حوالہ جاتی مواد بھی موجود ہے۔اوپن شیلف سسٹم ہے ایک سے زائد کتابیں بھی جاری کی جاتی ہیں۔انہیں حواجات بھی فراہم کئے جاتے ہیں۔ غیر نصابی سر گر میوں میں طالبات کی بھرپور رہنمائی کی جاتی ہے۔ آپ معلومات عامہ کے مقابلوں کی انچارج ہونے کے علاوہ اکثر ان پروگراموں میں شرکت کے لئے اپنے کالج کی طالبات کو تیاری بھی کرواتی ہیں۔کالج کی طالبات نے نیلام گھر اور دیگر مقابلوں میں ٹرافی اور انعامات حاصل کئے ہیں۔

افسوس کہ لائبریری کو جدید ٹیکنالوجی سے آراستہ نہیں کیا جا سکا کیونکہ کالج انتظامیہ نے لائبریرین کے ساتھ تعاون نہیں کیا جبکہ کمپیوٹر لیب میں ابھی تک کمپیوٹر بےکا ر پڑے ہوئے ہیں شاید انہیں کتب خانے کی ضروریات اور اہمیت کا احساس نہیں۔ وہ پچھلی صدی میں زندہ ہیں۔

مطبوعات:
ڈاکٹرآمنہ خاتون ایک کتاب کی مصنفہ ہیں کتاب کا عنوان ہے "لائبریری سائنس ایک نظر میں" آپکے مضامین ،کتابوں پر تبصرے اور مختلف شخصیات کے انٹرویوز مختلف اخباروں اور رسائل میں شائع ہوئے ہیں اور یہ سلسلہ جاری ہے۔آپ کا پہلا مضمون پاکستان لائبریری اینڈ انفارمیشن سائنس جرنل ستمبر۔ دسمبر ۱۹۸۰ء میں "اسکول لائبریری میڈیا سینٹر" کے عنوان سے شائع ہوا۔آپ نے تعلیم کے دوران شعبہ لائبریری اینڈ انفارمیشن سائنس، جامعہ کراچی کا مجلہ"کتاب مالا"کے نام سے۱۹۸۰ء میں نکالا،یہ شعبہ کی تاریخ کا پہلا رسالہ تھا مگر افسوس کہ بعد میں اس کا کوئی اور شمارہ جاری نہ ہوا۔ "کتاب مالا "میں آپ کا ایک مضمون چھپا جس کا عنوان تھا"تحریر کی جمالیاتی قدریں" عثمانیہ کالج کے میگزین "ادراک" میں بھی آپ کے کئی مضامین شائع ہوچکے ہیں۔ اخبارات میں جنگ،نوائے وقت اور مشرق میں مضامین شائع ہوئے ہیں۔روزنامہ جنگ کراچی میں ۲۷ اکتوبر ۱۹۹۳ء کو آپ کا ایک انٹرویو شائع ہوا۔یہ انٹرویو آپ سےموجودہ دور کی ادبی شخصیت سیما سراج عثمانیہ کالج کی پرنسپل نے کیا۔آپ کا ایک مقالہ "پاکستانی ثقافتی ورثہ اور کتب خانے"ادب و کتب خانہ میں ۲۰۱۲ میں شائع ہوا۔یہ مقالہ آپ نے پی ایل اے کے تحت ہونے والی کانفرنس منعقدہ جون ۲۰۱۰ء کو پڑھا تھا۔

اساتذہ اکرام اور ہم جماعت:
آپ نے جامعہ کراچی کے شعبہ لائبریری سائنس میں ڈاکٹر جلال حیدر مرحوم، اختر حنیف مرحوم صادق علی خان ، ڈاکٹر نسیم فاطمہ او ر ملاحت کلیم شیروانی سے تعلیم حاصل کی۔سب ہی اساتذہ بہت محنت اورتوجہ سے پڑھاتے تھے۔صادق صاحب کی کلاس میں کچھ تفریحی پروگرام ہو جاتے تھے۔ آپ کا کہنا ہے کہ "ڈاکٹر نسیم فاطمہ جب لیکچر دیتی ہیں تو محسوس ہوتا تھاکہ بہت زیادہ تیاری سے آئی ہیں انکے مشقت آمیز انداز سے ہمیں اپنے کالج کی ایک استاد میڈم نصرت ےیاد آجاتی تھیں وہ ہمیں نفسیات بہت محنت اور لگن سے پڑھاتی تھیں بعد میں میڈم نسیم سے معلوم ہوا کہ یہ دونوں اپنے کالج کی تعلیم کےدوران آپس میں گہری دوست تھیں اور آج بھی یہ دوستی قائم ہے۔میڈم ملاحت اور دیگر اساتذہ اکرام کے ساتھ پکنک اور پارٹیوں وغیرہ میں بہت لطف اٹھایا۔شعبہ کی سلور جوبلی تقریبات بھی ہوئیں جن میں اساتذہ کرام کے ساتھ بہت اچھا وقت گزرااور بہت سیکھنے کا کے مواقع میسر آئے"۔ڈاکٹر آمنہ خاتون کی جامعہ کراچی کی ہم جماعت میں چند میں سے شاہین علوی جنکی ماسٹرزمیں تیسری پوزیشن تھی آجکل گلستان سکول میں ہیں۔شاہین این ۔ای۔ ڈی یونیورسٹی میں ملازمت کر رہی ہیں۔ندرت آرا علوی جناح پوسٹ گریجویٹ میڈیکل سینٹر میں اور شاہانہ علوی باغ جناح لائبریری میں خدمات انجام دے رہی ہیں۔شاہ بانو ماما پارسی اسکول میں لائبریرین کے فرائض انجام دے رہی ہیں۔

