اسرائیل اور غزہ کے درمیان جاری
حالیہ جنگ میں مجاہدین فلسطین کی جنگی و نفسیاتی حکمت عملی کو سمجھنے کیلئے
بہتر معلوم ہوتا ہے کہ اس کا موازنہ ۱۹۶۷ کی ۶ روزہ تیسری عرب اسرائیل جنگ
کیا جائے جس میں مصر کو عراق، اردن اور شام کی حمایت حاصل تھی اور اسرائیل
کی پشت پر امریکہ موجود تھا ۔ ۴۷ سال کا طویل عرصہ گزر جانے کے بعد بھی
امریکہ کی پشت پناہی اسرائیل کو بدستور حاصل ہے لیکن اس بارغزہ کے محصور
فلسطینی مجاہداپنی جنگ اللہ کے بھروسے خود اپنے بل بوتے پر لڑ رہے ہیں ۔
عراق ، اردن و شام کی مدد سے وہ یکسرمحروم ہیں ۔ مصر اسرائیل کا باجگذار
بنا ہوا ہے اور عرب ممالک میں اسے نئے حامی میسر آگئے ہیں۔ ماضی کی جنگ کل
۶ دنوں کے اندر ختم ہوگئی تھی جبکہ یہ مزاحمت تیسرے ہفتے میں داخل ہو گئی ،
مجاہدین اسلام ہنوز صبر و استقامت کے ساتھ محاذ پر ڈٹے ہو ئے ہیں۔ عالمی
دباؤ میں آکر سازش کے تحت پیش کردہ مصالحت کو مسترد کررہے ہیں ۔کسی بھی
جنگ کی غرض و غایت عام طور پر محض قتل و غارتگری نہیں ہوتی بلکہ جبرو
استبداد کا بازر گرم کرکےپوشیدہ حقیقی مقاصدکے حصول کی سعی کی جاتی ہے۔
اسرائیل کی موجودہ بربریت کے مندرجہ ذیل محرکات ہیں:
o نتن یاہو پر داخلی سیاسی دباؤ
o امریکی ناراضگی کو رضامندی میں بدلنا
o حماس کو کمزور اور یکہ و تنہا کردینا
o فلسطینی عوام کو خوفزدہ کرکےانہیں حماس سے برگشتہ کردینا
o فلسطین کے حالیہ سیاسی اتحاد کو منتشر کردینا
o پرانے امن معاہدے (۲۰۱۲) کو ایک نئے معاہدے سے بدل دینا
o حماس کی فوجی دستے کو بے اسلحہ کردینا
اس مہم سے قبل نتن یاہو کی مخلوط حکومت پردائیں بازو کے انتہا پسندوں کی
جانب سے زبردست دباؤ تھا اور وہ اپنی حمایت واپس لینے کی دھمکیاں دے رہی
تھے ۔ اس جنگ نے انہیں اس پر روک لگادی لیکن یہ ایک وقتی فائدہ ہے۔جنگ کے
ختم ہوجانے پر ممکن ہے نتن یاہو کا بھی وہی حشر ہو جو ۲۰۰۶ کی شکست کے بعد
یہود اولمرٹ کا ہوا تھا اس لئے کہ اس قدر بڑی تعداد میں صہیونی فوجیوں کا
مارا جانا اور زخمی ہونا اسرائیل کے ان بلند بانگ دعووں کی کی مٹی پلید
کرتا ہے کہ وہ دنیا کی چوتھی سب سے بڑی طاقت ہے۔ اس ہزیمت کی قیمت نتن یاہو
ضرور چکائے گا۔ شدید پابندیوں کے باوجود حماس کی زبردست فوجی تیاری ،سرنگیں
اور اسلحہ کا بڑا ذخیرہ اسرائیل کی خفیہ ایجنسیوں کی پیشانی پر کلنک سے کم
نہیں ہے ۔ جب جنگ کے بادل چھٹ جائیں گے تونتن یاہو کیلئے اس مجرمانہ غفلت
وناکامی کی توجیہ بے حد مشکل ہو جائیگی۔
امریکہ کے ساتھ اسرائیل کے تعلقات اس دوران عجیب نشیب و فراز کا شکار رہے ۔
تنازعہ سے قبل امریکہ اسرائیل سے ناراض تھا اس لئے کہ الفتح اور اسرائیل کے
