افغانستان تقسیم کے دہانے پر؟
(Sami Ullah Malik, London)
عراق میں داعش کی جانب سے
بغدادکی جانب پیش قدمی کے بعدافغانستان میں بھی مزاحمت کاروں کونہ صرف
حوصلہ ملاہے بلکہ پوری دنیاسے لوگ طالبان کی مددکیلئے پہنچناشروع ہو گئے
ہیں ۔طالبان نے مشرقی افغانستان کے ضلع پنجوائی پرحملے کے بعد صوبائی
دارالحکومت لشکرگاہ تک کئی اضلاع پرقبضہ کرلیاہے اورکابل کی طرف بھی اپنی
پوزیشن مستحکم بنارہے ہیں۔طالبان ذرائع سے معلوم ہواہے کہ امریکی
اوربرطانوی فوجیوں کے نکل جانے کے بعدہلمندپرطالبان نے قبضہ کرنے کیلئے
پنجوائی کے بعدکابل کی طرف پیش قدمی شروع کردی ہے اوروہاں پرکابل کی طرف
کئی اضلاع پرنہ صرف قبضہ کرلیاہے بلکہ ایک ہفتے کی لڑائی کے بعدامریکی فوجی
اورافغان فوجی مل کربھی قبضہ چھڑانے میں ناکام رہے ہیں۔ لڑائی کے دوران
ابھی تک سوسے زائدافغان فوجی اورپانچ امریکیوں کی ہلاکت کی اطلاعات ہیں
تاہم درجن سے زائدطالبان بھی اس معرکے میں شہیدہوچکے ہیں۔۱۸۰/افراد زخمی
ہوچکے ہیں جن میں اکژیت سرکاری اہلکاروں کی ہے۔سرکاری اہلکارپنجوائی سے
پسپائی اختیارکرچکے ہیں اورانہوں نے فوری طورپرامریکی اوربرطانوی افواج کی
مددطلب کرلی ہے تاہم برطانوی افواج نے کسی بھی قسم کی امدادسے انکارکردیاہے
جبکہ امریکی افواج نے طالبان کاقبضہ چھڑانے کیلئے افغان آرمی کے ساتھ نہ
صرف فضائی طاقت کااستعمال شروع کردیاہے شدیدبمباری اورگولہ باری کے
باوجودطالبان سے قبضہ چھرانے میں فی الحال ناکام ہوگئے ہیں۔
دوسری جانب طالبان نے کابل پربھرپورچڑھائی سے قبل ایک اقتصادی کمیشن تشکیل
دیاہے ۔اقتصادی کمیشن کیلئے انہوں نے طالبان کے معروف رہنماء
ملاابومحمدکوسربراہ مقررکیاہے۔انہوں نے افغانستان میں رمضان المبارک کے
دوران زکوٰۃ کی منصفانہ تقسیم کیلئے عوام سے کمیشن کواپنی زکوٰۃ جمع کرنے
کی ہدائت کی جس کے بعدہزاروں لوگوں نے کمیشن کے پاس اپنی زکوٰۃ جمع کروائی
اورتادمِ تحریریہ سلسلہ ابھی جاری ہے۔اس زکوٰۃ کومستحقین تک پہنچانے
اورزکوٰۃ دینے والوں کومکمل تفصیلات فراہم کرنے کا بھی فوری کام شروع
کردیاگیاہے۔ان اقدامات سے افغانستان میں عوام طالبان کی طرف دوبارہ متوجہ
ہورہے ہیں اورانہیں عوام کی بھرپورحمائت بھی حاصل ہورہی ہے۔طالبان نے کابل
پرقبضے سے قبل تعلیمی کمیشن قائم کیاتھا،اس کے بعداب اقتصادی کمیشن قائم
کیاہے اوراس کے ساتھ ہی سیکورٹی کے معاملات کیلئے بھی ایک اعلیٰ کمیشن قائم
پرغورکیاجارہاہے کہ قبضہ کے فوری بعدملک میں امن کس طرح قائم کیاجائے۔اس
حوالے سے طالبان کے مرکزی رہنماؤں کی منظوری سے افغانستان میں آپریشن
خیبرکے نام سے نیاآپریشن شروع کردیاگیاہے۔طالبان نے اس کانام مدینہ میں
خیبرکے یہودیوں کے خلاف غزوہ کے نام پررکھاہے اورہلمندمیں اس کے تحت پہلی
کاروائی کی گئی ہے۔
