قہرٹوٹا فقط مسلمانوں پر!

رعونت، درندگی اور سفاکی،تہذیب کے ہر قرینے اورانسانیت کے ہر سلیقے سے عاری ہوتی ہے۔وہ اپنی خوں آشامی کا جواز خود ہوتی ہے اور اپنی حیا باختگی کی دلیل خود تراشتی ہے ۔ کسی کی برہمی ،کسی کی تنقیداور کسی کی حرف گیری سے اسے کوئی فرق نہیں پڑتا۔اگر ایسا ہونا ہوتا تو اب تک دنیاان فسادیوں سے پاک ہوچکی ہوتی۔ برمامیں بودھ دہشتگردوں نے مسلمانوں پرجوعرصہ حیات تنگ کررکھاتھا،دنیابھرمیں اس ظلم وستم کی خبروں نے ابھی اس کانوٹس لیناشروع ہی کیاتھاکہ اب سری لنکامیں بھی ایسی ہی بودھ دہشتگردکاروائیوں کی خبریں سامنے آناشروع ہوگئیں ہیں مگرشومئی قسمت کہ سری لنکاکے مسلمان بودھوں کے جس قہرکاشکارہیں اسے ایک سازش کے تحت عالمی سطح پرنظر انداز کیا جا رہاہے۔سری لنکا میں تاملوں اورسنہالیوں کے مابین جاری نسلی منافرت کے دوپاٹوں کے درمیان مسلمان پھرپسنے لگے ہیں۔چندروزپہلے ایک انتہاپسندبودھ گروپ کے ہاتھوں مسلمانوں پرظلم وستم کا نیا سلسلہ شروع ہوگیاہے جسے میڈیانے اپنی سابقہ روایات پرعمل کرتے ہوئے بڑی ڈھٹائی سے چھپا دیا جبکہ انتظامیہ نے دوشہروں میں کرفیو نافذ کر دیا ہے ۔ حالیہ تشددایک شہرمیں بودھ مت کے پیروکاروں کی ایک ریلی کے بعدشروع ہوا۔اس تشددکے نتیجے میں تین مسلمان جاں بحق جبکہ ۱۰۰سے زائدکوزخمی کرکے دوکانیں نذرِ آتش کردی گئیں۔

مقامی مسلمانوں کاکہناہے کہ پولیس منہ دیکھتی رہی اورہمیں حملہ آوروں سے بچانہیں سکی۔بعدمیں مسلم اکثریتی شہربیرووالامیں بھی کرفیولگادیاگیا۔سری لنکامیں بودھوں کی تعدادمحض %۱۰ہے،بودھ دہشتگردوں نے بوڈوولاسیناریلی کی آڑمیں مسلم علاقوں میں گھس کرنہ صرف مسلم مخالف نعرے لگائے بلکہ سیکورٹی کے نام پرآنسوگیس اورفائرنگ بھی کرتے رہے جس میں مسلمانوں کوبراہِ راست نشانہ بنایاگیا۔مسلمانوں کے گھروں کے علاوہ ایک مسجدپربھی پتھراؤکیاگیاجس کے بعدتشددکادائرہ کئی علاقوں میں پھیلتاچلاگیا۔لگ رہاتھاکہ سری لنکاکے میڈیانے تشددکی خبریں شائع نہ کرنے کافیصلہ کررکھاہے کیونکہ اس کاذکر نہ ہونے کے برابراوروہ بھی ایک کالمی چھوٹی سی خبرشائع کی گئی ہے۔

