اب نوبت بحث مباحثہ تک آن پہنچی
ہے اکثرلوگ کہتے ہیں عیدکے بعد دما دم مست قلندرہوگا کچھ کہتے ہیں نہیں
ہوگا جب سے عمران خان نے لانگ مارچ کااعلان کیاہے چائے خانے آبادہوگئے ہیں
اوپرسے شیخ الاسلام کے انقلاب نے حکومت مخالف قوتوں کے غبارے میں ہوا بھردی
ہے لوگ شد مد سے لانگ مارچ اور انقلاب کے حق اور مخالفت میں دلیلیں دیتے
نظر آتے ہیں کئی اس دوران جامے سے باہربھی ہو جاتے ہیں ماہ ِ صیام نہ ہوتا
تو اب تلک کئی افرادمیں سرپھٹول ہو چکی ہوتی۔اکثریت کا خیال ہے کہ میاں
نواز شریف حکومت کو لانگ مارچ سے اتنا خطرہ نہیں جتنا وزیروں مشیروں کو
انقلاب سے ڈر لگ رہاہے یہی وجہ ہے کہ ن لیگ کے ارکان ِ اسمبلی سے لے کر
وزیرِ اعظم تک ہرکوئی لتھ لے کر بابا انقلاب کے پیچھے پڑا ہوا ہے کوئی اس
قدر حواس پر چھا جائے تو یقینی امر ہے بدحواسی میں کئی حماقتیں سرزد ہو
سکتی ہیں جبکہ حکومتوں کیلئے ایک حماقت ہی جان لیوا ثابت ہو سکتی ہے۔
پیشگوئی یہ بھی ہے کہ حکومت عمران خان کو فری ہینڈ دی سکتی ہے لیکن انقلاب
کے راستے میں روڑے ضرور اٹکائے جائیں گے۔پرویزرشیدکا کہنا ہے لانگ مارچ ون
ڈے ایونٹ ہے اس لئے گھبرانے کی کوئی ضرورت نہیں گویا لانگ مارچ نہ ہوا ون
ڈے میچ ہوگیا جس کیلئے پوری قوم14اگست کی منتظرہے ویسے آپس کی بات ہے آپ نے
سنی ہو یا نہیں مجھے کل کوئی بتارہا تھا اب تو اس بات پر بھی کروڑوں، اربوں
کا جوا لگ رہاہے کہ لانگ مارچ ہوگا بھی یا نہیں ہوگا حالات جو بھی ہوں
معاملات جتنے بھی خراب بکئے ہرصورتِ حال میں مال کمانے کی صورت نکال لیتے
ہیں’’ یہ ہے زندہ قوموں کی علامت۔۔۔ ‘‘ لانگ مارچ مؤخر کرنے کیلئے اب تو
حکومت نے عمران خان کو باقاعدہ مذاکرات کی دعوت دیدی ہے جس کیلئے کچھ لو
کچھ دو کا فارمولا طے کرنے کی باتیں ہورہی ہیں عمران خان کے کچھ ساتھیوں نے
مشورہ دیاہے وہ کسی جھانسے میں نہ آئیں کچھ کہہ رہے ہیں حکومتی آفرقبول
کرلینی چاہیے کہ اس طرح تحریک ِ انصاف کے کچھ مطالبات مانے جا سکتے ہیں اس
وقت PTIپارلیمنٹ میں تیسری بڑی پارٹی ہے جس کی ایک صوبے میں حکومت بھی ہے
اس اعتبارسے عمران خان حکومت سے بہت کچھ منوانے کی پوزیشن میں ہیں اگر
پیپلزپارٹی نے صحیح معانوں میں اپوزیشن کا رول ادا کرنے کا فیصلہ کرلیا یا
اپنا وزن حکومت مخالف قوتوں کے پلڑے میں ڈال دیا تو سیاسی طاقت کا توازن
بگڑ جائے گا اس کا احساس میاں نواز شریف کو بھی ہے کہ حکومت کو ٹف ٹائم
ملنے والی موجودہ صورت ِ حال زیادہ دیر برقراررہی تو یقینا مشکلات میں
اضافہ ہوگا اورمذٹرم الیکشن کی طرف حالات جانے سے کوئی نہیں روک سکتا اس
نازک پوزیشن کے باعث میاں نوازشریف کے ساتھ ساتھ آصف علی زرداری،مولانا فضل
الرحمن اور ایم کیو ایم کبھی نہیں چاہیں گے کہ سیاست کا توازن عمران خان کے
