اسرائیلی بربریت پر عالم اسلام کی خاموشی؟

ایک دفعہ شیر اور بکری ایک ہی کشتی میں سوار ہو کر دریا پار کر رہے تھے، راستے میں بکری کو دیکھ کر شیر کے منہ میں پانی آرہا تھا اسے کوئی بہانہ نہیں مل رہا تھا کہ وہ اسے دبوچ لے اس کا شکار کرے بہت دیر سوچنے کے بعد اسے ایک بات سوجھی اس نے بکری کو مخاطب کر کے کہا کہ آپ کشتی میں دھول اڑا رہی ہو جس سے میری آنکھیں خراب ہو رہی ہیں ،بکری یہ بات سن کر ہنسی اور بولی جناب بادشاہ سلامت ہم تو کشتی میں سوار ہیں اور کشتی پانی میں ہے ،پانی میں بلا دھول کہاں سے آئی،اس بات پر شیر نے اسے کہا تمہاری یہ ہمت کہ تم میرے اگے بحث لگاو ،میری بات کا جواب دو،شیر نے بکری کو دبوچ لیا،جنگل کا قانون تو بہت مشہور ہے مگر یہ سچ ہے کہ دنیا میں بھی شیر اور بکری والی کہانی ازل سے چلی آرہی ہے اور اس وقت تک چلتی رہے گی جب تک اس دنیا میں مفاد پرست،چیلے، غلام، نوکر،مزرعے ،طاقت رکھتے ہوئے بھی شیر کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات نہیں کرتے،یہ کوئی ایک بار کی بات نہیں اور نہ ہی یہ کسی سے ڈھکی چھپی بات ہے ، تاریخ ایسے ظلم و ستم سے بھری پڑی ہے مگر کچھ حقائق جو ہماری آنکھوں کے سامنے ہوتے ہیں کئی بار ہو چکے ہیں ،جیسے 9/11کا بہانہ بنا کر امریکہ نے دنیا بھر کے مسلمانوں ،پر اور مسلم ممالک پر ظلم ڈھائے،اس نے نہ صرف خود ظلم کیا بلکہ اپنے ساتھ ہندوستان اور اسرائیل کو بھی تیار کیا ان کی پشت پنائی کر رہا ہے اور یہ دونوں بھی اسی کے نقشے قدم پر چلتے ہوئے ظلم و بربریت کی تاریخ رقم کر رہے ہیں،اسرائیل نے اسی روایت کو ایک بارپھر سے زندہ کرتے ہوئے، تین یہودیوں کے قتل کا ڈرامہ اسرائیل نے خود رچا کر ایک مرتبہ پھر اسرائیل غزہ میں فلسطینی مسلمانوں پر حملہ آورہوا ہے ،اس نے کئی مقامات پر بموں کا سلسلہ شروع کیا ہوا ہے اسے معلوم ہے کہ فلسطینی مسلمان نہتے ہیں،ان کے پاس جوابی کاروائی کے لئے اسلحہ نہیں ہے ،اگر ان کے پاس بھی طاقت ہوتی تو یہ بھی اینٹ کا جواب پتھر سے دیتے،ایک بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ مشرق وسطیٰ میں اسرائیل کا قیام اتنی بڑی غلطی تھی جس کا خمیازہ دنیا نہ جانے کتنی صدیاں بھگتے گی کیوں کہ فلسطینیو ں کو بے گھر کر کے یورپ سے یہودی لا کر برطانیہ اور امریکہ نے بسانے تھے،یہ کہاں کا انصاف عقلمندی تھی لیکن مغربی ممالک سے خیر کی توقع رکھنا مشکل ہے برطانیہ اور امریکہ آج بھی اپنی غلطیاں تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں،بلکہ وہ نہ صرف اسرائیل کی ننگی جارحیت پرحمایت کر رہے ہیں بلکہ اس کی مالی اور فوجی مدد بھی کر رہے ہیں،گزشتہ چھ عشروں کے دوران وہ کونسا بہمانہ ظلم ہے ،وہ کون سی جابرانہ درند گی ہے ،وہ کونسی بربریت و چنگیزی ہے جو ان بے گناہ ،معصوم فلسطینیوں پر روانہ رکھی گئی ہو،دوسری جانب ہندو بنیا مظلوم اور نہتے کشمیریوں پر آئے روز قتل و گارتگری کا بازار گرم رکھے ہوئے ہے مگر دنیا کے منصف اور اسلامتی کے دعویدارخاموش تماشائی بنے ان مظلوم کشمیریوں اور فلسطینیوں پر ظلم ہوتا دیکھ رہے ہیں،یہاں سوال یہ نہیں پیدا ہوتا کہ ظلم کون اور کیوں کر رہا ہے بلکہ سوال تو عالم اسلام کی خاموشی پر ہے ،سوال تو پاکستان اور کشمیر کی خاموشی پر ہے ،سوال تو ان اسلام اور امن کے دعویداوں کی بے حسی پر ہے کہ وہ کچھ بھی نہیں بول رہے اور اگر کوئی ایک آدھ رویتی بیان آتا بھی ہے تو وہ بھی اندر خانے پہلے ان سے معافی مانگنے کے بعد۔۔