مختلف اداروں کی ممبر شپ:
آپ پاکستان لائبریری ایسوسی ایشن کی تا حیات رکن ہیں۔پی ایل اے کی فنانس سیکریٹری رہ چکی ہیں۔لائبریری پروموشن بیورو کی ادارتی ممبر اور پبلیکیشن منیجر ہیں۔ عثمانیہ کالج میں سپلا کے تحت کالج یونٹ کی صدر ہیں۔کونسل آف اسکول انٹر کالج لائبریرین کی ممبر ہیں۔کالج لائبریری ایسوسی ایشن کی ممبر ہیں۔

ٹریننگ ،سرٹیفکٹ کورسز اور کانفرنسز:
ڈاکٹر آمنہ خاتون نے اپنی تعلیم کے دوران مختلف کورسز کئے۱۹۷۵ءسے ۱۹۷۷ء تک دو سال کی ویمن گارڈ کی ٹریننگ بی اے کی تعلیم کے دوران ھاصل کی ۔ ۲۰۰۲ء میں دوران ملازمت کمپیوٹر کے تین کورسز کئے یہ کورسز لائبریری آٹومیشن سے متعلق تھے۔ پاکستان لائبریری ایسوسی ایشن کے تحت ہونے والی کئی کانفرنسز میں شرکت کی۔

آپ کے کردار پر لائبریری سائنس کے اثرات:
راقم الحروف نے آمنہ خاتون سے ایک انٹرویو میں سوال کیا کہ لائبریری سائنس کی تعلیم نے آپ کے کردار پر کیا اثرات مرتب کئے؟ انہوں نے کہا کہ"ماسٹرش میں لائبریری سائنس لینے کا ارادہ کیا تو مجھے یاد آیا کہ میرے تعلیمی دور میں ہمارے کالج کی لائبریرین اپنی کرسی پر بیٹھی سوئیٹر بنا کرتی تھی انہیں کبھی اساتذہ اور طالبات کے ساتھ مصروف نہیں دیکھا۔ ہمارے اسکول میں بھی کتبخانہ نہیں تھااور نہ اس کی شدُ بدُ تھی ۔ابتدا میں ہم اس بات پر بہت خوش تھے کہ ایسا مضمون لیا ہے جس میں ملازمت کا مطلب ہے کرسی پر بیٹھنا او ر ۱۷ گریڈ ملنا۔جب داخلہ ہوا تو لوگوں نے کہا یہ مضمون مشکل ہے۔ہم نے سوچا کہ مشکل کچھ دنوں کی ہھر آسانیاں ہی آسانیاں ہیں لیکن اس مضمون کو پڑھ کر اور اساتذہ کی محنت اور لگن دیکھ کر اس بات کا اندازہ ہوا کہ کہ لائبریرین شپ میں جس قدر قارئین کے لئے تگ ودو کریں گے آپکی اپنی قابلیت بڑھے گی جتنی خدمت کریں گے عظمت ملے گی۔اگر چہ کہ اس ملک میں لائبریرین کی وہ عزت اور قدر نہیں ہے جو باہر کے ممالک میں ہے مگر مجھے کبھی افسوس نہیں ہوا کہ میں لائبریرین کیوں بن گئی بلکہ اس علک کے حصول سے ہمیں علم ملا،اعتماد ملا اور سکون ملا۔ بالکل اس طرح جیسے ایک ڈاکٹر کسی مریض کا علاج کر کے خوشی محسوس کرتا ہے۔اسی طرح کسی طالب علم اور محقق کی خدمت کر کے مجھے آسودگی ملتی ہے۔ایک جذبہ شادمانی ہمیشہ ساتھ رہتا ہے کہ ہم لاتعداد افراد کی علمی پیاس بجھا کر ان کی قدم بہ قدم منزل کے حصول میں معاونت کر رہے ہیں اور یہ ایک صدقہ جاریہ ہے۔علم اور ایسا علم جو کسی کو روزگار کی طرف لے جائے،حصول علم کی طرف لے جائے،تحقیق کے طریقے سکھادے،خدمت کی راہیں کھول دے اور رفتہ رفتہ یہ سب کچھ دوسروں کو منتقل ہوتا رہتا ہے یہ سب کیا ہے،نیکی ہے۔اس کے علاوہ لائبریری سائنس کی وجہ سے مجھے کتابوں اور کتابداروں کے ساتھ رہ کر لکھنے پڑھنے کا شوق پیدا ہوا۔

