بابائے صحافت مجید نظامی۔۔۔۔

میں اور خورشید ربانی مسجد الرضا میں تھے ، محترم بشارت علی سید نے بابائے صحافت مجید نظامی کی رحلت کی روح فرسا خبر دی،27ویں شب اور جمعرات۔۔۔۔کیا دن پایا۔۔۔ہمارے ہاں ایک روایتی فقرہ کسی بھی بڑی شخصیت کے انتقال کے موقعہ پر بولا جاتا ہے کہ ان کی وفات سے پیدا ہونے والا خلا کبھی پر نہیں ہوگا ، موت العالِم موت العالم ، نوائے وقت گروپ کے سربراہ اور بزرگ صحافی مجید نظامی کے انتقال کے حوالے سے یہ تمام جملے حقیقی معنوں میں استعمال کئے جاسکتے ہیں۔ ان کے انتقال سے واقعتا صحافت میں بہت بڑا خلا پیدا ہوگیا ، جس کا پرہونے کا کوئی امکان نہیں۔ ان جیسا ایڈیٹر اردو صحافت کو شاید ہی نصیب ہو ،لیڈ سٹوری بدل دی،نیا اخبار پرنٹ ہوا اور ہم سب نمناک اپنے اپنے گھروں کو لوٹ گئے،بشارت علی سید کہتے ہیں کہ مجید نظامی جینون آدمی تھے ،ورکروں کا خیال رکھنے والے تھے ،ایک الیکٹریشن کی موت کے بعد اس کے اہل خانہ کی کفالت ہو یا ایک رپورٹر کی ناگہانی موت کے بعد اس کے بچوں کی تعلیم کا معاملہ۔۔۔مجید نظامی کبھی پیچھے نہیں ہٹے ،وہ اختلاف رائے رکھنے والے کو غور سے سنتے تھے۔۔اپنی کھوپڑی استعمال کرنے والے کی قدر کرتے اور خوشامدی کی بات رد کر دیتے تھے۔۔۔پروفیشنل ایڈیٹر ۔۔نہ کسی کے کہنے پر ورکرکو نکالا اور نہ کسی کی سفارش پر ورکر کو نوازا۔۔۔کئی گھرانے پالنے والا آج ہم میں نہیں رہا۔۔۔ ان کی دو قومی نظریہ ،مسئلہ کشمیر ،مسلم لیگ اور پاکستان سے لازوال کمٹمنٹ، مستحکم ارادے، ہر آمر ،جابر کے سامنے سینہ سپر ہونے ،سٹینڈ لینے کی قوت اور مشکل ترین حالات میں کھری بات کہنے کی صلاحیت انہیں اپنے تمام ہم عصروں سے ممتازاور منفرد بنا دیتی ہے۔ وہ مالک کم اور دوست زیادہ تھے۔۔۔۔انہوں نے نصف صدی سے زیادہ وقت صحافت میں گزارا اور ہمیشہ صاف دامن کے ساتھ سربلند رہے۔ پورے بانکپن اور وقار کے ساتھ زندگی گزاری ،شفاف کردار کے مالک رہے۔ایوبی آمریت میں نوائے وقت اور مجید نظامی کا کردار تاریخ رقم کر چکا ہے ،محترمہ فاظمہ جناح کی انتخابی مہم اور کھلم کھلا حمایت مجید نظامی جیسا بے باک ہی کر سکتا تھا۔۔۔لالچ اور زاتی مفاد سے کوسوں دور رہے،نوائے وقت کے ورکر اب یتیم ہو گئے ہیں ،ضیاالحق کے منہ پر یہ کہہ دینا کہ ساڈی جان کدوں چھڈو گے ان کا ہی خاصہ تھا،آمر کی ہر پیشکش ٹھکرانامجید نظامی کا طرہ امتیاز رہا ہے۔۔ ان کی زندگی میں ڈرامائی اتارچڑھاؤ رہے، ڈکٹیٹروں کے ساتھ انہوں نے ٹکر لی،اپنی ہمت ، جرات اورفراست کے باعث کبھی نہیں جھکے۔ ان پر اﷲ کا یہ خاص کرم رہا کہ ہر معرکے میں سرخروئی ان کے حصے میں آئی۔ مگر مجید نظامی کی کہانی ان کے بڑے بھائی حمید نظامی کے ساتھ یوں جڑی ہوئی ہے کہ اس کے ذکر کے بغیر بات ادھوری رہے گی۔ یہ 23مارچ 1940 کی بات ہے جب قائد اعظم کے کہنے پر مسلم لیگ کے کارکن اور نوجوان صحافی حمید نظامی مرحو م نے لاہورسے پندرہ روزہ جریدے نوائے وقت کے اجرا کا اعلان کیا جس کامطمع نظرمسلم قومیت کے حقوق ومفادات کاتحفظ اوراردو زبان کا فروغ تھا۔ پہلا شمارہ29 مارچ 1940 کو شائع ہوا۔ چند برس بعد 22جولائی 1944 سے یہ پندرہ روزہ اخبار روزنامہ نوائے وقت میں تبدیل ہوگیا۔ دوقومی نظریہ کے محافظ حمید نظامی سپہ سالار صحافت کی حیثیت سے اِس سفر پر25فروری1962 تک ایک کامیاب مجاہد کے طور پر چلتے رہے۔ وفات سے قبل اپنے بھائی مجید نظامی کو لند ن سے بلاکر حق وصداقت کا یہ علم ان کے سپر دکردیا۔ روزنامہ نوائے وقت نے نظریہ پاکستان ،مسئلہ کشمیر،محصورین بنگلہ دیش، 8 اکتوبر 2005 کا بدترین زلزلہ ،محسن پاکستان کی طویل اسیری سمیت ہر قومی ایشو پر آوازِ حق بلند کی۔