انسان ہو،معاشرے ہوں، یا حکومتیں ان میں لالچیں بھی ہوتیں ہیں،مصلحتیں بھی، ان میں کچھ سفارتی تعلق بھی ہوتا ہے کچھ اخلاقی بھی مگر دنیا کی ہسٹری اس بات کی گواہ ہے کہ جتنی بے حسی کا مظاہرہ موجودہ دور کے مسلم ممالک کر رہے ہیں اس کی مثال نہیں ملتی۔امریکہ ہو یا اسرائیل، اور اب تو بھارت بھی اس قابل ہو گیا ہے کہ وہ ان کہ منہ پر تھپڑ پارتا رہے اور یہ بولتے رہے ایک اور مار کے دیکھ ۔ اس کو جواب نہیں دے گے۔یہ اصل میں ڈرپوکی نہیں اور نہ ہی کوئی ایسا خطرہ ہے جس سے یہ کہا جائے کہ امریکہ ڈھائنا سورس کی طرح ان کو زندہ نگل لے گا،اصل بات یہ ہے کہ ان کے ذاتی مفاد ہیں ان ممالک سے اس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے امریکہ کی اشیرباد پر اودھر اسرائیل ،اور ادھر انڈیا مسلمانوں پر اپنی چنگیزیت سے ظلم کے پہاڑ توڑ رہا ہے مگر انسانیت خاموش تماشائی کا کردار ادا کرتے ہوئے کشتی میں دھول اڑانے کا بے بنیاد پروپگنڈہ کر کے ان ظالموں کا ساتھ دے رہی ہے،ترقی شعور، حالات، سفارتی تعلقات،اقوام متحدہ کا قیام، عالمی برادری کے مل جول،دنیا ایک گوبل ولیج کے روپ میں،اس طرح کے تمام تر قدامات کو دیکھ کر یہ کہنا بالکل غلط نہ ہوگا کہ یہ ظلم پہلی اور دوسری جنگ عظیم سے بھی زیادہ بیانک ہیں،کیونکہ پرانے دور کی ظلمت میں انسان کو اتنا شعور نہ تھا ،اتنے تعلقات نہ تھے،اور چھوٹی سی بات پر طاقت ور کمزور پر چڑھ دوڑتا تھا،مگر آج تو ایسا نہیں ہونا چاہیے،لیکن سچ یہ ہے کہ یہ سب ترقی اور عالمی تعلقات صرف امریکہ کے مفاد میں ہیں،اور خاص کر کے اسلامی ممالک تو بس یورپ کی چاپلوسی اورغلامی کرنے کے لئے پیدا ہوئے، فلسطین اور کشمیر پر تمام تر انسانی حقوق کی خلاف ورزی، اقوام متحدہ کی قراردادوں کی خلاف ورزی کے باوجود تمام اسلامی دنیا کے صرف رسمی بیانات ہی آتے ہیں،کسی نے بھی ان ظالم ممالک سے اپنے تعلقات اس بنیاد پر ختم نہیں کئے کہ فلسطین اور کشمیر پر ظلم بند کیا جائے،جب کہ امریکہ اور بھارت ہوا کا روخ تبدیل ہونے پر بھی اپنے سفارت خانے بند کرنے اور اپنے تعلقات منقطع کرنے کی دھمکی دیدتا ہے اور ہمارے بہادر مفاد پرست حکمران اس کے اگے سر تسلیم خم کر دیتے ہیں،جس قوم کے لیڈر بہادر نہیں ہوتے ،جس قوم کے سیاست دان مفاد پرست ہوتے ہیں،اس ملک کی آزادی برائے نام ہوتی ہے،اور اس کی عوام کبھی باعزت زندگی نہیں گزار سکتی،ہماری ذلت کی وجہ ہماری غربت نہیں بلکہ ہمارے حکمرانوں کا غلامانہ طرز حکومت ہے۔پاکستان کو فلسطین پر اسرائیلی جاریت کا جواب اخبارات میں نہیں بلکہ عملی سفارتی بائی کاٹ کر کے دینا چاہیے۔
iqbal janjua
About the Author: iqbal janjua Read More Articles by iqbal janjua: 72 Articles with 74997 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.