پاکستان میں صحافیوں پر بھی مشکل
دن اور حالات آتے رہتے ہیں جب کوئی بھی خبر ہاتھ نہیں آتی اخبار بھرنا مشکل
ہو جاتا ہے کیونکہ چھ اورکبھی آٹھ دس صفحے بھرنا کوئی آسان کام نہیں ہوتا
اسی طرح بھکاریوں کے بھی اسی طرح برے دن کئی آتے ہوں گے جب دھیلے کی کمائی
نہیں ہوتی ہوگی ۔لیکن ایک گروہ ایسا ہے جس کے پاس اپنے آپ کو ہمیشہ مصروف
رکھنے بلکہ زندہ رکھنے کی بڑی آسانی ہے اوروہ ہے سیاست دان۔اس برادری کے
پاس مسائل کے حل تو کم ہیں، بہتر قانون سازی کے نسخے ندارد ہیں، قوم کو
درست سمت میں لے جانے کی صلاحیت ناپید ہے، لیکن کسی ایک نان ایشو کو ایشو
بنانے میں شاید سیاسی رہنماؤں نے پی ایچ ڈی کر رکھی ہے۔ اب تحریک انصاف کے
عمران خان کو ہی لے لیں عام انتخابات میں دھاندلی کا مسئلہ اگر انتخابی
ٹرائیبونل حل نہیں کر سکے، عدالتیں بے اثر ہیں اور انتخابی کمیشن بے بس تو
ایسے میں کیا عوام کو سڑکوں پر لا کر یہ مسئلہ ہمیشہ کے لیے حل کر لیا جائے
گا؟کیا آئندہ انتخابات کے سلسلے میں تحریک انصاف نے کوئی ہوم ورک کیا
ہے؟فرض کریں کہ وزیر اعظم نواز شریف کی کسی وجہ سے اپنے ذاتی یا جماعتی
فائدے کے بارے میں سوچنا بند کر دیتے ہیں اور آج مستعفی ہو کر نئے انتخابات
کا اعلان کرتے ہیں تو کیا ضمانت ہے کہ تازہ انتخابات پاک، خالص اور بے داغ
ہوں گے؟کیا اس کے لیے تحریک انصاف نے کوئی ہوم ورک کیا ہے؟ کیا اس کے ہاتھ
وہ جادوئی فارمولا ہاتھ لگ گیا ہے کہ جس سے تازہ انتخابات صحت مند ہوں
گے؟اگرچہ آج اِس سے انکار نہیں ہے کہ عمران خان کے چودہ اگست کے آزادی
وسونامی مارچ اور علامہ طاہر القادر ی کی انقلاب کی کال سے نوازشریف اوراِن
کے ساتھی سخت دباؤ میں ہیں جیسے جیسے چود ہ اگست کی تاریخ قریب آتی جارہی
ہے ویسے ویسے حکومت کی پریشانی بڑھتی ہی جارہی ہے،مگراِس کے باوجود بھی
نوازشریف اور اِن کے ساتھی نااْمیدنہیں ہوئے ہیں ،وزیراعظم نوازشریف نے
عمران خان سے پوچھاہے کہ اتناکچھ کرنے کے پیچھے عمران خان اپنا اصل
ایجنڈابھی تو قوم کو بتائیں یا یہ سب کچھ ہوایا خواب ہی میں کرنے کا ارادہ
کئے ہوئے ہیں مگرپھربھی ایسالگتاہے کہ جیسے نوازشریف اور حکومتی اراکین کا
ابھی یہ دعویٰ ہے کہ یہ عمران خان کو بہلاپھسلاکرایسی لولی پاپ دے دیں گے
کہ پی ٹی آئی کے چیئرمین اپنے چودہ اگست کے آزادی مارچ کے غبارے سے خود
اپنے ہی ہاتھوں سے ہوانکال دیں گے اور یہ نہ صرف ایساکریں گے بلکہ عمران
خان حکومت کے خلاف کہے ہوئے اپنے وہ سارے الفاظ بھی واپس لے لیں گے جو ایک
ماہ سے یہ نوازشریف اور حکومت کے خلاف استعمال کر تے رہے ہیں کیوں کہ آج
حکومتی اراکین اور وزیراعظم نوازشریف کو اِس بات کا پوراپورایقین ہے کہ یہ
سب مل کر اپنی چاپلوسیوں اور بول بچن سے عمران خان سے ہونے والی ملاقات میں
عمران خان کے14اگست کے سو نامی مارچ کے زورکو کمزروکرنے میں کامیاب ہوجائیں
گے اور اِس طرح عمران خان کا آزادی مارچ کے لئے شروع کیاجانے والا سونامی
مارچ دم توڑکر تبدیلی کے اْس اندھیرے کنوئیں کی نظرہوجائے گاجس کا کبھی بھی
کوئی تذکرہ بھی نہیں کرے گاسب کچھ ایک خواب بن جائے گا دیکھتے ہیں کہ
ایساہوتاہے جیساکہ حکومتی اراکین سوچ رہے ہیں یا ویساہوتاہے جیساکہ مسٹرخان
چاہتے ہیں جوبھی ہو گادیکھا جائے گا چودہ اگست کے آزادی مارچ کی کامیابی سے
متعلق عمران خان کے بلند وبانگ دعوؤں اوراِس پر وزیراعظم نوازشریف اور
حکومتی اراکین کے دباؤ میں آنے کے بعد نوازشریف کے خاص ٹاسک پر حکومتی
اراکین کی عمران خان سے جاری ملاقاتوں کے سلسلے سے آئندہ دِنوں میں آنے
والے نتائج کو دیکھتے ہوئے لگتا ہے کہ اگر عمران مطالبات سے پیچھے ہٹے تو
تحریک انصاف ختم ہوجائے گی یہ وہ خدشات ہیں جو ہرپی ٹی آئی کے رکن کے ذہن
میں چھائے ہوئے ہیں اب جبکہ جب عمران خان اپنے چودہ اگست کے آزادی مارچ کو
حتمی شکل دے چکے ہیں تووہیں حکومتی اراکین بھی عمران خان کو اِن کے راستے
سے بھٹکانے اور ہٹانے کے لئے یہ راستہ دکھارہے ہیں کہ پارلیمنٹ ہی وہ
واحدجگہ ہے جہاں سے تبدیلی لائی جاسکتی ہے سوعمران خان کو بھی چاہئے کہ وہ
اپنی تبدیلی کو لانے کے لئے پارلیمنٹ کا سہارالیں اور وہ اِس طرح جتنی بھی
تبدیلی لاناچاہیں لاسکتے ہیں لیکن عمران خان کی پیٹ تھپکانے والے بھی جانتے
ہیں کہ یہی وہ موقع ہے جب وہ اپنے ارادوں میں کامیاب ہو سکتے ہیں دوسری
صورت میں شاید انھیں کئی سال انتظار کی سولی پر چڑھنا پڑ جائے اورایسا موقع
شاید پھرکھبی نہ آ سکے۔خان صاحب کے اس مارچ سے جس طرح حکومتی صفوں میں ہلچل
مچی ہوئی ہے اس سے تو یہی لگتاہے کہ کچھ ہونے والا ہے مگرہر پاکستانی چاہے
اسکاتعلق کسی بھی سیاسی جماعت سے کیوں نہ ہو یہی کہتا نظرآتا ہے کہ :دیکھتے
ہیں کیا ہوتا ہے: |