درمیان ہونے والی گفتگو سے اسرائیل یکطرفہ طور پر عباس او رحماس کے اتحاد
کا بہانہ بنا کر الگ ہو گیا تھا لیکن جنگ کے دوران جب ساری دنیا نے اسرائیل
کا ساتھ چھوڑ دیا تو امریکہ نہایت بے حیائی کے ساتھ اس کا پشت پناہ بنا رہا
جس پر صہیونی بہت خوش ہوتے رہے لیکن پیرس کے اندر ترکی، قطر اور دیگر
یوروپی ممالک کے ساتھ بیٹھ کر جان کیری نے جو جنگ بندی کی جوپیشکش مرتب کی
اس پر اسرائیلی حکومت اور عوام دونوں نے مل کر جان کیری اور امریکہ کی خوب
مذمتّ کی۔ اس لئے کہ اول تواس گفتگو میں مصر کو شامل نہیں کیا گیا ۔ دوسرے
حماس کو ایک اہم فریق کی حیثیت سےتسلیم کرلیا گیا اور اس کے اسلحہ رکھنے کا
کوئی تذکرہ نہیں ہوا۔اس طرح گویا جہاں ابتدائی گرمجوشی کے بعد ان دونوں
ممالک کے تعلقات پھر سے سرد مہری کا شکار ہوگئے اور اپنے آقا کی خوشنودی
حاصل کرنے کی اسرائیلی سعی بار آور نہ ہو سکی ۔
ان دو مقاصد کے علاوہ تیسرا خطرناک مقصدذرائع ابلاغ کی مدد سے حماس کو دہشت
گرد قراردے کر اس کوعالمی سطح پر یکہ و تنہا کردیناتھا لیکن جس بربریت کا
مظاہرہ اسرائیل نے اس دوران کیا اس نے دنیا بھر کے انصاف پسند لوگوں اور
حکومتوں کو اس کی مذمت کرنے پر مجبور کردیا۔ ساری دنیا میں ہونے والے
احتجاج نے یوروپی حکومتوں پر اس قدر دباؤ ڈالا کہ ان کیلئے اقوام متحدہ کے
حقوقِ انسانی کمیشن میں اسرائیل کی حمایت کرنا مشکل ہوگیا اوروہ اسرائیل کا
ساتھ چھوڑ کر نکل کھڑے ہوئے۔ اسرائیل کے خلاف انسانی حقوق کی پامالی اور
جنگی جرائم کے ارتکاب والی قرارداد اتفاق رائے سے پاس ہوجاتی مگر امریکہ نے
گڑبڑ کردی۔ خوش قسمتی کمیشن میں کسی کو ویٹو کی طاقت میسر نہیں ہے وہ
قراداد کو منظور ہونے سے روک نہ سکا اور اسرائیل کے سبب خوداکیلا پڑ گیا۔
جنگ کی ابتداء میں ہونے والی بے دریغ بمباری کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ
فلسطینی عوام حماس سے برگشتہ ہو جائیں لیکن ہوا یہ کہ نہ صرف غزہ کے لوگ
بلکہ مغربی کنارے کے فلسطینیوں کی بھی زبردست حمایت حماس کو حاصل ہو گئی۔
مغربی کنارے کے اندر جس طرح کے مظاہرے اس بار دیکھنے میں آئے اس کی مثال
قریب کی تاریخ میں نہیں ملتی۔ اسرائیلی حکومت نے بوکھلاہٹ کا شکار ہوکروہاں
بھی طاقت کابیجا استعمال کرکے کئی مظاہرین کو شہید اور زخمی کردیا۔ صہیونی
حکومت یہ سوچ رہی تھی کہ اس کی بربریت سے خوف کھا کر فتح اپنے آپ کو حماس
سے الگ کرلے گی اور ان کے درمیان اتحاد میں دراڑ پڑ جائیگی لیکن اس کے
برعکس جب محمود عباس سے حماس کی جانب سے پیش کردہ جنگ بندی کی شرائط کے
متعلق دریافت کیا گیا تو انہوں نے کہا وہ صرف حماس کا نہیں بلکہ سارے
