رمضان کا آخری عشرہ ہے ۔حکومت
قبول کررہی ہے کہ وہ سیاسی طور پر ناکام ہوچکی ۔ خواجہ آصف جو بجلی اور
پانی کے وزیر ہیں کا وزیر مملکت عابد شیر علی اور سیکرٹری پانی و بجلی
محترمہ نرگس سیھٹی کے ہمرا ہ پریس کانفرنس میں طویل لوڈشیڈنگ پر عوام سے
معافی مانگنا اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے ۔ خوبصورت بات یہ تھی کہ انہوں نے
صورتحال کی تمام تر ذمہ داری رب العزت پر ڈال دی اورعوام کو مشورہ دیا کہ
وہ حکومت کی طرف دیکھنے کی بجائے اﷲ سے رجوع کریں۔قوم بارش کی دعاکرے۔ اگر
قوم کی دعاؤں کے سبب بارش ہوگئی توموسم ٹھنڈا ہو جائے گا۔ بجلی کم استعمال
ہوگی اور یوں قوم اور حکومت دونوں کی مشکل آسان ہوجائے ۔ انہوں نے کہا تھا
کہ بارش کے بعد بجلی کے نظام میں بہتری آئے گی ۔ طلب کم ہوگی ۔ لوڈشیڈنگ
میں کمی آئے گی ۔ سوئے اتفاق بار ش ہو گئی ہے مگر کچھ تبدیلی نہیں آئی ۔ ہر
شخص جو اپنے لیے رب سے دعا کرتا ہے حکمرانوں کے لئے بد دعا بھی کرتا ہے۔
مگروہ لوگ جو اندھے اور بہرے ہیں انہیں نہ تو نظرآتا ہے اور نہ سنائی دیتا
ہے۔ بگڑتی ہوئی سیاسی صورتحال سے تو اندازہ ہوتا ہے کہ عوام کی دعاؤں کی
نسبت بدعائیں زیادہ قبولیت حاصل کرتی جارہی ہیں۔
پریس کانفرنس میں انہوں نے یہ بھی بتا یا کہ ہمارا لاہور کا سسٹم 15 ہزار
واٹ سے زیادہ لوڈ برداشت نہیں کرسکتا جس سے گرڈسیشن خراب ہونے لگے ہیں ۔
لاہور میں پچھلے دنوں لوڈشیڈنگ سے بڑھ کر بھی بجلی کا جو بحران تھا اس کی
وجہ 1500 میگا واٹ کے دو گرڈسٹیشنوں کا ٹرپ ہونا تھا جس سے سپلائی میں 85
فیصد کمی آگئی تھی۔اب ایک گرڈ سٹیشن مکمل بحال ہو چکا دوسرے کو پور ی طرح
بحال اور فعال کیا جارہاہے۔ ایک گرڈ سٹیشن کی مکمل بحا لی سے بجلی کی بحالی
کا 85 فیصد عمل مکمل ہوچکاہے۔ ہم سارے سسٹم کو اپ گریڈ کرنے کی کوشش کررہے
ہیں مگر اس سارے کام میں تین چارسال تولگیں گے۔ اس پریس کانفرنس سے ایک
ہفتہ قبل ہی انہوں نے دعویٰ کیا تھا کہ لوڈشیڈنگ پر 85 فیصدقابو پالیا گیا
ہے ۔ 85 کالفظ لگتا ہے خواجہ صاحب کو کسی جوتشی نے بتا یا ہے۔ اسی لیے ان
کے ہر بیان اور کلام میں 85 کا لفظ ضروری سنائی دیتا ہے۔ اگر جوتشی نے اس
لفظ کو ان کے لیے بہت سعد بتایا ہو ا تو ہوسکتا اگلے بیانات کچھ یوں ہوں۔
لاہور کے دوسرے خراب گرڈسٹیشن کی مرمت کا کام 85 دنوں میں مکمل ہوجائے گا ۔
لاہور میں لوڈشیڈنگ میں بہتری 85 ہفتے سے پہلے ہی آجائے گی ۔
بجلی کا نظام پوری طرح ٹھیک ہونے اور لوڈشیڈنگ کے مکمل خاتمے پر مزید 85
سال خرچ ہونگے ۔
پاکستان کی قسمت بد لنے کے لئے عوام کومجھے ۔ میرے بچوں اور میرے بچوں کے
بچوں کے اور میرے لیڈرمیاں نواز شریف ان کے بچوں اوران بچوں کے بچوں کو
85سال حق حکمرانی دینا ہوگا تاکہ ہماری محنت اور اس کا ثمر لوگوں تک پہنچ
