ہاتھ چھوٹے تو مگر رشتہ نہیں چھوڑا جاتا

سیاست دنیا بھر میں ایک کھیل ہے ۔ مہذب لوگوں کا کھیل ذہانت ، بردبادی اور تحمل کا کھیل ۔ اس کے کھلاڑیوں میں ملک کے ذہین ترین لوگ ۔ پر و فیسر، ڈاکٹر ،انجینئر،وکلا اور اپنے اپنے شعبے کے بہترین لوگ ہوتے ہیں یہ لوگ کاروبار نہیں کرتے سیاست کو خدمت جا ن کر اپنی زند گیا ں اس کے لیے وقف کردیتے ہیں۔ ہار جیت تو دور کی بات ۔لوگ ان کا احترام کرتے اور سرآنکھوں پر بٹھا تے ہیں۔ یہ لوگ الیکشن جیت لیں تو عوام کے لئے سو چتے اور عوام کے لئے کام کرتے ہیں۔ ہار جائیں تو اپنے اپنے شعبوں میں واپس چلے جاتے اور عزت وقار سے وقت گزارتے ہیں۔

پاکستان میں سیاست ایک جنگ ہے ۔ مفادات کی جنگ ۔ اغر اض کی جنگ ۔ بے حسی کی جنگ جس میں کوئی کسی کا سگا نہیں۔ کوئی بھائی نہیں ۔ مفادات ایک تو سب ایک، مفا دات کا ٹکراؤ تو دشمنی ان کا مقدر۔ سیاست ایک کاروبار ہے ایک انڈسٹری ہے ۔ سب سرمایہ دار اور جاگیر دار اس میں سرمایہ بڑھ چڑ ھ کر لگا رہے ہیں۔ اور کئی گنا نفع کمارہا ہے۔ اب سیاست ذہانت کا کھیل نہیں کچھ مافیہ ہیں جو سیاست پر قابض ہیں ۔ کسی ذہین اور فطین کے لیے سیاست میں گنجائش نہیں۔ عام آدمی کے لیے سیاست کے دروازے بند ہیں ۔افسوس تو اس وقت ہوتاہے جب لوگ مفادات کے لیے رشتوں کا تقدس بھی پامال کردیتے ہیں۔ میر ا ایک دو ست اپنے مفادات کے لئے اپنے ہی ایک قریبی عزیز سے دست وگریبان ہے ۔ اس کے عزیز نے بھی شاید اس کے مفادات کی پرواہ نہیں کی کہ اس کے اپنے مفادات ہیں ۔ وہ اس حد تک دشمنی میں آگے جاچکے کہ واپسی ممکن نہیں انہیں کون سمجھائے کہ بھائی ایک دوسرے کے لیے بانہوں کی طرح ہوتے ہیں ۔ انسان کی عزت اور وقار صرف اس کی اپنی ذات سے نہیں بھائیوں اور عزیزوں کے حوالے سے بھی ہوتی ہے۔ اختلاف کہاں نہیں ہوتا۔ مگر اختلاف کو دشمنی میں بدل لینا تو مہذب لوگوں کا کام نہیں میرے اپنے بھائیوں سے بہت اختلاف رہے ۔ مگر میں ایک دن بیمار ہوا تو سارے بھائی سب کام چھوڑ کر میرے سرہانے موجود تھے۔ ابتلا کے ہر دور میں صرف بھائی ہیں جو سیسہ پلائی دیوار کی طرح حالات کی آندھیوں کاآپ کے ساتھ مل کر مقابلہ کرتے رہیں۔ کاش یہ بات میرے دوست کو بھی سمجھ آجاتی کہ بھائیوں کا حوالہ ہی عزت اور تکریم کا با عث ہوتا ہے۔ سیاست کے لئے رشتے قربان نہیں کرتے ۔ کبھی کبھی انسان کو بڑے پن کے لیے مفادات اورانا کی قربانی بھی دینا پڑتی ہے۔ یہی قربانی رشتے بچاتی ہے۔

ماڈل ٹاؤن کا سانحہ ایک بہت بڑا واقعہ تھا جس کی تحقیق ہائی کو رٹ کا ایک ٹریبونل کررہا ہے۔ عوام کی نظریں اس ایک رکنی نریبونل پر ہیں مگر ٹریبونل کا کام انتہائی سست رفتاری سے آگے بڑھ رہا ہے۔ شنید ہے کہ حکومت کی طرف سے کچھ رکاوٹیں اور کچھ گواہوں ،ملزموں او ر وکلا کاروایتی طرز عمل نتائج تک پہنچنے میں رکاوٹ ہے ۔ اگر یہی صورت حال رہی تو ہائی کورٹ یا سپریم کورٹ کو مزید مداخلت کرنی پڑیگی ۔ مقتولوں کے وارثوں کی طرف سے دی گئی درخواست پر ایف آئی آر ابھی تک کاٹی نہیں گئی ۔ حکومت کی کوشش ہے کہ سرکاری ایف آئی آر پر ہی گزارہ ہو جائے مگر یہ ہو نہیں سکتا کچھ درمیانی کڑیاں غائب کرنے کی بھی کوشش جاری ہے مگر آج کے الیکڑانک دور میں کچھ بھی چھپانا ممکن نہیں ہوتا۔ چند دنوں میں ہائی کورٹ یا سپریم کورٹ اپنی سابقہ روایات کے مطابق اس ایف آئی آر کو درج کرنے کا حکم دے دے گی ۔ پھر کیس میں بہت تیزی سے پیش رفت ہوگی۔ بہت سے بڑے بڑے افسران اور بڑے بڑے لوگ اور وقت کے فرعون قابو آئیں گے گرفتاریاں بھی ہونگی اور قاتل بھی بے نقاب ۔