فلسطینیوں کا مطالبہ ہے۔ وزیراعظم حمداللہ رامی نے بھی اقوام متحدہ کے اندر
مصری جنگ بندی کی حمایت کرنے کے بجائے حماس کے موقف کو حق بجانب قرار دیتے
محاصرے کےخاتمہ پر اصرارکیا۔ یہ ساری پیش رفت اسرائیل کی توقعات کے خلاف
تھیں۔
مندرجہ بالا مقاصد کی نوعیت ضمنی اس مہم کا بنیادی ہدف ۲۰۱۲ کے اندر ہونے
والے امن معاہدے کی بلاواسطہ منسوخی ہے۔ ۲۰۱۲ کے اندر اسرائیل نے جب اس
طرح کی حرکت کی تو مصر کے اندر اسلام پسند ڈاکٹر محمد مورسی برسرِ اقتدار
تھے۔ انہوں نے فوراً اسرائیلی سفارتکار کو ملک سے نکال باہر کیا اور رضا
کاروں کی ایک کثیر جماعت کو وزیراعظم قندیل کی قیادت میں غزہ روانہ کردیا
جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ دیگر اسلامی ممالک کے رہنماؤں نے بھی غزہ کا رخ کیا
اور اسرائیل کو اپنی کارروائی بند کرنے پر مجبور ہونا پڑا لیکن اس سے قبل
حماس رہنما خالد مشعل قاہرہ آئے اور دونوں فریقوں کے درمیان دیرپا امن کا
ایک معاہدہ طے پایا۔ اس جنگ بندی کی روُ سے اسرائیل نے اپنے فوجی جلاد
شالیط کی رہائی کے عوض ۱۰۰۰ سے زیادہ فلسطینی قیدی رہا کئے۔ جن میں سے کئی
لوگوں کو اس جنگ سے قبل اسرائیلی حکومت نے تین شہریوں کے قتل کابہانہ بنا
کر گرفتار کرلیا یہ اسرائیل کی پہلی خلاف ورزی تھی۔
اس معاہدے کے تحت غزہ کا محاصرہ ختم کرنے پر اتفاق ہوا تھا ۔ڈاکٹر
محمدمورسی کی مصری حکومت نے رفاح کی سرحد کو کھول کر اپنا وعدہ نبھایا لیکن
السیسی نے اسے دوبارہ بند کرکے دوسرے عہد کو پامال کیا۔ اسرائیل نے سرے سے
اس معاہدے پر عملدرآمد کیا ہی نہیں تھا لیکن اس حوالے سے وہ وعدہ خلافی کا
مرتب تھا۔ جنگ کے ابتدائی دنوں میں خوب بمباری کرکے شدید تباہی و بربادی
مچانے کے بعدبدنامِ زمانہ ٹونی بلئیر نے اسرائیل کے اشارے پر ایک نیا جنگ
بندی کا معاہدہ لکھاجسے السیسی نےسعادتمند غلام کے طور پر پیش کردیا۔ اس
سازش کے اندر جنگ بندی کے پسِ پشت اسلحہ بردار مجاہدین کو ہتھیار سے محروم
کرنے کی تجویز بھی شامل تھی۔ حماس کی بیدار مغز قیادت نے اس جنگ بندی کی
سازش کو مسترد کردیا۔
حماس کے اس اقدام نے اسرائیل اور مصر کی بازی الٹ دی۔ اس زبردست رسوائی پر
پردہ ڈالنے کیلئے اسرائیل نے بری حملہ کرنے کا فیصلہ کیا لیکن انہیں نہیں
پتہ تھا کہ فلسطینی مجاہدین ان کامقابلہ کرنے کیلئے تیار بیٹھے ہیں۔ اس سے
قبل ۲۰۰۹ کے اندر اسرائیل نے اپنے ٹینک غزہ کے اندر روانہ کئے تھے۔ تین
ہفتہ کی اس مہم کے دوران جتنے یہودی فوجی ہلاک ہوئے تھے اس سے زیادہ
اسرائیلی فوجیوں کو مجاہدین نے دو دن کے اندر مار گرایا اور ایک کویرغمال
بناکر اپنے ساتھ لے گئے۔ اسرائیل نے بڑی مشکل سے اپنے فوجی کے قیدی بنائے