مبصرین کے نزدیک سری لنکاکے مسلمان صدیوں سے ملک کی آبائی برادریوں یعنی سنہالیوں اورتاملوں کے ساتھ بقائے باہمی کے اصول کے تحت زندگی گزارتے آئے ہیں اوران کے ساتھ مسلمانوں کے قریبی سماجی اوراقتصادی روابط رہے ہیں۔مسلم اورتامل بچے ہمیشہ سے ایک ہی اسکول میں پڑھتے چلے آرہے ہیں لیکن ثقافتی سرگرمیوں اورکھیلوں میں ان کے کردار الگ الگ رہے جبکہ گزشتہ ۲۵سال تک چلنے والی خانہ جنگی کے دوران پوری قوم وہاں کے اکثریتی طبقہ سنہالیوں اورملک کی سب سے بڑی اقلیت تاملوں پرہی مرکوزرہی تاہم مسلمانوں کوہمیشہ سے نظراندازہی کیاگیا۔صورتحال اس وقت مزیدابترہوگئی جب نسلی بحران نے مسلح تصادم کی شکل اختیارکرلی اورتامل نوجوانوں نے ہتھیاراٹھالئے اوراس طرح’’ ایل ٹی ٹی ای‘‘ یعنی (لبریشن آف تامل ٹائیگرزفارایلم)کی تشکیل ہوئی جبکہ ۸۰ء کی دہائی میں مشرقی سری لنکامیں مسلمانوں اورتاملوں کے درمیان مفادات کی لڑائی شروع ہوگئی ابتدائی ایّام میں یہ تصادم شدیدنہیں تھااورسیاسی سطح پرقابوپایاجاسکتاتھالیکن ۱۹۹۰ء تک اس نے زورپکڑلیاجبکہ تامل ٹائیگرزنے مسلمان شہریوں پرحملے کرنے شروع کردیئے اوربٹی کلوواکی ایک مسجدمیں مسلمانوں کواس وقت فائرنگ کرکے شہیدکردیاجب وہ نمازاداکررہے تھے حالانکہ اس سانحے سے قبل روائتی طورپرمسلمان اورتامل مل جل کرنہ صرف سماجی زندگی گزاررہے تھے بلکہ ایک دوسری برادری کاہاتھ بھی بڑے پیمانے پربٹایاکرتے تھے۔
سری لنکامیں مسلم تاجرٹیلراورلوہابیچنے کے پیشوں میں مشغول تھے،مزدوری کیاکرتے تھے اورمتعددمسلمانوں کاشمارانتہائی ذہین دانشوروں میں ہوتاتھا۔جافنہ میں اچھی خاصی تعداد مسلمانوں کی موجودتھی اوراس قصبے کے ایک چھوٹے حصے پران کاقبضہ تھا۔جافنہ کی یونیورسٹی میں بھی مسلمانوں نے ایک اہم رول اداکیالیکن ساٹھ اورسترکی دہائی میں جب مختلف اضلاع کی ترقی کاسلسلہ شروع ہواتومسلمانوں کازبردست اقتصادی نقصان ہوااورانہیں بری طرح نظراندازکیاجانے لگالہندامسلم نوجوان سرکاری بے پرواہی کی وجہ سے عسکریت پسندتامل آئیڈیالوجی کے جھانسے میں آگئے اوراس طرح ایل ٹی ٹی ای کے ملٹری ونگ میں شمولیت اختیارکرناشروع کردی۔مسلمانوں کے متعددگاؤں اورقصبوں میں ایل ٹی ٹی نے اپنے برانچ آفس کھولنے شروع کردیئے اوراس طرح مسلمانوں کے کچھ مخصوص طبقوں میں اسے قبولیت حاصل ہونے لگی لیکن یہ سلسلہ زیادہ دنوں تک اس لئے نہ چل سکا کیونکہ اپریل ۱۹۸۸ء کے دوران میں سری لنکاکے اندرمسلمانوں اورتاملوں کے درمیان زبردست فرقہ وارانہ فسادات شروع ہوگئے۔ان کاآغازشمالی سری لنکاکے منارقصبہ سے ہواجہاں پرتامل ٹائیگرزنے ایک مسجدمیں نمازیوں پراندھادھندفائرنگ کرکے تین مسلمانوں کوشہیداوردرجنوں افرادکوزخمی کردیا۔۱۹۸۵ء کے ان فسادات کے بعدحملوں نے مسلمانوں کے بارے میں اپنی پالیسی یکسربدل دی اورملک کے شمال مشرقی حصے کے پولوتناورااور مشرقی صوبوں کے بعض دیہات کے بے قصورمسلمانوں پرظلم ڈھاناشروع کر دیئے۔ہزاروں مسلم مردوں،عورتوں اوربچوں کوان کے گھروں،کھیتوں اوردوکانوں میں ہلاک کردیا گیا۔جافنہ کے تمام مسلمانوں کوبندق کی نوک پران کے گھروں اورکاروبار سے بیدخل کر دیا گیا ۔