لائبریری کی ترقی کے لئے تجاویز:
لائبریری کی ترقی کے اقدامات کے لئے کچھ تجاویز پیش کرتے ہوئے ڈاکٹر آمنہ خاتون نے کہا،"دنیا تیزی سے ترقی کر رہی ہے کتب خانوں کا کردار اس کی ترقی میں پوشیدہ ہے کسی محقق ،ڈاکٹر اور انجینئر کا بغیر لائبریری کے گزارہ نہیں مگر حکومت سے عوام الناس تک ان کے لئے کوئی اہم اقدامات نہیں ہو رہے ہیں۔ کبھی کوئی حکومت بڑی گرانٹ مختص کرتی ہے تو کتب خانوں تک نہیں پہنچ ہی نہیں پاتی یا اس کو غلط طریقے سے استعمال کیا جاتا ہے۔یہ حق لائبریرین کا ہے اس کو ملنا چاہئے وہ بہتر جانتا ہے کہ اس کے کتب خانے میں کون سی کتابوں کی ضرورت ہے۔کتابوں اور دیگر معاملات پر کتنا خرچ کرنا ہے مگر ارباب اختیار یہ کام خود ہی کر لیتے ہین جبکہ وہ لائبریریسائنس کی الف بے سے بھی واقف نہیں ہوتے۔کتب خانوں کو جدید ٹیکنالوجی سے آراستہ کرناہوگا تاکہ علم دوست لوگوں کو ائبریری کی اہمیت کا احساس ہو اور ادارہ کتبخانوں کی ترقی کے لئے اپنا کردار ادا کرے۔انوار احمد زئی چیئرمین انٹر بورڈ کراچی نے ایک اچھی مثال قائم کی ہے انہوں نے ملک بھر کے تعلیمی اداروں اور کتب خانوں میں یوم کتب خانہ ہر ۲۱ فروری کو منانے کا اہتمام کروایا۔ اس طرح ایک تحریک پیدا ہوئی لوگوں کو معلوم ہوا کہ کتب خانوں پر بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے لہذا ایسے ہی پروگرام بنائے جائیں جن سے لوگوں کو علمی خزانوں اور ان کے لائبریرین حضرات کی اہمیت کا احساس ہو"۔

تعریفی خطوط:
ڈاکٹر آمنہ خاتون ایک پرُ خلوص ، بااعتماد اور ہمہ وقت مصروف خاتون ہیں۔آپ اپنے تعلیمی دور سے ملازمت کے دور تک محنت اور دیانتداری سے کام کرتی نظر آتی ہیں۔ شعبہ لائبریری اینڈ انفامیشن سائنس،جامعہ کراچی کےسابق چیئر مین ڈاکٹر انیس خورشیدمرحوم نے آپ کے لئے ایک خط میں ۲۶اپریل ۱۹۸۱ء کو لکھا،"آمنہ خاتون ایک محنتی ،ذہین، وقت کی پابند اور دوسروں کے ساتھ تعاون کرنے والی طالبہ ہیں۔ ان کے اندر لیڈرانہ صلاحیتیں پوشیدہ ہیں"۔

جامعہ کراچی کے سابق وائس چانسلر ڈاکٹر جمیل جالبی نے آپ کے لئے ایک تعریفی سرٹیفکٹ میں لکھا ہے کہ"آمنہ خاتون اپنے پیشہ ورانہ فرائض بڑی ایمانداری سے نبھاتی ہیں مجھے امید ہے کہ آپ کسی بھی لائبریری کے لئے بہترین اثاثہ ہیں"۔

ڈاکٹرآمنہ خاتون سے راقم الحراف کی دلی وابستگی ہے۔آپ بلند کردار انسان ہیں۔آپ کی قوت ارادہ مضبوط ہے۔بناوٹ اور تصنع سے پاک ہیں۔ بات بہت صاف اور کھری کرتی ہیں۔ میری دعا ہے کہ اللہ پاک آمنہ خاتون اور ان کی اولاد کو قدم قدم پر کامیابی و کامرانی عطا کرے اور ان کی دین و دنیا سنوار دے۔آمین۔ثمہ آمین۔