جانے کو تسلیم تو کیا لیکن یہ کہہ دیا کہ ممکن ہے وہ ہلاک ہو گیا ہو۔ اس
مرتبہ ابھی تک اسرائیل نے ۴۲ فوجیوں کی ہلاکت کو تسلیم کیا ہے جبکہ مجاہدین
کے مطابق یہ تعداد ۸۰ سے تجاوز کرتی ہے اور زخمی ہونے والے سیکڑوں ہیں۔
اس جنگ میں طاقت کا توازن بھی چونکانے والا ہے ۔ مغربی ذرائع کے مطابق غزہ
میں مجاہدین کی تعدادجملہ۱۰ ہزار ہے ان سے مقابلہ کرنے کیلئے ۵۰ ہزار فوجی
ٹینکوں کے اندر سوار ہو کر میدان میں اتارے گئے ہیں ۔ان پچاس ہزار کے سر پر
ہوائی دستے کا سایہ ہے جس سے حماس کے مجاہدین پوری طرح محروم ہیں۔ اسرائیلی
فوجیوں کے درمیان ۵ ہزار غیر ملکی دہشت گرد بھی شامل ہیں جس کا ثبوت دو
امریکی اور ایک ہندوستانی کی ہلاکت سے ملتا ہے۔ اس کے باوجود مجاہدین نے نہ
صرف ٹینک شکن میزائیلوں کا استعمال کر کے یہودی فوج کے چھکے چھڑا دئیے بلکہ
بارودی سرنگوں تک سے ان کے پر خچے اڑائے۔اس دوران اپنی بنائی ہوئی سرنگ سے
ہوکرمجاہدین اسلام اسرائیل کے اندربھی داخل ہوئے اورانہوں عام شہریوں کو
نشانہ نہیں بنایا بلکہ فوجیوں سے بھڑ گئے۔ اس مہم میں انہوں نے نہ صرف جام
شہادت نوش کیا بلکہ دشمن کے فوجیوں کو واصلِ جہنم بھی کیا ۔
اسرائیل کے ساتھ فلسطینی مجاہدین کی موجودہ جنگ کا موازنہ اگر ۱۹۶۷ کی جنگ
سے کیا جائے تو حیرت انگیز انکشافات ہوتے ہیں۔ ۱۹۶۷ میں یہ ہوا تھا کہ
جمال عبدالناصر کی قیادت میں لڑنے والی عرب افواج کے ۲۱ ہزار فوجی ہلاک، ۴۵
ہزار زخمی اور ۶ ہزار قیدی بنالئے گئے تھے جبکہ سرکاری اعداد و شمار کے
مطابق اسرائیل کے ۷۷۹ فوجی مارے گئے تھے، ۲۵۶۳ زخمی اور ۱۵ قیدی بنائے گئے
تھے۔ حالیہ جنگ میں گوکہ۱۰۰۰ سے زائد فلسطینیوں نے جامِ شہادت نوش کیا
ہےلیکن اس میں مجاہدین کی تعداد نہایت قلیل ہے ۔ اسرائیلیوں نے بیشتر نہتے
عوام ، خواتین اور بچوں کو اپنی بر بریت کا شکار بنایا ہے ۔ ہسپتال اور
پناہ گزین کیمپوں پر بمباری کی ہے۔ جون ۱۹۶۷کی جنگ میں شکست کے نتیجے میں
غزہ اور جزیرہ نمائے سینا کا ۲۴ ہزار مربع میل علاقہ اسرائیل کے قبضے میں
چلاگیا تھا لیکن اس بارابھی تک اسرائیلی بری فوجی غزہ کے اندر دو کلومیٹر
سے آگے نہیں بڑھ پائی ہے۔
حالیہ مزاحمت کی کامیابی کا اندازہ اس حقیقت سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ
۱۹۶۷ کی شکست کے سبب مصری فوج کی عزت خاک میں مل گئی تھی۔عوام فوجیوں کو
دیکھ کر فقرے چست کرنے لگے تھے اس بار پھر مصری حکمران اسی صورتحال سے
دوچار ہیں جبکہ مجاہدینِ فلسطین عالم اسلام کی آنکھوں کا تارہ بنے ہوئے ۔
حکمرانوں کے روئیے سے قطع نظرامت مسلمہ کے ہرفرد بشر کی آنکھ ان کیلئے
نمناک ہے اورہر دل ان کی کامیابی کیلئے دعا گو ہے۔ فلسطینیوں کو خوفزدہ
