انجامِ گلستاں کیا ہو گا
(Prof Riffat Mazhar, Lahore)
پروفیسر مظہر۔۔۔۔۔سرگوشیاں
رحمتوں اور برکتوں کے ماہِ مبارک آہستہ آہستہ اپنے اختتام کی طرف گامزن
ہے۔جن کے نصیب تابناک وہ جھولیاں بھر بھر کے رَب کی رحمتیں سمیٹ رہے ہیں
لیکن کچھ ایسے کم نصیب بھی جنہیں رحمت نہیں ، دولت کی حرص یا جاہ کی۔پوری
دنیا میں مسلمان ماہِ صیام کی آمد کے ساتھ ہی قیمتیں انتہائی کم کر دیتے
ہیں لیکن پاکستان میں مہنگائی ماہِ صیام کے لوازمات میں سے ہے اوراب کی بار
تو بے حد و حساب۔حکمران مقدور بھر مہنگائی کے عفریت سے نبرد آزما لیکن بے
بَس ۔خادمِ اعلیٰ اپنی بھرپور توانائیاں صرف کر رہے ہیں ، نیت میں فتور بھی
نہیں اِس کے باوجود بھی زور آوروں کے جبڑوں سے ٹپکتے ’’عوامی لہو‘‘ کی
روانی میں شمہ بھر فرق نہیں ۔مجبوروں کے دستِ طلب پہ اُگتی محرومیاں دیکھ
کر بھی یہ فراعینِ وقت قارونِ دوراں بننے کی تگ و دَو میں مگن ۔اُدھرمہنگائی
کا دیو اور اِدھر اسی مقدس مہینے میں حکمرانوں کی جانب سے لوڈ شیڈنگ کا
تحفہ۔آگ برساتے سورج اور شدید حبس سے جان لبوں تک آ پہنچی ۔حکمرانوں نے لوڈ
شیڈنگ کے خاتمے کے حسیں خواب تو دکھائے لیکن تعبیراُلٹ۔سحری اور افطاری کے
اوقات میں بھی لوڈ شیڈنگ کا عذاب ۔شنید ہے کہ شارٹ فال سات ہزار میگا واٹ
تک جا پہنچا ہے جو بذاتِ خودایک ریکارڈ ہے ۔محترم وزیرِ اعظم نے شدید ترین
لوڈ شیڈنگ پر اظہارِ برہمی کیا تو وزیرِ پانی و بجلی خواجہ آصف صاحب نے قوم
سے معافی مانگتے ہوئے کہہ دیا کہ لوڈ شیڈنگ پر قابو پانا اُن کے بَس میں
نہیں ، قوم بارانِ رحمت کی دعا کرے جس سے باقی روزے اور عید اچھی گزر جائے
گی۔خواجہ صاحب کا حکم سَر آنکھوں پر لیکن ہماری تو دعائیں بھی مستجاب نہیں
ہوتیں البتہ یہ ضرور کہ ہمیں مر مر کے جینے کی کچھ عادت سی ہو چلی ہے ۔سچ
کہا ہے عوامی شاعر طاہر حنفی نے
کچھ ایسے دھوپ سے مانوس ہو گئے بدن
گھنے درختوں سے بچنے لگے ہیں ہم لوگو
گرمی سے جان لبوں پر اور اِدھر جاہ و حشمت کے پجاری لانگ مارچ اور انقلاب
کی تیاریوں میں مگن۔نواز لیگ نے بھی کوئی ایسا کارنامہ سر انجام نہیں دیا
جس کی تحسین کی جا سکے البتہ حکمرانوں کی تگ و دَو سے اُمید کی جوکرنیں
پھوٹتی دکھائی دینے لگی تھیں اور صحنِ چمن کے بے بَرگ و ثمر درختوں پر
پھوٹتی کونپلوں کے جو آثار ہویدا ہونے لگے تھے وہ کچھ مہربانوں کو پسند
نہیں آئے کیونکہ اگر بوستانِ وطن میں بہار آ گئی تو اُن کا سیاسی مستقبل
مخدوش ہو جائے گا۔شاید اسی لیے 14 اگست کے لانگ مارچ کا اعلان کر دیا گیا
اور ایسا کرتے ہوئے یہ تک نہیں سوچا گیا کہ قوم حالتِ جنگ میں ہے ، افواجِ
پاکستان دہشت گردی کے خلاف جنگ میں قربانیوں کی لازوال داستانیں رقم کر رہی
ہے اور قومی و ملی یکجہتی کی جتنی آج ضرورت ہے ، پہلے کبھی نہ تھی ۔ تاریخِ
عالم تو یہی بتلاتی ہے کہ جب ملکی سلامتی کا مرحلہ درپیش ہو تو پوری قوم
سیسہ پلائی دیوار بن جاتی ہے لیکن ہمارے رہنماؤں کو شاید جلدی ہی بہت ہے ۔
مولانا طاہر القادری کا تو اِس جمہوری نظام میں سرے سے کوئی حصہ ہی نہیں
اِس لیے اُن کا ذکر کیا کرنا لیکن محترم عمران خاں ، جن کی حب الوطنی کسی
بھی شک و شبے سے بالا تر ہے ، وہ بھی آئی ڈی پیز کو بے یار و مددگار چھوڑ
کر 14 اگست کی فنڈ ریزنگ کے لیے لندن جا پہنچے ۔اسے خاں صاحب کی ضد ،
انانیت یا نرگسیت ، کچھ بھی کہہ لیجیئے لیکن یہ بہرحال تسلیم کرنا پڑے گا
