غزہ لہو لہو

غزہ کی چھوٹی سی پٹی اور اس پر بسنے والے چند لاکھ افراد ہر کچھ عرصہ بعد آگ اور خون میں نہا جاتے ہیں۔ انسانیت کی بھیانک تصویر پیش کرتے فلسطینیوں کے درندہ صفت دشمن اپنے نوکیلے ناخنوں سے لاشے تک نوچ لیتے ہیں۔ غزہ کی اس مظلوم عورت کی تصویر اب بھی میری آنکھ نم کردیتی ہے۔ وہ پہلی بار ماں بننے والی تھی۔ اسرائیلی کی جانب سے ہونے والی بم باری نے اسے یوں گھائل کیا کہ زندگی پیدا کرنے سے پہلے ہی اسے موت کا تحفہ مل گیا۔ فوری طور پر امدادی کیمپ میں لاکر اس کا آپریشن اس آس میں کیا گیا کہ شاید جسم میں پلتی ننھی جان کو بچالیا جائے، لیکن صہیونیت کی ڈائن مادر شکم میں سانس لیتے بچوں کو بھی چبا جاتی ہے ہے، لہٰذا ماں کے ساتھ ساتھ یہ ننھی سی جان بھی بم باری کا نشانہ بنی تھی، جس کی کمر پر دشمن فوج کی کارروائی کی وجہ سے ایک گہرا زخم نمایاں نظر آرہا تھا، اور اس نے بھی اپنی ماں کے ساتھ شہادت کا درجہ پالیا۔

میں سوچتی ہوں روز محشر اگر اس بچے نے مجھ سے اپنے بے گناہ قتل کا سبب پوچھا تو میرے پاس کیا جواب ہوگا۔ میں کیا کہوں گی اسے کے اس کو اور اس کی ماں کو کس جرم کی پاداش میں صفحہ ہستی سے مٹا دیا گیا۔

کہاں ہے دنیا میں امن کے ٹھیکے دار، جو امن کے ایسے عاشق ہیں کہ امن کے نام پر جنگ مسلط کرنے سے بھی دریغ نہیں کرتے، کہاں ہیں انسانی حقوق کے نعرے لگانے والے جو اس نعرے کی آڑ میں کسی ملک کو ہدف بنالیں تو تجارتی پابندیوں سے فضائی حملوں تک سب کچھ کر گزرتے ہیں، غزہ کی پٹی پر گھر گھر لاشے ہیں جگہ جگہ تباہی ہے، لیکن دنیا کے چوہدریوں کو نہ خون میں نہاتا امن نظر آتا ہے نہ انسانی حقوق کی بدترین پامالی دکھائی دیتی ہے۔

غزہ، یہ فلسطین، یہ کیسی عجب جگہ ہے۔ میرے رب اس کرہء عرض پر جہاں مسجدوں میں روزانہ پانچ وقت نماز ادا ہوتی ہے، غزہ کے لوگ ہر روز چھے نمازیں ادا کرتے ہیں۔ اور چھٹی نماز، نماز جنازہ ہوتی ہے۔
روح کانپ اٹھتی ہے۔ اہل غزہ کی حالت دیکھ کر دل میں آتا ہے کہ خدا کوئی وسیلہ بنادے اور میں اپنے بھائیوں بہنوں کی مدد کے لیے غز ہ پہنچ جاؤں۔ میں وہاں نہیں ہوں، لیکن میرا قلم لکھتا رہے گا۔ ہر اس ظلم کے خلاف جو انسانیت پر ہوگا۔ جب تک سینے میں دل دھڑک رہا ہے، سانسوں کی روانی باقی ہے، میرا قلم ظلم کے خلاف لکھتا رہے گا۔

اسرائیل کی حمایت کرنے والے امن کے امین، اپنی اس بے رحمی اور منافقت کے لاکھ جواز پیش کریں، خدا کی عدالت میں انہیں اسی طرح بے دردی سے کچلا جائے گا، جو ظلم آج انسانیت پر وہ کررہے ہیں اس کا جواب انہیں دینا ہوگا۔

غزہ کا یہ چھوٹا سا مختصر آبادی والا علاقہ ہر کچھ عرصے بعد اپنے خون میں نہاکر اور بھیانک تباہی سے گزر کر ہماری دنیا کے تضادات، منافقت اور بے حسی کا پردہ چاک کردیتا ہے۔ آج بھی غزہ کے مظلوم فلسطینی اپنے خون سے اس دنیا کی یہ حقیقت لکھ رہے ہیں کہ اس دنیا میں طاقت ہی سب کچھ ہے۔ طاقت کے سامنے منطق، دلیل اور اخلاقیات سب سرنگوں ہوجاتی ہیں، ہار جاتی ہیں یا مفاہمت کرلیتی ہیں۔
 