طالبان شوریٰ کی منظوری کے بعدافغانستان کے طول وعرض میں رمضان المبارک کے
مقدس مہینے میں گزشتہ سال بدرآپریشن کی منظوری دی گئی تھی جبکہ اس سال
ہلمند میں خیبر آپریشن کے نام سے کاروائی کی گئی ہے اورہلمندکے زیادہ
ترعلاقوں پرطالبان کاقبضہ ہوچکاہے۔انہوں نے کابل کے قرب وجوارمیں بھی اپنی
پوزیشن مستحکم کرلی ہے تاہم قیادت کی جانب سے حکم کاانتظارہے۔ادھرمشرقی
افغانستان کے زیادہ ترعلاقوں پربھی ان کاکنٹرول ہوچکاہے اور۸۰فیصدعلاقوں
پرطالبان اوردیگرمزاحمت کاروں کاقبضہ مکمل ہوچکاہے اس لئے مشرقی افغانستان
کی جانب سے کابل پردباؤ ڈالنے کیلئے ایک بڑی کاروائی کی حکمت عملی ترتیب دی
گئی ہے اورامریکی افواج کے انخلاء کے ساتھ ہی کابل پردھاوابول دیاجائے گااس
سلسلے میں طالبان کی تیاریاں مکمل ہیں اوروہ اس وقت پورے ملک کاکنٹرول
سنبھالنے کیلئے تیاربھی ہیں۔
طالبان ذرائع کے مطابق انہیں پوری دنیا سے امدادمل رہی ہے اورپوری دنیاکے
جہادیوں نے ان سے رابطہ کیاہے تاہم انہیں افرادی قوت کی ضرورت نہیں ہے
کیونکہ ان کے پاس اس وقت ضرورت سے زیادہ افرادی قوت موجودہے اورافغانستان
میں موجودجہادی امریکااوران کی کٹھ پتلیوں سے کابل کاقبضہ چھڑانے میں
کامیاب ہوجائیں گے،ہماری عالم اسلام سے بس اتنی درخواست ہے کہ رمضان
المبارک کے مہینے میں اﷲ سے ہماری نصرت کی دعامانگیں۔طالبان ذرائع نے یہ
بھی بتایاکہ وہ بیک وقت پورے افغانستان میں کاروائی کیلئے تیارہیں تاہم
فضائی قوت نہ ہونے کی وجہ سے وہ جانی نقصان سے بچنے کیلئے ہلمندمیں کاروائی
کررہے ہیں اورجب انہیں قیادت کی طرف سے حکم مل جائے گاتووہ کابل
میں،ننگرہارکے دارلحکومت جلال آباد اورلغمان کے دارلحکومت مہترلام پرقبضے
کیلئے تیارہیں اوراس کیلئے بھرپورتیاری کرلی گئی ہے۔امیرالمومنین ملاعمرکے
حکم ملنے پرفوری طور پر بڑے حملے شروع کردیئے جائیں گے۔
ادھر طالبان کے ترجمان ذبیح اﷲ مجاہد کا کہنا تھا کہ طالبان نے غیر ملکی
افواج کو تیل کی رسد کو نشانہ بنایا ہے۔ انہوں نے کابل کے مضافاتی علاقے
میں آئل ٹینکروں پر جوراکٹ حملہ کیا اس پرافغان سکیورٹی حکام نے خبر رساں
ادارے اے پی کو بتایا کہ کم از کم چار سو ٹینکروں کو آگ لگ گئی ہے۔ یہ
ٹینکر نیٹو افواج کے لیے ایندھن لے کر جا رہے تھے مگر حملے کے وقت وہ کھڑے
ہوئے تھے۔ایک اورحملے میں طالبان کے ایک خودکش بمبار نے کابل میں فضائیہ کی
ایک بس پر حملے کرکے آٹھ سکیورٹی اہلکار ہلاک کردیئے۔اس کے علاوہ گذشتہ ماہ
بھی کابل میں ہونے والے ایک خودکش حملے میں ایک اعلی سرکاری محمد معصوم
ستانکزئی کو نشانہ بنایا گیا تھا جس میں وہ بال بال بچ گئے۔ وہ اس سرکاری
گروپ کے مشیر ہیں جو طالبان کے ساتھ امن مذاکرات کا ذمہ دار ہے۔دریں اثنا
کابل کے قریب ایک بم دھماکے میں نیٹو کے چار فوجیوں سمیت۱۶/افراد ہلاک ہو