ایک پرانا واقعہ ہے پولیس کوکسی نے اطلاع دی کہ فلاں گاؤں میں گھروں کے قریب کھیت میں ایک لاش پڑی ہے جسے کسی نے رات کے وقت قتل کر دیا ہے۔ صبح کا وقت تھا۔ پولیس فوراً موقع واردات پر پہنچ گئی ۔ لاش کا معائنہ کیا ۔ لاش کے گرد چونکہ لوگوں کاہجو م تھااسلئے کسی کے پاؤں کے نشانات کا اندازہ لگانا ممکن نہیں تھا۔ پولیس لوگوں سے پوچھ کچھ کررہی تھی کہ سامنے والے مکان سے ایک شخص آنکھیں ملتا باہر آیا اور پوچھنے لگا کہ کیا ہوا ہے۔ اسے بتایا گیا کہ ایک شخص قتل ہوگیا ہے۔ پولیس والوں نے اس سے کچھ سوالات کیے مقتول کا چہرہ دکھایا مگر اسے کچھ پتہ نہیں تھا۔ مقتول بھی اس کے لیے بالکل انجا ن تھا۔ پولیس کے سوالات کے بعد وہ شخص کچھ دیر وہاں کھڑا رہا اور پھر واپس اپنے گھر کو چل پڑا ۔ اچانک پولیس کی نظر پڑی کہ اس کی قمیض کا پچھلا حصہ خون سے تر تھا۔ پولیس والوں نے فوری طور پر اسے پکڑ لیااور قتل کے الزام میں تھانے لے آئے۔

تھانے پہنچ کر وہ شخص بہت چیخا چلایا کہ اس کا نہ تو قتل سے کوئی تعلق ہے اور نہ مقتول سے کوئی واقفیت ۔ ہاں رات بارہ بجے کے بعد وہ کھٹکا سن کر باہر آیا تھا مگر کوئی نظر نہیں آیا۔ پیشاب کرنے کے لیے وہ اسی جگہ کہیں بیٹھا تھا۔ اس کی قمیض پر خون شاید اسی وقت لگاتھا۔ اگر اسے پتہ ہوتا تو وہ قمیض بدل لیتا۔ مگر پولیس نے اصلی قاتل کی گرفتاری تک اسے نہ چھوڑنے کا فیصلہ کیا ۔ پولیس کے غیر ضروری سوالات اور مار پیٹ کے بعد ایک دن وہ بول اٹھا کہ میں نے اس شخص کو نہیں مارا۔ البتہ آج سے پندرہ برس پہلے میں نے ایک شخص کو مارا تھا اور صاف بچ بھی گیا تھا۔ اس مقتول کا خون میرا پیچھا کرتا رہا تھا مجھے لگتا تھا کہ میرے اردگرد خون ہی خون ہے رات کو سوتے وقت جب یہ خون مجھے نظر آتا تو میں پریشان ہو کر محلے میں گھومتا رہتا۔ اس دن بھی رات جب میں سویا تو خون میرے تعاقب میں تھا۔ میں گھبراکر باہر نکلا اور ایک غلط الزام میں قابو آگیا۔

حقیقت یہی ہے کہ ناحق خون انتقام لیتا ہے۔ وارث کچھ نہ بھی کریں خون قاتل کاپیچھا کرتا ہے اور اس وقت تک جب تک قاتل انجام کو نہ پہنچ جائیں خون نہ خود چین لیتا ہے اور نہ ہی قاتل کو چین لینے دیتا ہے۔ ماڈل ٹاؤن کے سانحے میں مرنے والے پندرہ اشحاص کاخون بھی ضائع نہیں جا ئے گا۔ حکومت کوا اس سلسلے میں قاتلوں کی گرفتاری کے لئے اقدامات کرنے چاہیں وگرنہ یہ خون حکومت کے لئے شاید بہت مہنگا ثابت ہو ۔ ساید ملک میں بہت بڑی تبدیلی کا باعث بھی۔
Tanvir Sadiq
About the Author: Tanvir Sadiq Read More Articles by Tanvir Sadiq: 582 Articles with 500787 views Teaching for the last 46 years, presently Associate Professor in Punjab University.. View More