غزہ کی سر زمین پر بکھری معصوم بچوں کی لاشیں انسانی حقوق کے دعوے داروں سے اپنی موت پر انصاف مانگتی ہیں۔ یہ لاشیں ان دعوے داروں سے پوچھتی ہیں کہ تم تو وہ نرم دل ہو کہ جانوروں کی اذیت پر بھی تڑپ جاتے ہو، ہم جنس پرستوں کے بے حیائی سے روک دیا جائے تو تم ان کے ’’حقوق‘‘ کی یہ خلاف ورزی برداشت نہیں کرپاتے، چائلڈ لیبر تمھیں بے کل کردیتی ہے، تو پھر غزہ میں اسرائیل کی طرف سے برسائی جانے والی آگ میں جلتے جھلستے یہ پھول تمھیں کیوں نظر نہیں آتے؟ کیا تم انھیں انسان نہیں سمجھتے؟ کیا تم انھیں جانور سے بھی کم تر جانتے ہو؟ یہ سوالات امن اور انسانی حقوق کے نعروں کی حقیقت سامنے لے آتے ہیں۔ درحقیقت غزہ کا معرکہ ایک ایسی صورت حال اختیار کر گیا ہے جس نے سب ہی کو بے نقاب کردیا ہے، امن کی دعوے دار عالمی طاقتوں کو بھی اور مسلم ممالک کے حکم رانوں کو بھی۔

وسائل سے مالامال مسلم ممالک جن کی زمینوں پر پیدا ہونے والے تیل سے عالمی طاقتوں کی معیشت کا پہیا گھومتا ہے، جن کے حکم رانوں کے بینک اکاؤنٹس مغربی ممالک کو اقتصادی طاقت فراہم کرنے کا باعث بنے ہوئے ہیں، جو ایک ارب سے زیادہ آبادی پر محیط ہیں کہ اگر امریکا اور یورپ کی مصنوعات کا بائیکاٹ کردیں تو ان صنعتی اور معاشی طاقتوں کی معیشت ہل کے رہ جائے․․․․لیکن یہ ممالک اور ان کے عیش پسند خوف زدہ حکم راں اس معاملے میں دکھاوے کے اقدامات کے علاوہ کچھ کرسکے ہیں نہ کرسکیں گے، کیوں کہ ان کے ذاتی، گروہی اور نام نہاد قومی مفادات انھیں اس کی اجازت نہیں دیتے۔ گویااسرائیل کی درندگی کا طاقت سے جواب دینا تو دور کی بات ہے، مسلم دنیا کے حکم راں ایسے ٹھوس معاشی اقدامات کرنے کی بھی ہمت نہیں رکھتے جو اسرائیل کے سرپرست اور ہم نوا ممالک کو مجبور کردیں کہ وہ اپنے اس پالتو جانور زنجیر کھینچ لیں۔ اگر مسلم ممالک صرف اسرائیل کا ساتھ دینے والے ملکوں کی مصنوعات کا بائیکاٹ کردیں تو چند ہی روز میں صورت حال بدل سکتی ہے، مگر خوف اور خودغرضی ایسا کیوں ہونے دیں گے؟

اس مسئلے کا حل صرف طاقت کا استعمال اور معاشی بائیکاٹ ہی ہوسکتے ہیں۔ ورنہ جوشیلی تقریریں ہوتی رہی گی، احتجاجی مظاہرے اور جلسے ہوتے رہیں گے، نعرے لگتے رہیں گے، اسرائیلی اور امریکی پرچم جلتے رہیں گے، لیکن فلسطینیوں پر ڈھایا جانے والا ظلم روکا نہ جاسکے گا۔ غزہ میں ہر روز قیامت مچتی رہے گی، جنازے اٹھائے جاتے رہیں گے اور بستیاں کی بستیاں تباہ ہوتی رہیں گی۔

اپنے کالم کے آخر میں جناب محمدعثمان جامعی صاحب کی ایک نظم دے رہی ہوں، اقوامِ عالم خاص طور پر مسلم ممالک کے حکم راں اور عوام اگر غزہ کے لیے کچھ نہ کرسکیں تو کم ازکم وہ تو کر ہی سکتے ہیں جس کی اس نظم میں اپیل کی گئی ہے۔
’’اپیل‘‘
گولی، راکٹ نہ بم بھیجیں
نہ چاول اور گندُم بھیجیں
نہ دینار و درہم بھیجیں
پٹّی نہ کوئی مرہم بھیجیں
نہ حرفِ مذمت کے تحفے
نہ لفظوں کے ماتم بھیجیں
غربائے غزہ کی لاشوں کو
کفنانے کی کچھ صُورت ہو
بس اقوامِ عالم ساری
اپنے اپنے پرچم بھیجیں
Sana Ghori
About the Author: Sana Ghori Read More Articles by Sana Ghori: 317 Articles with 312099 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.