حق میں ہو کسی نہ کسی اندازمیں یہ سب جماعتیں PTIکی حریف ہیں اور آئندہ بھی
ان کے درمیان انتخابی معرکہ آرائی کا قوی امکان ہے عمران خان کا راستہ
روکنے کیلئے ان سیاسی قوتوں کا اعلانیہ، غیر اعلانیہ اتحاد ہوجائے گا۔اس
وقت میاں نواز شریف’’ یک نہ شد دو شد‘‘کے محاورے کی شکل میں عمران خان اور
شیخ الاسلام طاہرالقادری سے بیک وقت نبرد آزماہیں ایک پارلیمنٹ میں ہیں
دوسرے پارلیمنٹ سے باہر لیکن دونوں خطرناک ہیں عمران خان لانگ مارچ کی
کامیابی کیلئے سرتوڑکوشش کررہے ہیں پاکستان میں اب تلک صرف ایک لانگ مارچ
کامیاب ہوا ہے جو معزول ججزکی بحالی کیلئے کیا گیا تھا عمران خان کہتے ہیں
میں جمہوریت بچانے کیلئے لانگ مارچ کررہاہوں جبکہ شیخ الاسلام پاکستان کو
بچانے کیلئے انقلاب لانا چاہتے ہیں ۔۔۔پاکستان میں پر امن جمہوری جدوجہد
ہرشخص کا حق ہے اور اس کیلئے اسے آزادی پاکستان کا آئین دیتاہے۔ نہ جانے
کیوں حکومت سے وابستہ ہر شخص نے طاہرالقادری پر تنقید کرنا اپنے اوپرفرض
قراردیدیاہے اگر طاہرالقادری یہ کہتے ہیں کہ ایسی جمہوریت۔۔ ایسا نظام ۔۔
ایسی سیاست سے جان چھڑائی جائے جس نے غربت کو عوام کیلئے بد نصیبی بنا
دیاہے تو اس میں برائی کیاہے؟ اب تک صرف طاہرالقادری کی ذات کوتنقیدکا
نشانہ بنایا گیا ہے حیرت اس بات پرہے کہ ان کی باتوں کا آج تک کسی نے کوئی
جواب نہیں دیا ہر کوئی خاموش ہے۔۔۔ کیوں؟۔۔۔ کتنی عجیب بات ہے کہ پاکستان
کے سب کے سب حکمران اور موجودہ سیاستدانوں میں بیشتر فوجی اسٹیلشمنٹ کی
پیداوار ہیں جن کی خواہشات کا نام جمہوریت ہے۔محرومیاں ہی محرومیاں غربیوں
کا مقدر بنی ہوئیہیں۔سرکاری نوکریاں اور کاروبار کے وسائل پر عام آدمی کا
کوئی استحقاق نہیں ، پڑھے لکھے نوجوان بیروزگارپھرتے ہیں اور نااہل لوگ آگے
۔۔۔ بتائیں جناب یہ کون سی جمہوریت ہے ؟ کیسے جمہوری تقاضے؟دل نہیں مانتا ،ذہن
تسلیم نہیں کرتا حقیقت یہی ہے اس جمہوریت میں عام آدمی کیلئے کچھ بھی نہیں۔۔
لگتاہے موجودہ قومی رہنماؤں میں سے کوئی بھی دل سے موجودہ سسٹم کو تبدیل
کرنا نہیں چاہتا سب کی خواہش ہے یہ موج میلہ ایسے ہی ہوتا رہے جب تک
جمہوریت کے ثمرات عوام تک نہیں پہنچیں گے ایسی جمہوریت کا کیا فائدہ ؟۔۔
پھر ملک میں جمہوریت ہو یا آمریت ۔۔عام آدمی کو کیا فرق پڑتاہے۔ اس میں
کوئی شک وشبہ کی گنجائش نہیں جب تک موجود ہ استحصالی نظام موجود ہے بہتری
کی کوئی امید نہیں اورشیخ الاسلام طاہرالقادری کے پاس ایک نظریہ ہے وہ
انتخابی اصلاحات کی بات کرتے ہیں عوام کی بات کرتے ہیں آئین اور قانون کی
بات کرتے ہیں یہ نظریہ کسی اور کے پاس نہیں ہے اسی لئے انہوں نے عوام کی
نبض پرہاتھ رکھ دیاہے اب کوئی مانے یا نہ مانے اس کی مرضی ۔۔۔آنے والا وقت
ملک میں کئی نوعیت کی تبدیلیاں لا سکتاہے ایک بات طے ہے موجودہ استحصالی
