دہشت گردوں پر شریفوں کی دہشت

پاکستانی طالبان بھگ رہے ہیں، پہاڑوں میں چھپ رہے ہیں، غاروں میں دبک رہے ہیں، جو شہروں میں ہیں وہ گھروں میں گھس رہے ہیں، تہہ خانوں میں بیٹھے ہیں اور یہاں تک کہ اپنی پہچان چھپانے کے لئے لمبے بال اور لمبی داڑھی کٹوا رہے ہیں۔ جی ہاں ! جن سے پاکستان لرزتا تھا، اب وہ خود کانپ رہے ہیں، کیونکہ پاکستانی فوج کو آگیا ہے تاؤ، نواز شریف حکومت آر پار کی جنگ لڑنے کے لئے اُتر چکی ہے ، حکومت اور فوج اب کسی سمجھوتے کے موڈ میں نہیں ہے۔ طالبان کو دوڑا دوڑا کر مارنے کے لئے فوج نے کمر کس لی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ شمالی وزیرستان میں پہلی مرتبہ طالبان بھاگ رہے ہیں۔ فوجی جوتوں کی دھمک سے خوفزدہ ہیں۔ دراصل پچھلے ماہ کراچی ایئر پورٹ پر پاکستانی طالبان کے خوفناک حملے کے بعد نواز شریف حکومت نے فیصلہ کر لیا تھاکہ اب آر یا پار کی جنگ لڑی جائے گی، کیونکہ یہ حملہ داخلی سلامتی کے لئے چیلنچ تھا۔ وزیر اعظم میاں نواز شریف اور فوجی سربراہ جنرل راحیل شریف نے طالبان کے خلاف جس مہم کا بگل بجایا ہے ، اس نے شدت پسندوں میں بھگدڑ مچا دی ہے ، مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ طالبان کے خلاف دست آہن پر ملک کی ایک رائے اور متحد نہیں، بلکہ اس پر بھی اختلاف رائے رکھتا ہے ۔ کسی کی نظر میں یہ کاروائی دہشت گردی کو ختم کر دے گی ، تو کسی کی نظر میں مذید بڑھادے گی۔ لاکھوں افراد فوجی کاروائی کے سبب بے گھر ہو گئے ہیں اور پناہ گزین کیمپوں میں ہیں ، مگر فی الحال پاکستانی فوج کا ایسا خوف ہے کہ شمالی وزیرستان میں جو دہشت گردوں کی جنت تھا ، اب سب سے غیر محفوظ علاقہ بن گیا ہے ، اور طالبان نے اپنا حلیہ بدلنا شروع کر دیا ہے تاکہ پاک فوج کی نظر سے بچ سکیں ۔ نواز شریف نے تیسری مرتبہ وزیر اعظم کا عہدہ سنبھالا تھا تو اُنہوں نے شدت پسندوں کے ساتھ مذاکرات کی حمایت کی تھی اور بڑے صاف لفظوں میں کہا تھا کہ حکومت چاہے گی کہ پاکستانی طالبان میز پر بیٹھ کر بات کریں مگر طالبان نے مذاکرات کی شروعات سے باوجود عادت سے مجبور ہونے کے سبب دہشت گرد حملوں کا سلسلہ جاری رکھااور جب کراچی ایئر پورٹ پر خوفناک حملہ ہوا تو نواز شریف حکومت کے سامنے ایک ہی راستہ تھاکہ اب جنگ لڑی جائے ۔ طالبان کے ساتھ امن مذاکرات نے معنی ثابت ہوئے کیونکہ طالبان کی شرائط ایسی تھیں کہ حکومت تسلیم نہیں کر سکتی تھی ، نواز شریف حکومت جانتی ہے کہ اگر طالبان کے خلاف دست آہن کا استعمال نہیں ہوا تو نہ صرف اسلام آباد خطرے میں پڑجائے گا بلکہ پاکستانی کی نیو کلیائی تنصیبات پر شدت پسندوں کے قبضے کا خطرہ پیدا ہو جائے گاجنرل راحیل شریف اور نواز شریف اس معاملے پر ایک رائے ہوئے اور اب طالبان پر فوج اب تک سب سے بڑی کاروائی کر چکی ہے۔

میران شاہ میں ایک ہیئر کٹنگ سیلون کے مالک اعظم خان کے مطابق اُس کے حجامت کے کاروبار کو چار چاند لگ گئے ہیں، کیونکہ فوج کے خوف سے دہشت گردوں نے داڑھیاں کٹوا کر حلیہ بدلنا شروع کر دیا ہے ، اعظم خان کے مطابق وہ اب تک تقریباً 800افراد کی داڑھی اور بال کاٹ چکا ہے۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ شمالی وزیرستان میں فوج کا کتنا زور تھا۔ تحریک طالبان پاکستان کے سربراہ حکیم اﷲ محسود کے بھی لمبے بال تھے جس کے سبب بیشتر جنگجوؤں نے اسی انداز کو پسند کیا تھا، مگر پاکستانی فوج کی بڑی مہم کے سبب طالبان نے جنگجوؤں کو بال کٹوانے اور عام لوگوں میں مل جانے کا حکم دیا ہے ۔ ایک اُزبک جنگجو نے کہا کہ اب ہم مشرق وسطیٰ کا رُخ کریں گے۔ ہم نہیں چاہتے کہ پاکستانی ایئر پورٹ یا سرحدوں پر کوئی مشکل ہو، اس لئے بال داڑھی کٹوانے کے بعد اسلام آباد یا دوسرے شہروں کا زُخ کریں گیـ۔ جنگجوؤں کا کہنا ہے کہ اُزبک ، تاجک اور چیچن طالبان اب شام اور عراق کا رُخ کرنا چاہتے ہیں جس کے سبب حلیہ بدل کر سفری دستاویز درست کر رہے ہیں۔ بنوں اور میران شاہ کے مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ جو پہلے آزادی کے ساتھ سڑکوں پر گشت کرتے تھے اب روپوش ہیں۔شاید یہ پہلا موقع ہے کہ طالبان کو اس قدر خوف زدہ اور پریشان حال دیکھا گیا ہے ۔ میران شاہ کے لوگوں کا کہنا ہے کہ اگر فوج کا دباؤ ایسا ہی بنا رہا تو پاکستانی طالبان کے لئے پہاڑوں میں پناہ لینا آخری راستہ ہو گا۔شمالی وزیرستان سے اب تک تقریباً دس لاکھ افراد فرار ہو چکے ہیں شدت پسندوں اور فوج کے درمیان ٹکراؤ میں پھنس جانے کے خوف سے مقامی لوگ محفوظ علاقوں میں منتقل ہو چکے ہیں۔ جس کے سبب فوج اور انتظامیہ کے لئے پناہ گزینوں کو بنیادی سہولیات مہیا کرانا بھی مشکل ہو رہا ہے۔ بنوں میں پناہ گزینوں کا سیلاب آگیا ہے جو بھاگ رہے ہیں اُنہیں معلوم نہیں کہ کہاں جا رہے ہیں بس سب پر یہی خوف سوار ہے کہ اگر فوج کے ہاتھوں مارے نہ جائیں۔ پریشان حال لوگوں کا کہنا ہے کہ پاکستانی طالبان نے ظلم کی انتہا کر دی تھی ۔ ہر کسی کو اغواء ہونے کا خطرہ تھا۔ ہر کوئی موت کے سایہ میں تھا۔ طالبان کو جس پر شک ہوتا تھا اُس کو موت کے گھات اُتار دیتے تھے۔ دراصل پچھلے دس سال کے دوران شمالی وزیرستان دہشت گردوں کے لئے سب سے محفوظ علاقہ بن گیا تھا،جہاں پاکستانی طالبان کے ساتھ دیگر ممالک کے جہادی ڈیرہ ڈالے ہوئے تھے ۔ اگر اس خطہ میں کوئی طالبان کے خلاف آواز بلند کرتا تو اس کا سر کٹا ہوا پڑا ہوتا تھا۔ طالبان نے سماجی دھانجے اور روایات کو ختم کر دیا ہے، جس میں جرگہ کا نظام تھا، جہاں بزرگ مقامی مسائل کو حل کرتے تھے مگر اب لمبے بالوں والے طالبان دربار لگاتے ہیں جن کی عمریں بیس اور پچیس سال ہوتی ہے ۔ مرکزی ایشاء کے جہادیوں بشمول ازبک ، تاجک اور ادیغور(چینی) کی تعداد بڑھ گئی ہے، جبکہ ازبک پاکستانی طالبان سے ذیادہ تعلیم یافتہ ہیں جو میران شاہ کے انٹر نیٹ کیفوں میں وقت گزارتے تھے۔ شمالی وزیرستان میں امریکا نے ڈرون حملوں سے دہشت گردوں کی کمر توڑنے کی کوشش کی تھی اور اس کے سبب بڑی تنقید اور مخالفت بھی ہوئی تھی مگر 2014میں امریکا نے چار سے چھ ڈرون حملے کئے ۔حیرت کی بات تو یہ ہے کہ جو پناہ گزین بنوں یا دوسرے شہروں میں آئے ہیں پاکستانی جنگی جہازوں کی بمباری کی حمایت نہیں کرتے ہیں، کیونکہ پناہ گزینوں کا کہنا ہے کہ ڈرون کا نشانہ اَچوک ہوتا ہے ۔ ان حملوں سے لوگوں کو بھاگنا نہیں پڑتا مگر اب پاکستانی جنگی جہازوں کی بمباری کے خوف سے لوگ بھاگ رہے ہیں جبکہ بمباری میں سب سے ذیادہ نقصان شہریوں کا ہو رہا ہے ۔پاکستانی فوج کا وزیرستان میں جو کامیابی ملی ہے اس نے حکومت کو مذید حوصلہ دیا ہے ۔طالبان کے دہشت گردوں نے فوجی آپریشن کے قبل ہی بوریا بسترباندھ لیا تھا، کیونکہ اِنہیں اندازہ ہو گیا تھا کہ فوجی آپریشن کی نوعیت کیا ہو گی اور دائرہ کتنا وسیع ہو گا، پاکستانی فوج نے ہزاروں دہشت گرد مارنے کا دعویٰ کیا ہے اور اس بات کا دعویٰ کیا ہے کہ اب فوجی محاصرہ میں سے ایک بھی دہشت گرد بچ کر نہیں نکل سکے گا ، خواہ داڑھی صاف کروا لے یا بال کٹوا لے۔ نواز شریف کے بے خوف فیصلے اور فوج کے بڑے آپریشن کے لئے پاکستانی عوام کو بھرپور اور مکمل حمایت کرنی چاہیئے تاکہ پاکستان میں اس دہشت گردی سے چھٹکارا پایا جا سکے-
Syed Fawad Ali Shah
About the Author: Syed Fawad Ali Shah Read More Articles by Syed Fawad Ali Shah: 96 Articles with 80114 views i am a humble person... View More