ملک میں بڑھتی ہوئی کشیدگی....جمہوری سیاست بند گلی کی جانب گامزن؟

 ان دنوں ملک بے یقینی و انتشار کی جس خوفناک کیفیت میں مبتلا ہے، وہ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ حکومت اور دو ”انقلابیوں“ کے درمیان کشمکش بڑھتی جارہی ہے، تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان اور عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹر طاہر القادری ملک میں انقلاب لائے بغیر کسی کی بات ماننے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ ایک طرف تحریک انصاف کے رویے سے سیاسی تقسیم، افراتفری اور تشدد کے امکانات کو بڑھاوا مل رہا ہے۔ان کا کہنا ہے کہ ہم نواز شریف سے کوئی مذاکرات نہیں کریں گے، 14 اگست سے پہلے کوئی بات نہیں ہوگی۔ حکومت جو مرضی حربے استعمال کرلے 14اگست کو ہمارے کارکنوں کا سمندر اسلام آباد پہنچے گا، اسلام آباد پہنچ کر ہی اپنے آیندہ کے لائحہ عمل کا اعلان کریں گے۔ اگر مجھے کچھ ہوا تو کارکن شریف خاندان سے بدلہ لیں گے۔اگر جمہوریت ڈی ریل ہوئی تو ذمہ دار حکمران ہوں گے، نوازشریف کو ہر حال میں استعفا دینا ہوگا۔ حکومت اور تحریک انصاف کے درمیان مصالحتی کردار ادا کرنے والے امیر جماعت اسلامی سراج الحق کا کہنا ہے کہ تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے حکومت سے کسی بھی قسم کی بات کرنے سے انکار کرتے ہوئے ان سے ملاقات سے معذرت کرلی ہے۔ تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کی ملاقات قومی سلامتی اجلاس کے بعد امیر جماعت اسلامی سراج الحق کے ساتھ طے تھی، تاہم 3 سے زاید مرتبہ وقت کی تبدیلی کے باوجود ملاقات نہیں ہوسکی۔ جبکہ دوسری طرف پاکستانی نژاد کینیڈا کے شہری ڈاکٹر طاہرالقادری آگ بگولہ ہو کر نعرے لگارہے ہیں کہ ان کا انقلاب 14 اگست کے بعد تمام سیاسی نظام کو بھسم کردے گا اور پاکستان کا موجودہ سیاسی جمہوری نظام 30 اگست کا سورج نہیں دیکھے گا۔ ذرائع کے مطابق عوامی تحریک کے سربراہ انتہائی سخت رویہ اپناتے ہوئے اپنے کارکنوں کو پولیس کی وردیاں پھاڑنے کا حکم دے چکے ہیں، جس کے بعدہفتہ کے روز پنجاب بھر میں پولیس اور عوامی تحریک کے کارکنوں میں جنگ جاری رہی اور عوامی تحریک کے کارکنوں نے کئی تھانے اور پولیس گاڑیاں جلادیں اور کئی پولیس اہلکاروں کے بھی یرغمال بنا لیا۔ پولیس اور عوامی تحریک کے کارکنوں کے درمیان ہونے والے تصادم میں تقریباً ساڑھے پانچ سو افراد زخمی ہوئے، جن میں تقریباً تین سو پولیس اہلکار شامل ہیں۔ ملکی میں تصادم کی کیفیت کے پیش نظر یوم آزادی کے موقع پر اشتعالی صورتحال کے حوالے سے دونوں رہنماﺅں کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے شہریوں کی اکثریت نے تحریک انصاف کے آزادی لانگ مارچ کے لیے منتخب کیے گے وقت کو غلط، جبکہ طاہر القادری کے انقلاب پروگرام کو ڈراما قرار دیا ہے۔ پاکستان انٹرنل سیچویشن سینٹر آف ریسرچ (پیس کور ) کی جانب سے کیے جانے والے سروے میں ملک بھر میں مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے3281 افراد نے اپنی رائے کا اظہار کیا۔ 59 فیصد پاکستانیوں کا خیال ہے کہ عمران خان اور تحریک انصاف نے آزادی مارچ کے لیے غلط وقت کا انتخاب کیا ہے، 14 اگست یوم آزادی ہے اور یہ ایک ایسا دن ہے جب ہمیشہ پورا پاکستان یک جان ہوتا ہے، لیکن عمران خان کے لانگ مارچ کی وجہ سے اس دن کے باعث ملک میں پائی جانے والی یکجہتی خطرے میں پڑ سکتی ہے۔ دوسری جانب طاہر القادری کے انقلاب پروگرام کو 71 فیصد پاکستانیوں نے ملک کے خلاف سازش قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ موجودہ حالات میں طاہر القادری کا انقلاب پروگرام ملک کو صرف اور صرف افراتفری کی جانب ہی لے جا سکتا ہے، جس سے پاکستان بھی عرب ملکوں کی طرح خانہ جنگی کا شکار ہو سکتا اور طاہرالقادری کا انقلاب ملک کے حالات بدتر کردے گا، کیونکہ ان کے پاس انقلاب کا کوئی وژن نہیں ہے، جبکہ 16 فیصد پاکستانی طاہر القادری کو غیر سنجیدہ قرار دیتے ہوئے ان کے کسی بھی پروگرام پر بات کرنا ہی فضول قرار دیتے ہیں۔

ان حالات میں حکومت نے انگریزی محاورے کے مطابق ”گاجر اور ڈنڈا“ استعمال کرنے کی پالیسی بنائی۔ حکومت کی جانب سے عمران خان کو سیاسی طریقے سے جبکہ کینڈین شہری ڈاکٹر طاہر القادری کے ساتھ قانونی طریقے سے نمٹنے کی پالیسی طے کی۔ ایک طرف حکومت نے طاہر القادری کی کینڈین شہریت منسوخ کرانے کے لیے قانونی ماہرین کے تعاون سے کینڈا کی حکومت کو ایک ایسا خط لکھنے کی تیاری کی ہے، جس میں لکھا جائے گا کہ کینڈین شہری طاہر القادری پاکستان میں غیر آئینی اور غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث ہے، لہذا اس کی شہریت منسوخ کی جائے اور دوسری جانب حکومت نے طاہر القادری کو سبق سکھانے کے لیے عوامی تحریک کے ہاتھوں جاں بحق ہونے والے پولیس اہلکاروں کے قتل کا مقدمہ ڈاکٹر طاہر القادری کے خلاف درج کرلیا ہے۔جبکہ حکومت عمران خان کے ساتھ سیاسی طور پر نمٹنے کی کوشش میں ہے۔ حکومت کا کہنا ہے کہ ملک میں فساد پھیلانے کے لیے انقلاب کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ ذرائع کے مطابق حکومت نے معاملات کو سلجھانے کے لیے قانونی راستہ نکالنے کے لیے 10حلقوں میں دوبارہ گنتی کی پیشکش کی، جسے تحریک انصاف نے مسترد کردیا ہے۔ حکومت کا کہنا ہے کہ یوم آزادی پر محاذ آرائی سے بچنے کے لیے پیچھے ہٹنے کے لیے تیار ہیں، لیکن حالات و واقعات یہ بتا رہے ہیں کہ اس کے باوجود معاملات قابو میں آتے ہوئے نظر نہیں آرہے۔تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ بدقسمتی سے نوا ز شریف بطور وزیر ِ اعظم اس دانائی اور سیاسی بصیرت کا مظاہرہ کرنے میں ناکام رہے، جو ان سے اس مرتبہ، جبکہ وہ تیسری مدت کے لیے مسند ِ وزارت ِ اعظمیٰ پر فائزہیں، متوقع تھی، چنانچہ وہ آج مسائل کی بے پناہ دلدل میں گھرے دکھائی دیتے ہیں۔ اگر کچھ معاملات کی وجہ سے عسکری اداروں اور حکومت میں تناﺅ کا تاثر موجود نہ ہوتا تو عمران خان یا ڈاکٹر قادری کو اس طرح کی مہم جوئی کی جرات نہ ہوتی۔ نواز شریف نے قومی سلامتی کانفرنس کے عنوان سے دارلحکومت میں اپنے حلیفوں اور سیاسی حریفوں کے ساتھ ملاقات کر کے عمران خان اور طاہر القادری کوسمجھانے کی کوشش کی ہے کہ وہ ہوا کے بگولے سے اتر کر میز پر بیٹھ کر بات کرلیں۔ ملک میں اس وقت قومی سطح پر اتفاق ِ رائے پایا جاتا ہے کہ فوجی مداخلت کو کسی صورت قبول نہیں کیا جائے گا۔

مبصرین کے مطابق پاکستان میں بدقسمت جمہوریت کو کبھی فوجی ڈکٹیٹروں سے اور کبھی انقلابیوں سے خطرہ ہوتا ہے۔ ملک میں پہلی مرتبہ جمہوری حکومت نے اپنا دورِ اقتدار ختم کرنے کے بعد اقتدار منتخب ہونے والی اگلی جماعت کو منتقل کیا، مگر جمہوریت کی ریس میں پیچھے رہ جانے والوں کو یہ خوشگوار منتقلی ہضم نا ہوئی اور انھوں نے اس مظلوم جمہوریت کو ستانا شروع کردیا۔ باعث افسوس بات ہے کہ پاکستان میں جب بھی جمہوری طور پر منتخب شدہ حکومت اقتدر سنبھالتی ہے تو حکومت جانے کی چہ مگوئیاں شروع ہوجاتی ہیں۔ پیپلز پارٹی کی حکومت کے پانچ سالہ دور میں بھی متعدد بار ایسی صورتحال پیدا ہوتی رہی، لیکن زرداری صاحب سیاسی بصیرت اور انتہائی چلاکی و ہوشیاری کے ساتھ ان حالات سے نمٹتے رہے۔ موجودہ دور میںتحریک انصاف اور عوامی تحریک کی کوششوں سے جمہوریت کے ڈی ریل ہونے کے خدشات جنم لینے لگے۔ موجودہ حالات نواز لیگ میں حوصلے اور برداشت کا فقدان دکھائی دے رہا ہے۔ حکومت میں برداشت کی کمی اور واضح خوف نظر آرہا ہے۔اسی لیے اقتدار سنبھالنے کے بعد یہ پہلا موقع ہے جب حکومتی عہدیداروں کی جانب سے اپوزیشن جماعتوں سے کہا جارہا ہے کہ وہ عمران خان کے ساتھ لانگ مارچ کو رکوانے کے لیے مذاکرات میں اپنا کردار ادا کریں۔ موجودہ حالات و واقعات کو دیکھا جائے تو بظاہر مشکل لگتا ہے کہ کوئی بھی سیاسی جماعت عمران خان کو لانگ مارچ کرنے سے روک پائے گی، لیکن اگر خان صاحب کسی بھی جمہوری یا غیر جمہوری قوت کے کہنے پر لانگ مارچ ملتوی کرتے ہیں تو خان صاحب کی کیا سٹینڈنگ رہ جائیگی اور تحریک انصاف کے جیالے مستقبل میں خان صاحب کے کہنے پر کیوں سڑکوں پر آئیں گے؟ پہلے ہی انصافیے کے پی کی حکومت سے دلبرداشتہ نظر آرہے ہیں۔یہ بھی ممکن ہے خان صاحب لانگ مارچ اسلام آباد لے جانے میں کامیاب ہوجائیں، مگر وہاں جاکر کریں گے کیا!؟ کب تک تپتی گرمی اور برسات میں ”انقلابیوں“ کو لیے بیٹھے رہیں گے؟ مسئلہ یہ نہیں کہ تحریک انصاف کا لانگ مارچ کامیاب ہوتا ہے یا نہیں، بلکہ مسئلہ یہ ہے کہ حکومت اس لانگ مارچ کی وجہ سے پیدا ہونے والی صورتحال کو کیسے سنبھالتی ہے، کیونکہ خان صاحب اسلام آباد میں دس لاکھ جیالوں کو جمع کرنے کا کہہ چکے ہیں، لیکن وہ یہ بتانے سے قاصر ہیں کے دس لاک لوگوں کے ساتھ اسلام آباد دھرنا دینے کے بعد ان کا لائحہ عمل کیا ہوگا۔ حکومت ہٹانے کے لیے آئین پاکستان میں تمام طریقے موجود ہیں، ایسا کوئی بھی طریقہ نہیں جس کے لیے دس لاکھ لوگوں کا دھرنہ درکار ہو۔ تجزیہ کاروں کے مطابق تحریک انصاف کے لانگ مارچ سے جو حالات بنتے دکھائی دے رہے ہیں، وہ بالکل 1977 جیسے ہی ہیں۔ جب پی این اے نے بھٹو کو ہٹانے کے لیے تحریک چلائی تھی۔ تحریک تو بھٹو کو ہٹانے کے لیے تھی، مگر آ ضیا الحق گئے۔ جو گیارہ سال تک مسلط رہے۔ اس منظرنامے کے کسی بڑے تصادم کا پیش خیمہ بننے کے خدشات یکسر بے وزن نہیں ہیں۔ خدانخواستہ ایسا ہوا تو اس کے نتائج ملک کی بقا و سلامتی اور آئینی و جمہوری نظام کے وجود کے لیے جس قدر مہلک ثابت ہوسکتے ہیں، کسی بھی ہوشمند شخص کے لیے ان کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔ یہ بات قابل اطمینان ہے کہ ملک کی بیشتر بڑی سیاسی جماعتیں صورتحال کی سنگینی محسوس کرتی ہوئی اور معاملات کو اس انتہا تک جانے سے روکنے کے لیے کوشاں ہیں۔ ان حالات میں حکومت کے خلاف تحریک چلانے والوں اور خود حکومت کے ذمہ داروں کو بھی احتیاط کا دامن ہر صورت تھامے رکھنا چاہیے اور کسی بھی فریق کی جانب سے ایسا کوئی قدم نہیں اٹھایا جاناچاہیے جو ملک کی سلامتی کے لیے خطرہ اور آئینی نظام کی بساط لپیٹے جانے کا باعث بن سکتا ہو۔ تمام حلقوں اور فریقوں پر یہ ذمہ داری عاید ہوتی ہے کہ وہ ملکی سلامتی کے تقاضے بہرصورت مدنظر رکھیں اور سیاسی اختلافات کو ملک کے لیے خطرہ نہ بننے دیں۔
عابد محمود عزام
About the Author: عابد محمود عزام Read More Articles by عابد محمود عزام: 869 Articles with 701561 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.