سری لنکاکے یہ مسلمان آج بھی مختلف کیمپوں میں پناہ گزینوں کے طورپرکسمپرسی کی زندگی گزاررہے ہیں اورانہیں اپنے آبائی گھروں میں جانے کی بھی اب کوئی امیدباقی نہیں بچی۔ ایسامحسو س ہوتاہے کہ ایل ٹی ٹی ای نے تامل اکثریت اضلاع میں مسلمانوں کامکمل طورپرصفایاکرنے کامذموم منصوبہ تیارکرلیاتھاجس کی وجہ سے مسلمانوں کیلئے اب قطعاً کوئی ہمدردی باقی نہ رہی اوراس طرح دونوں ایک دوسرے کے جانی دشمن بنتے چلے گئے۔حدتواس وقت ہوگئی جب ۲۳/اکتوبر۱۹۹۰ء کومسلمانوں کوتنبیہ جاری کی گئی کہ وہ اگلے ۲۴گھنٹوں میں گھربار،مال ودولت چھوڑکرتامل لینڈخالی کردیں۔ایل ٹی ٹی ای کے بندوق برداردہشتگرد،مسلمانوں کے کئی گاؤں میں گشت کرنے لگے اورانہوں نے ضلع کی سطح پر موجوداپنے لیڈروں کے تحریری خطوط مسلمانوں کے تمام ٹرسٹی ،امام اورمذہبی رہنماؤں کوبانٹنے شروع کردیئے اوران سے کہاکہ وہ لاؤڈاسپیکرپراس خط کوپڑھ کر سنائیں۔اس خط میں لکھا ہوا تھا کہ ۴۸گھنٹوں کے اندرمسلمان اپنے گھرخالی کردیں اوراپناسامان گاڑیوں ،ریڈیو،سلائی مشینیں،واٹرپمپ وغیرہ گاؤں کے کسی مخصوص اسکول میں ایل ٹی ٹی ای لیڈرزکے حوالے کر دیں۔

اس خط کے ذریعے سے یہ بھی اعلان بھی کیاگیاکہ یہ حکم ایل ٹی ٹی ای کے اعلیٰ عہدیداروں کی طرف سے جاری کیاگیاہے جس کی نافرمانی کی صورت میں سزائے موت دی جائے گی۔۴۸گھنٹے کی مہلت پوری ہونے کے بعدایک ٹی ٹی ای کے لیڈروں نے تمام گاؤں کے ہرگھرمیں جاکرمسلمانوں کوان کے گھروں سے دھکے دیکرباہرنکالناشروع کردیاجبکہ گاؤں سے باہرجانے والے کسی ایک مقام پرمسلمان مردوں،عورتوں اوربچوں کی تلاشی لی جانے لگی۔عورتوں کے گلے سے وزنی اورقیمتی زیورات نکالنے کیلئے لوہاکاٹنے والا اوزاراستعمال کیاگیااورہرخاندان کوصرف دوسوروپے یعنی اس وقت کے پانچ ڈالرساتھ لیجانے کی اجازت دی گئی۔بعض مقامات پرتومسلمانوں کواپنے کپڑے بدلنے کی بھی اجازت نہیں دی گئی جبکہ مسلمانوں کے کلی اثاثوں پرایل ٹی ٹی ای کاقبضہ ہوگیا۔شمالی صوبے ملی تیوواورکلی نوچی کے مسلمانوں کابھی یہی حشرکیاگیا۔مجموعی طورپر۹۵ہزارمسلم مردوں ، عورتوں اور بچوں کوبے گھر کردیاگیا۔مسلمانوں کے ساتھ سری لنکا میں اتنی بڑی ناانصافی ہوئی لیکن خانہ جنگی کی داستان میں اس کاکہیں ذکر نہیں کیاگیایہاں تک کہ سری لنکاکے اندریکے بعد دیگرے بننے والی حکومتوں نے بھی مسلمانوں کی اس حالت زارکاکوئی نوٹس نہیں لیااورمسلمان دردرکی ٹھوکریں کھاتے رہے۔