کرنےکے ارادے سے نکلنے والے اب خود اس جنجال سے جان چھڑانے کا راستہ تلاش
کررہے ہیں اوراس کی سب سے بڑی وجہ مجاہدین اسلام اور فلسطینی عوام کی قوت
ایمانی ہے جس نےانہیں وسیم بریلوی کے اس شعر کی مصداق بنا دیا ہے ؎
میں یہ نہیں کہتا کہ میرا سر نہ ملے گا
لیکن میری آنکھوں میں تجھے ڈر نہ ملے گا
یہ معجزہ کیوں کر رونما ہو گیا اس کا بہترین جواب خالقِ کائنات کے عظیم
ترین معجزے سے بہتر کون دے سکتا ہے ؟ سورۂ آل عمران میں ارشاد ربانی
ہے’’جن لوگوں نے زخم کھانے کے بعد بھی اللہ اور رسول کی پکار پر لبیک کہا
اُن میں جو اشخاص نیکوکار اور پرہیز گار ہیں اُن کے لیے بڑا اجر ہے‘‘۔یہ
آیت غزوۂ احد کے بعد نازل ہوئیں جس میں کل۶۵۰ مجاہدین اسلام میں سے ۷۰
یعنی دس فیصد سے زیادہ جلیل القدر صحابۂ کرام شہید ہو چکے تھے۔ امت مسلمہ
کا یہ ایک غیر معمولی نقصان تھا۔ ابوسفیان نے میدان جنگ سے واپس ہوتے ہوئے
چیلنج کیا تھا کہ ہم آئندہ سال بدر کے میدان میں ملیں گے لیکن جب ایک سال
کی مدت کے خاتمہ کا وقت آیا تو اس کے اندر ہمت نہیں تھی کہ مسلمانوں کے
مقابلے پر آئے۔اس لئے اس نے مسلمانوں کے اندر افواہیں پھیلا کر ان کا
حوصلہ پست کرنے کی کوشش کی۔ یہ باطل کا وہی پرانا حربہ ہے جسے آج بھی
ذرائع ابلاغ کے ذریعہ استعمال کیا جارہا ہے لیکن اہل ایمان پرا اس کا الٹا
اثر پڑتا ہے ارشادِ ربانی ہے ’’ اور وہ جن سے لوگوں نے کہا کہ، تمہارے خلاف
بڑی فوجیں جمع ہوئی ہیں، اُن سے ڈروتو یہ سن کر ان کا ایمان اور بڑھ گیا
اور اُنہوں نے جواب دیا کہ ہمارے لیے اللہ کافی ہے اور وہی بہترین کارساز
ہے‘‘اس طرح گویا اسلام دشمنوں کی اس حکمت عملی سے اہل ایمان کا حوصلہ۱۴۰۰
سو سال قبل بھی بلند ہواتھا اور آج بھی یہی ہورہاہے۔
اللہ کی مددو نصرت پر غیر معمولی توکل اور بھروسہ اہل ایمان کو دنیا جہان
کی ریشہ دوانیوں سے بے نیاز کردیتا ہے۔ دشمن کی طاقت اور دوستوں کی بے
وفائی ان کا کچھ بگاڑ نہیں پاتی ۔ وہ صرف اور صرف اللہ کے سہارے پیشقدمی
کرتے چلے جاتےہیں اور بالآخر کامیاب و کامران ہوکر لوٹتے ہیں۔ بدرِ اخریٰ
کی تاریخ گواہ ہے کہ جب ابوسفیان کو معلوم ہوا کہ دلیر و جری اہل ایمان
دوسری مرتبہ میدانِ بدر میں اس کو شکست کا مزہ چکھانے کیلئے مجتمع ہوچکے
ہیں تو وہ خود خوف و دہشت کا شکار ہو گیااور درمیان سے لوٹ گیا۔ مسلمان جنگ
کے بغیر فتحمند ہوئے ارشاد ربانی ہے ’’آخر کار وہ اللہ تعالیٰ کی نعمت اور
فضل کے ساتھ پلٹ آئے، ان کو کسی قسم کا ضرر بھی نہ پہنچا اور اللہ کی رضا
پر چلنے کا شرف بھی انہیں حاصل ہو گیا، اللہ بڑا فضل فرمانے والا ہے‘‘۔