نظام زیادہ دیرتک نہیں چل سکتا عمران خان تو موروثی سیاست کے خلاف ہیں اور
شیخ الاسلام موجودہ سیاسی نظام کے ہی خلاف ۔۔۔ دونوں میں اتحادممکن ہے
دونوں کے کئی نکات ایک جیسے ہیں لیکن سوچ مختلف اورسوچنے کا انداز جدا شاید
اسی لئے ان کے درمیان پرسنلٹی کلیش ہو سکتاہے۔شنیدہے کہ طاہرالقادری حکومت
کے خلاف اپنی حکمت ِ عملی تیارکرنے کیلئے بڑے سرگرم ہیں اور اس سلسلہ میں
برابر مشاورت کررہے ہیں اور عمران خان کے ساتھ مل کر کام کرنے کیلئے تیار
بھی۔۔۔شاید حکومت گرانا عمران خان کے ایجنڈے میں شامل نہیں ہے جبکہ
طاہرالقادری موجودہ حکومت، موجودہ انتخابی سسٹم اورموجودہ ارکان ِ اسمبلی
کے خلاف اپنے انقلاب کی تاریخ کااعلان کرنے والے ہیں یہ کوئی آسان کام نہیں
ہے تاریخ بتاتی ہے جن ملکوں یا علاقوں میں ہریالی زیادہ ہوتی ہے وہاں کے
لوگ تن آسان بھی اتنے ہی ہوجاتے ہیں سبزی، اناج،دودھ، گوشت اورپانی کی
افراط،آسائشوں کی فراوانی اور ایک خاص طبقہ میں خوشحالی کے باوجود ان
علاقوں میں کبھی انقلاب نہیں آیا اور شاید کبھی نہیں آئے گا مسائل کے مارے
عام لوگ گھٹ گھٹ کر جیتے ہیں، جبر اور استحصال سے تنگ،معاشرتی ظلم اور
معاشی قتل کے باوجود بھی اس کے خلاف آواز بلند کرنے کا کوئی رواج نہیں
پنجاب اور سندھ اور خیبر پی کے ۔۔۔کے زرخیز علاقوں میں آج تک کوئی بیرونی
حملہ آوروں کے مقابل نہیں آیا اگر ایساہوا بھی ہے تو اسے آٹے میں نمک قرارد
دیا جا سکتاہے پھر بھی طاہرالقادری انقلاب لانے کیلئے پر جوش ہیں تو ان کی
کامیابی کو معجزہ ہی قراردیا جا سکتاہے ۔۔ملک میں ایک طویل عرصہ سے دو
سیاسی پارٹیوں کی حکومت ہے ان دونوں نے عوام کیلئے کوئی قابل ِ قدر کام
نہیں کیا عوام کی وہی محرومیاں وہی مسائل ہیں یہ سیاسی جماعتیں کم پرائیویٹ
لمیٹڈ کمپنیاں زیادہ ہیں ان کا اپنے کارکنوں سے بھی رویہ اچھا نہیں کارکن
تو کیا ان جماعتوں کے ارکان ِ اسمبلی بھی اپنے رہنماؤں سے ملاقات نہیں کر
سکتے کوئی ان کے خلاف آواز بلند نہیں کرسکتا پھر بھی لوگ ان پارٹیوں کو
چھوڑنے کیلئے تیار نہیں شاید یہ مسلک کا درجہ پا چکی ہیں اسی وجہ سے
جمہوریت بادشاہت میں بدل گئی ہے۔دو ر دراز کے علاقوں میں لوگ اپنے وڈیروں،
جاگیرداروں،درباروں اور بااثر شخصیات کی مرضی کے خلاف ووٹ نہیں دے سکتے اب
سوال یہ پیدا ہوتا ہے اس ماحول میں انقلاب کیونکر آئے گا اور اگر آیا بھی
تو اس کا ناک نقشہ کیا ہوگا؟یہی سوچنے کی بات ہے۔۔۔اس میں کوئی شک نہیں کہ
میاں نواز شریف کو’’ یک نہ شد دو شد‘‘والی صورت ِ حال درپیش ہے اب یہ
حکمران جماعت پرمنحصرہے وہ کیسی حکمت ِ عملی سے اپنا بچاؤ کرتی ہے آگے لانگ
مارچ ہے پیچھے انقلاب۔۔۔دما دم مست قلندر یا ٹائیں ٹائیں فش ۔۔۔پردہ اٹھنے
کی منتظرہے نگاہ۔ |