کیمپوں کے اندرتعلیم ،صحت اورصفائی کابہترانتظام نہ ہونے کی وجہ سے ان مسلمانوں کومتعددمسائل سے دوچارہوناپڑا،ان کی زندگی سرکاری یاخیراتی تنظیموں کے رحم وکرم پرسسک سسک کرگزرتی رہی۔۲۰۰۲ء کاجنگ بندی معاہدہ بھی بہت سے مسلمانوں کیلئے اطمینان کاسامان نہ کرسکا۔امن مذاکرات میں مسلمانوں کوخاطرخواہ نمائندگی نہ ملی۔اس معاہدے کے تحت ایل ٹی ٹی ای کوشمالی اورمشرقی علاقوں میں جوبے مہارکنٹرول عطاکیااس سے مسلمانوں کی فلاح وبہبودپرمنفی اثرپڑا۔اس کے بعدمسلمانوں اور ایل ٹی ٹی ای کے درمیان بات چیت کاسلسلہ جاری ہوالیکن مسلمانوں کے خلاف حملے جاری رہے۔۲۰۰۶ء کے وسط میں حملوں کے خلاف بڑے پیمانے پردوبارہ شروع ہونے والی فوجی کاروائی کے دوران بھی مشرقی خطے کے مسلمانوں کوچکی کے دوپاٹوں کے درمیان پیس کررکھ دیاگیا۔درجنوں مسلمان ماردیئے گئے اورہزاروں بے گھر ہوئے،اس کے باوجودسری لنکاکے مسلمانوں نے سیاسی مقام حاصل کرنے کیلئے کبھی مسلح بغاوت کاسہارانہیں لیابلکہ بعض نے توسلامتی کے دستوں میں رہتے ہوئے کام کیا۔مسلمانوں کی ہمیشہ یہی خواہش رہی کہ باہمی اختلافات کو پرامن بات چیت اورسیاسی عمل کے ذریعے سے رفع کیاجائے لیکن اس بات کی گارنٹی دینے والاکوئی نہیں تھاکہ ان کے ساتھ ہمیشہ عدم تشددکابرتاؤکیاجائے گاجبکہ مشرقی خطے میں مسلمان نوجوانوں میں شدیدغم وغصہ پایاجاتاتھا۔بعض علاقوں میں مسلم مسلح گروپ ضرورموجودہیں لیکن وہ اتنی تعدادمیں نہیں ہیں جس سے ملکی سلامتی کوکوئی بڑاخطرہ درپیش ہوتاتاہم بعض حلقوں کی جانب سے اپنے سیاسی مفادات کے حصول کے تحت نام نہاد اسلامی دہشتگردی کے ابھرنے کی تشویش ہمیشہ ظاہرکی گئی۔

سری لنکاکے مسلمانوں پرصرف تامل ٹائیگرزکی طرف سے ہی مظالم نہیں ڈھائے گئے بلکہ سنہالی برادری نے بھی وہاں کے مسلمانوں کونشانہ بنایا۔۱۹۱۵ء کانسلی تصادم سری لنکاکی تاریخ کاسب سے بڑافسادتھاجب اس ملک کے بودھ مذہبی رہنماء اناگاریگادھرم پالانے مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیزتقریریں شروع کردیں۔مسلمانوں کو’’اجنبی وغیرملکی ‘‘ کے خطابات سے نوازاگیاحتیٰ کہ ایسازہراگلاگیاکہ مسلمانوں کوعرب پہنچادیناچاہئے۔دھرم پالاکی موت کوخاصاعرصہ گزرچکالیکن آج بھی سنہالی برادی اورمسلمانوں میں کوئی کشیدگی پیداہوتی ہے توسری لنکامیں اس کی آنچ محسوس کی جاتی ہے۔سنہالیوں اورمسلمانوں کے درمیان تصادم کی ایک بڑی وجہ تجارت اورکاروبارپرمسلمانوں کاغلبہ بھی ہے ۔ زیادہ ترفسادات کی وجہ اقتصادیات ہی رہی ہے گویااگرمسلمان محنت کرکے رزق حلال کمانے میں بہتر کارکردگی کامظاہرہ کریں توقابل گردن زنی قرارپاتے ہیں۔