اس واقعہ کے بعد اللہ رب العزت ایمان والوں کونصیحت فرماتے ہیں کہ’’اب
تمہیں معلوم ہو گیا کہ وہ دراصل شیطان تھا جو اپنے دوستوں سے خواہ مخواہ
ڈرا رہا تھا لہٰذا آئندہ تم انسانوں سے نہ ڈرنا، مجھ سے ڈرنا اگر تم حقیقت
میں صاحب ایمان ہو‘‘اسی کے ساتھ انہیں آگاہ کیا جاتا ہے کہ’’ جو لوگ آج
کفر کی راہ میں بڑی دوڑ دھوپ کر رہے ہیں ان کی سرگرمیاں تمہیں آزردہ نہ
کریں، یہ اللہ کا کچھ بھی نہ بگاڑ سکیں گے اللہ کا ارادہ یہ ہے کہ اُن کے
لیے آخرت میں کوئی حصہ نہ رکھے، اور بالآخر ان کو سخت سزا ملنے والی ہے‘‘
اس طرح اس دنیا کی کشمکش کو مالک الملک نے آخرت کے انجام سے جوڑ دیااور ان
مسلمانوں کو جو اس معرکہ ٔ حق و باطل میں طاغوت کے دست و بازو بنے ہوئے ہیں
تنبیہ کی ہےکہ ’’جو لوگ ایمان کو چھوڑ کر کفر کے خریدار بنے ہیں وہ یقیناً
اللہ کا کوئی نقصان نہیں کر رہے ہیں، اُن کے لیے درد ناک عذاب تیار ہے‘‘۔
مسلم دنیا کے بزدل حکمرانوں کیلئے دنیا کے اندراپنی اصلاح کا موقع موجود ہے
لیکن انہیں یاد رکھنا چاہئے کہ جب یہ مہلت عمل ختم ہو جائیگی تو اللہ کے
دردناک عذاب سے بچانے والا کوئی نہ ہوگا۔
اس سیاق و سباق میں حق باری تعالیٰ نےاپنی کتاب حکمت میں معرکہ ٔحق و باطل
کی دو وجوہات بیان فرمائی ہیں اول تو یہ کہ ’’ اللہ مومنوں کو اس حالت میں
ہرگز نہ رہنے دے گا جس میں تم اس وقت پائے جاتے ہو‘‘ اس لئے ہمیں بجا طور
پریہ امید رکھنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ اس کشمکش کے خاتمے پر امت کی حالتِ
مظلومیت کو غلبہ و سربلندی میں اسی طرح بدل دے گا جیسا کہ بدرِ اخریٰ کے
بعد ہوا تھا۔ دوسری حکمت یہ بیان کی گئی ہے کہ ’’ وہ پاک لوگوں کو ناپاک
لوگوں سے الگ کر کے رہے گا مگر اللہ کا یہ طریقہ نہیں ہے کہ تم کو غیب پر
مطلع کر دے غیب کی باتیں بتانے کے لیے تو وہ اپنے رسولوں میں جس
کو چاہتا ہے منتخب کر لیتا ہے لہٰذا (امور غیب کے بارے میں) اللہ اور اس کے
رسول پر ایمان رکھو اگر تم ایمان اور خدا ترسی کی روش پر چلو گے تو تم کو
بڑا اجر ملے گا‘‘۔اس آیت کی روشنی میں دیکھیں تو حالیہ کشمکش کے دوران جس
طرح باطل کے ہمنوا مسلم حکمراں بے نقاب ہوئے ایسا پہلے کبھی نہیں ہوا تھا۔
اقتدار کے نشے میں چورغفلت کا شکار ان لوگوں کے متعلق رب ذوالجلال ارشاد
فرماتا ہے کہ ’’یہ ڈھیل جو ہم انہیں دیے جاتے ہیں اس کو یہ کافر اپنے حق
میں بہتری نہ سمجھیں، ہم تو انہیں اس لیے ڈھیل دے رہے ہیں کہ یہ خوب بار
گناہ سمیٹ لیں، پھر اُن کے لیے سخت ذلیل کرنے والی سزا ہے‘‘۔ قرآن مجید کی
ان آیات میں ساری عالم ِ انسانیت کیلئے نشانِ عبرت ہے ۔ اب دیکھنا یہ ہے
کہ کون ان سے نصیحت حاصل کرتا ہے؟ |