سکے۔
وزرا کے بارے میں عام تاثریہی ہوتا ہے کہ یہ لوگ انتہائی سمجھ بوجھ والے
ہوتے ہیں۔ بات کوپہلے تو لتے اور پھر بولتے ہیں ۔ا ن کے باتوں میں وزن
ہوتاہے۔ چونکہ پالیسی ساز ہوتے ہیں اسلئے ان کا ہر بیان اور فعل ایک خا ص
پیرائے میں ہوتاہے۔ مخصوص ویژن اور خوبصورت مطمع نظر ان کا خاصہ ہوتا ہے۔
مگر خواجہ آصف کیا پاکستان مسلم لیگ کے زیادہ تر غیر ضروری بولنے والے وزرا
جو اورجس طرح کے بیانات دیتے ہیں اس سے لگتا ہے کہ یا تو معیار میں کچھ کمی
ہے یاشاید بیان دیتے وقت وہ مکمل ہوش میں نہیں ہوتے ۔ وہ یہ بھی نہیں سوچتے
کہ بیان تو نیام سے نکلا ہوا تیرہے جو واپس نہیں آسکتا اور جس کے نتائج
پوری پارٹی کو بہت عرصے تک بگتنا ہو تے ہیں۔
چند دن پہلے فیصل آباد میں مزدوروں نے مظاہرے کئے۔ ماتم کیا بجلی وگیس کی
لوڈشیڈنگ اور بڑھتی ہوئی مہنگائی اور بیروزگار ی کے خلاف میڈیا میں شکایات
کے انبار لگادئیے۔ مگریہ سب کچھ جانتے ہوئے بھی خواجہ آصف کہتے ہیں کہ
صنعتی علاقوں کو گذشتہ سات ماہ سے تسلسل سے بجلی فراہم کی جاری ہے۔ مینو
فیکچرنگ اورسسٹم میں بہتری آرہی ہے۔ انڈسٹریل ایریاز کودی جانے والی بجلی
کے سبب ملک میں بیروزگاری میں کمی آرہی ہے اور حکومت کے خلاف مظاہرے نہیں
ہورہے۔صنعتی ایریا کو دو شفٹوں میں چلا یا جارہا ہے کیونکہ اگر انڈسٹری کا
پیہ رک گیا تو ملک کے حالات خراب ہو جائیں گے۔ خواجہ صاحب کو یہ اچھے حالات
مبار ک ہوں۔ لیکن خیال تو فقط خیال ہوتا ہے زمینی حقائق سے ضروری نہیں کہ
جڑا ہو۔
پانی وبجلی کے وزیر مملکت عابد شیر علی نے بجلی چوری کے خلاف ایک مہم کی
ابتدا کی اور کچھ عرصہ بہت زیادہ بڑھک بازی کرتے رہے مگر ان کے بے سروپا
رویے اور عجیب وغریب بیانات کے بارے سیاسی جماعتوں نے وزیر اعظم کو شکایت
کی تو اس کے بعد سے وہ وزیر گم سم ہیں۔ کبھی کبھی بیان دیتے ہیں۔ مگر سوچ
اور سمجھ ان کے پاس سے نہیں گزری ۔رشتہ داری کے سبب وزیر ہونا ان کا حق تھا
اسلئے بڑے زورشور سے رشتہ داری نبھارہے ہیں۔
کہتے ہیں چار چیزیں جاکر واپس نہیں آتی ۔
وہ پتھر ۔۔۔۔جو آپ پھینک دیں۔
وہ لفظ۔۔۔۔۔جو آپ بول دیں۔
وہ موقع۔۔۔۔جو آپ کھو دیں۔
وہ وقت۔۔۔جو آپ گنوا دیں۔
موجود ہ حکمرانوں نے چاروں چیزوں کاغلط استعمال کیا ہے اور اب کچھ ہاتھ
نہیں۔ عموماً شعور رکھنے والے لوگوں کو اس صورت حال میں ملال ہوتا ہے مگر
جہاں شعور ہی نہ وہ وہاں ملا ل کیسا۔ لگتا ہے الٹی گنتی شروع ہے۔ بہت سی
دیکھی اور بہت سی ان دیکھی قوتیں مدمقابل ہیں اور کھیل ختم ہونے میں کچھ
دیرنہیں۔ عوام پھر کسی نجات دہندہ کی امید پرہیں ۔ کوئی بھی آئے ان کے لیے
بہتری کی آس ہے۔ لیکن اس بار شاید کچھ نئی چیزاور نئے حالات کاسامنا ہوگا۔
سب سونامی اور سب انقلاب بھی شاید منہ تکتے رہ جائیں۔ |