گئے ہیں۔ بگرام میں سب سے بڑے امریکی اڈے کے قریب ایک مطب پر حملے میں دس
شہری اور دو پولیس اہلکار ہلاک ہو گئے۔
دوسری جانب افغانستان سے امریکی انخلاء یکم جولائی سے شروع ہورہاہے
اوربگرام پرسینکڑوں فوجیوں نے اپناسامان تک باندھ لیاہے ۔بڑے ٹرانسپورٹ
طیارے مناس ایئربیس قازقستان سے بگرام ایئربیس منتقل کردیئے گئے ہیں کیونکہ
مناس ایئربیس بھی اس سال بندکردیاگیاہے اوریکم جولائی سے سینکڑوں فوجی
امریکاکیلئے روانہ ہوں گے تاہم امریکانے افغانستان میں طالبان کوبزورطاقت
روکنے کیلئے ڈرون طیاروں کاایک بڑافلیٹ افغانستان پہنچادیاہے جس سے طالبان
کونشانہ بنائے جانے کاامکان ہے تاہم ذرائع کے مطابق بگرام پرامریکی فضائیہ
بدستورموجودرہے گی کیونکہ داعش جنگجوؤں کے عراق پر قبضے کے بعدامریکانے
بگرام سے اپنے فضائی بیڑے کوجولائی میں واپس بلانے کافیصلہ فی الحال
مؤخرکردیاہے اورطالبان کوبزورطاقت روکنے کیلئے فضائیہ کوافغان حکومت کی
مددکیلئے رکھاہے تاہم طالبان اورامریکاکے درمیان پس پردہ مذاکرات کی کوششیں
بھی جاری ہیں اورذرائع کاکہناہے کہ رمضان کے بعداس میں پیش رفت کاقوی امکان
ہے۔
ادھر افغانستان میں ہونے والے صدارتی انتخابات کے امیدوار عبداﷲ عبداﷲ نے
کابل میں اپنے حامیوں سے خطاب کرتے ہوئے غیر سرکاری نتائج میں اپنے
مدِمقابل اشرف غنی کی برتری کو رد کردیااور اپنی کامیابی کا دعوی کرتے ہوئے
انتخابی عمل میں بدعنوانی اور بے قاعدگیوں کے الزامات دہراتے ہوئے کہا کہ
وہ کبھی غیر منصفانہ انتخابات کو قبول نہیں کریں گے۔قبل ازیں عبداﷲ عبداﷲ
کی طرف سے متوازی حکومت بنانے کی خبروں کے پس منظر میں امریکی وزیر خارجہ
جان کیری نے خبردار کیا تھا کہ کوئی اقتدار غصب کرنے کی کوشش نہ کرے۔ انھوں
نے کہا تھا کہ غیر قانونی طریقے سے حکومت پر قبضے سے افغانستان کو ملنے
والا امریکی تعاون ختم ہو سکتا ہے۔
اب یہ خدشہ یقین کی حدوں کوچھونے لگاہے کہ سی آئی اے اورپینٹاگون کی طرف سے
رالف پیٹرنے مشرقی وسطیٰ اورہمارے خطے کاچندبرس پہلے تقسیم کاجونقشہ شائع
کیاتھا،کیااس کاآغازہونے جارہا ہے؟ ادھر افغانستان میں حالیہ انتخابات کے
نتائج کے بعدکی صورتحال نے افغانستان کی تقسیم کی طرف بھی اشارے دیناشروع
کردیئے ہیں ۔ پاکستان کی موجودہ حکومت اورعسکری فورسزکیلئے شام اورعراق کے
موجودہ دگرگوں حالات کابڑے غورسے جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔عراق سے امریکی
انخلاء کے بعدان حالات کاوقوع پذیرہونااوراب افغانستان سے امریکی انخلاء
اورموجودہ شمالی وزیرستان کے آپریشن کے بعدکے حالات میں کوئی مماثلت تونہیں
کیونکہ امریکاوزیرستان آپریشن کوناکام کرنے کی پوری کوشش کررہاہے اور ابھی
تک افغانستان میں مقیم مولوی فضل اﷲ اور دیگر دہشت گردوں کے خلاف کسی بھی
قسم کی کاروائی سے گریز پر ہماری آنکھیں کھل جانی چاہئیں۔ |
|