۱۹۸۰ء کی دہائی سے لیکرمئی ۲۰۰۹ء کے درمیان وقفے وقفے سے جنگ بندی توہوئی لیکن خانہ جنگی پورے ملک میں پھیل چکی تھی اوراکثرایساہواہے کہ حکومت اورایل ٹی ٹی ای کی باہمی لڑائی میں نہتے شہری مارے گئے۔ملک کے شمالی اورمشرقی خطوں میں ہزاروں تاملوں ،جن میں مسلمان اورہندودونوں شامل تھے ،ان کی گمشدگی کے پس پشت سری لنکاکی فوج ہی ذمہ دارتھی۔خانہ جنگی کے آخری سال میں ہونے والے جنگی جرائم کے دوران میں قریباً۴۰ہزارتامل شہری ہلاک کردیئے گئے ۔جنوبی ایشیاکی خطرناک دہشتگردتنظیم ایل ٹی ٹی ای کااب سری لنکامیں خاتمہ ہوچکاہے جبکہ اس کے ہاتھوں سابق وزیراعظم بھار ت راجیوگاندھی کی جان بھی گئی۔اس دہشتگردتنظیم نے ہزاروں تامل مسلمانوں اورسنہالیوں کابے رحمی سے قتل کیا،خودکش بمباری کروائی اورمعصوم شہریوں کونشانہ بنایابالخصوص کولمبواورسری لنکاکے شمالی اورمشرقی علاقوں میں تامل بولنے والے مسلمانوں کے گھروں پرقہربن کرٹوٹتے رہے ۔ایل ٹی ٹی ای کے ذریعے سے چندبڑے دہشتگردانہ واقعات آج بھی ذہنوں پرثبت ہیں۔

آج صورتحال یہ ہے کہ سری لنکاکے وزیرقانون وانصاف رؤف حکیم نے اپنی حکومت پرتنقیدکرتے ہوئے کہا:’’حکومت اورقانون نافذکرنے والے ادارے سری لنکامیں مسلمانوں کو تحفظ فراہم نہیں کرسکے جبکہ بودھوں کی جانب سے شروع کی گئی مسلم مخالف مہم کوبھی نہیں روکاگیا۔میں نے پہلے بھی حکام کومطلع کردیاتھاکہ مسلم بستیوں کی طرف بودھوں کی جانب سے نکالی جانے والی ریلیوں اورمظاہروں کوروکاجائے مگرکسی نے کان نہیں دھرا۔حکومت کی نااہلی پرمیں بے حدنادم ہوں کیونکہ وہ معصوم لوگوں کوتحفظ فراہم کرنے میں بری طرح ناکام ثابت ہوئی ہے‘‘۔مسلمانوں کی طرف سے آج بھی بے حدتحمل اورضبط کامظاہرہ کیاجارہاہے۔سری لنکامیں مسلمانوں کی مذہبی تنظیم’’سری لنکن توحید جماعت ‘‘ کے ترجمان نے بتایاہے:مسلمانوں نے انتہاپسندبودھوں کے حملوں کی خلاف دی گئی احتجاج کی کال واپس لے لی ہے کیونکہ پولیس نے تنبیہ کی تھی کہ احتجاج کے نتیجے میں کشیدگی بڑھے گی۔مجوزہ احتجاج انتہاپسندبودھوں کی مسلمانوں کی املاک پرحملوں پرکیاجارہاتھامگرایک سنیئرپولیس افسرسے مسلمان نمائندہ وفدکی ملاقات کے بعداحتجاج کی کال واپس لے لی ۔افسوس! کہ مسلم امہ اپنے ہی بھائیوں کی بیچارگی کاکوئی نوٹس ہی نہیں لے رہی!!
Sami Ullah Malik
About the Author: Sami Ullah Malik Read More Articles by Sami Ullah Malik: 531 Articles with 391050 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.