کہ وہ انتہائے خود پسندی کا شکار ہیں ۔ اگر ایسا نہیں تو پھر کیا وجہ ہے کہ
اُن کی نگاہوں میں کوئی جچتا ہی نہیں ۔ اُنہوں نے لندن میں پی ٹی آئی کے 14
اگست کے مارچ کے لیے ہونے والی فنڈ ریزنگ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا
’’ نواز لیگ ، پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم ، تینوں ہی مافیا ہیں ۔انہوں نے
11 مئی کے الیکشن میں ہر سطح پر دھاندلی کی ۔تینوں جماعتیں آزادانہ اور
منصفانہ انتخابات نہیں چاہتیں ۔ہمارے مارچ سے پاکستان کو حقیقی آزادی ملے
گی ۔اِس دن پاکستان حقیقی معنوں میں اپنی منزل پر پہنچے گا ‘‘۔یوں محسوس
ہوتا ہے کہ جیسے کپتان صاحب کو بھی مولانا طاہرالقادری کی طرح سے
’’بشارتیں‘‘ہونے لگی ہیں اور انہی بشارتوں کے زیرِ اثر وہ اپنے آپ کو
ایوانِ وزیرِ اعظم کا ’’باسی‘‘ سمجھ بیٹھے لیکن جب وہ عالمِ خواب سے عالمِ
آب و گِل میں واپس آئے تو پتہ چلا کہ ’’خواب تھا جو کچھ کہ دیکھا ، جو سنا
فسانہ تھا ‘‘۔چاہیے تو یہ تھا کہ خاں صاحب یہ سوچتے کہ آخر اُن کی پارٹی کو
کون سے ایسے سرخاب کے پَر لگے تھے جو قوم مبتلائے عشقِ تحریکِ انصاف ہو
جاتی ۔نواز لیگ ، پیپلز پارٹی اور آمر پرویز مشرف کی جماعت قاف لیگ سے نکلے
یا نکالے گئے لوگ ہی تو تھے جنہیں سینے سے لگا کر خاں صاحب ’’نیا پاکستان‘‘
بنانے چلے تھے۔اگر قوم نے ’’آزمودہ را آزمودن جہل است‘‘ کے مصداق پہلی
بارایسے لوگوں کو رد کر دیا تو کیا برا کیا ؟۔ خاں صاحب جس انداز سے تحریک
لے کر اُٹھے تھے اگر اُس پہ قائم رہتے تو تحقیق کہ وہ بھی بھٹو مرحوم کی
طرح بڑے بڑے بُرج الٹ دیتے لیکن اُنہوں نے تو ابتدا ہی میں قوم پر یہ عیاں
کر دیا کہ’’ہیں کواکب کچھ،نظر آتے ہیں کچھ‘‘۔ہم سمجھتے ہیں کہ کارزارِ
سیاست کے نَو وارد اور نَو آموز عمران خاں صاحب کی نیت تو نیک تھی اور کچھ
نہ کچھ کر گزرنے کی امنگ بھی لیکن وہ محض اِس لیے مطلوبہ نتائج حاصل نہ کر
سکے کہ اُنہوں نے سیاست کی اونچی نیچی گھاٹیاں عبور کیں اورنہ سنگلاخ
زمینوں پہ چل کے پاؤں فگار کیے ۔اُنہیں یاد رکھنا ہو گا کہ محض خواب دیکھنے
اور اندازے لگانے سے گوہرِ مقصود ہاتھ نہیں آتا بلکہ
مشامِ تیز سے ملتا ہے صحرا میں نشاں اس کا
ظن و تخمین سے ہاتھ آتا نہیں آہوئے تاتاری
اگر خاں صاحب’’کھیڈا ں گے ناں کھیڈن دیاں گے‘‘پر عمل پیرا ہیں تو اُن کی یہ
خواہش بھی ادھوری ہی رہے گی کیونکہ صرف ایک ہی طاقت جمہوریت کا تختہ اُلٹ
سکتی ہے جو فوج ہے اور دہشت گردی میں بُری طرح اُلجھی ہوئی فوج اِس وقت
طالع آزمائی کے موڈ میں ہر گز نہیں کیونکہ کسی مارشل لاء کی سوچ سے پہلے
فوج کے سامنے یہ ضرور ہو گا کہ’’پنبہ کُجا کجا نہم‘‘۔عسکری قیادت کو سوچنا
ہو گا کہ کیا فوج اکیلے دہشت گردی،لوڈشیڈنگ،مہنگائی،بھتہ خوری اور ٹارگٹ
کلنگ پر قابو پا سکتی ہے؟۔کیا خونم خون کراچی کو پھر سے روشنیوں کا شہر بنا
سکتی ہے؟۔کیا بلوچستان کو قومی دھارے میں شامل کر سکتی ہے؟۔کیا پورے ملک
میں پھیلے دہشت گردوں کا قلع قمع کر سکتی ہے؟۔کیا اقتصادی پابندیوں کی صورت
میں ملک کو سہارا دے سکتی ہے؟۔اگر جواب نفی میں ہے تو پھر سلگتا ہوا سوال
یہ کہ کیا فوج بھوکوں مرتی مشتعل قوم کو سنبھال سکتی ہے؟۔اگر نہیں تو پھر
مارشل لاء کا موہوم سا بھی خطرہ نہیں۔ایسے میں خاں صاحب کا لانگ مارچ چھوٹی
موٹی افراتفری پھیلانے کے سوا کچھ بھی نہیں۔ |
|