بھارت کے جوہری دھماکے کرنے کے بعد مرحوم مجید نظامی اس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف سے یوں مخاطب ہوئے: آپ نے دھماکہ نہ کیا تو قوم آپ کا دھماکہ کر دے گی۔ اور پھر دھماکہ ہوگیا ۔ انہوں نے ہر جابر حکمران کے سامنے کلمہ حق بلند کیا۔ایک باکردار صحافی کی حیثیت سے ہمیشہ حق وصداقت کاپرچم سربلند رکھا۔ ایوب خان نے کہا کہ صحافت کاروبار ہے مجید نظامی نے درجنوں زبان رکھنے والے گونگوں کی موجودگی میں برجستہ کہا کہ تو پھر اپنے بیٹے کو اخبار نکال دیں پتہ چل جائے گا کہ کتنا نفع بخش کاروبار ہے،مارشل لاء لاء نہیں ہوتا اور عدالت بھی اسے قانون نہیں کہتی۔۔۔مجید نظامی مرحوم نے صحافت کے علاوہ کوئی کام نہیں کیا۔انہوں نے اپنے ایک انٹرویو میں کہا تھا: صحافت کا آغاز زمانہ طالب علمی میں کیا۔ تقریباچار برس تک سر راہ لکھا جو نوائے وقت کا اہم ترین کالم تھا۔ مجید نظامی مرحوم نے 3بار بائی پاس آپریشن کروایا۔۔ وہ کہا کرتے تھے کہ فوجی آمریتوں کے باعث دل کے مرض کا شکار ہوئے۔ انہوں نے اپنے ایک انٹرویو میں کہا تھا حمید نظامی صاحب کو مارشل لا کے دباؤ کے باعث ہارٹ اٹیک ہوا اور وہ اﷲ کو پیارے ہوگئے۔ عملی صحافت میں آپ پریشر بھی برداشت کررہے ہوتے ہیں اور پیشہ ورانہ مہارت کا ثبوت بھی دے رہے ہوتے ہیں ۔ میں نے ایوب خان سے مشرف تک ہر ڈکٹیٹر کو دیکھا ہے ان کا ڈٹ کر مقابلہ کیا اور جمہوریت کا ساتھ دیا یہ کوئی مذاق کی بات نہیں۔ مجید نظامی نے سابق صدر آصف زرداری کو مردِ حر کہا تو اس پر خاصی لے دے ہوئی۔ ان کا موقف تھا کہ آصف زرداری نے جیل بغیر کسی سودے بازی کے کاٹی کچھ لوگ کہتے ہیں کہ وہ جیل میں عیاشی کیاکرتے تھے مگر جیل بہرحال جیل ہی ہوتی ہے۔ انہوں نے جیل کاٹی اور معافی نہیں مانگی اور نہ سودے بازی کی۔ میں نے اپنے اس بیان پر بہت تنقید برداشت کی کیونکہ بہت سے لوگ یہ کہتے تھے کہ آپ نے ان کو مرد حر کہہ دیا ہے۔ میرا جواب ہوتا کہ میں نے ان کو صرف ایک خاص حوالے سے مرد حر کہا ہے۔ وہ مسلم لیگ کے ٹکڑوں میں بٹ جانے پر رنجیدہ تھے اتحا د کی کوششیں کرتے رہے لیکن یہ حسرت دل کی دل میں رہی، مجید نظامی نے پرنٹ میڈیا کو الیکٹرانک میڈیا پر ہمیشہ فوقیت دی مجید نظامی مرحوم نے مسئلہ کشمیر پر ہمیشہ آواز بلند کی۔ وہ کہا کرتے تھے کہ قائد اعظم نے کشمیر کو پاکستان کی شہ رگ قرار دیا تھا ،کوئی بھی شہ رگ کے بغیرزندہ نہیں رہ سکتا۔ اگر کسی ملک کی شہ رگ کسی دشمن نے دبوچ رکھی ہو تو وہ ملک قائم نہیں رہ سکتا۔انکی شریک حیات کا تعلق سری نگر سے تھا اور اس بات پر قائم رہے کہ کشمیر آزاد ہو گا تو جائیں گے۔۔۔وہ کہا کرتے تھے کہ میرے ساتھ بم باندھ کر ہندوستان پر پھینک دو۔۔۔بھارتی آبی دہشت گردی پر اگر آواز حق بلند کی تو صرف مجید نظامی نے۔۔۔میانی صاحب قبرستان میں اپنی اہلیہ کی آخری آرام گاہ کے قریب انہیں بھی جگہ ملی ۔۔۔شہباز شریف تدفین تک موجود رہے، ہر آنکھ اشکبار۔۔ ہر دل رنجیدہ۔۔

فکر ہے کہ اگر کوئی آمر آگیا تو سینہ سپر کوئی ہوگا ،بھارتی آبی جارحیت کے خلاف کون لکھے گا کون بولے گا اور نظریہ پاکستان کیا کیا بنے گا۔۔۔۔راقم اور خورشید ربانی مسجد میں تھے ، محترم بشارت علی سید نے بابائے صحافت مجید نظامی کی رحلت کی روح فرسا خبر دی،27ویں شب اور جمعۃ المبارک۔۔۔۔کیا دن پایا۔

Waqar Fani
About the Author: Waqar Fani Read More Articles by Waqar Fani: 73 Articles with 70815 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.