اے اللہ پاک ”یوم آزادی “ کو “ یوم بربادی “ بننے سے بچا !
(Imran Changezi, Karachi)
یہ میرا پاکستان ہے‘ یہ آپ کا
پاکستان ہے ‘ یہ ہم سب کا پاکستان ہے۔ اس کی چھاتی پر رواں دواں دریا‘ اس
کی آغوش سے پھوٹتی رحمتوں کے سلسلے‘ اس کے آنگن میں رقص کرتی ندیاں‘ اس کے
پہاڑوں میں اچھلتے کودتے چشمے‘ اس کے میدانوں میں شاداں و فرہاں پری رو
درخت ‘زیب بدن سبزے ‘ نوررنگ پھول ‘پھیلتی سمٹتی روشنیاں‘رشک مرجاں شبنمی
قطرے‘ لہلہاتی فصلیں‘ مسکراتے چمن‘ جہاں تاب بہاریں اور گل پرور موسم اس کی
عظمت کے گیت گا رہے ہیں۔اس کے فضاؤں پر جھکے جھکے آفاق‘ اس کی سرحدوںِپر
پھیلی پھیلی فضائیں‘ اس کے بام و تخت کے بوسہ لیتے آسمان اس کے حسن تقدیر
کے نقوش بن کر ابھر رہے ہیں۔
یہ ہماراملک بھی ہے۔ یہ ہماری تقدیر بھی ہے۔یہ ہماری داستان بھی ہے۔ یہ
ہماراارمان بھی ہے۔ یہ مچلتی آرزو بھی ہے۔ یہ آرزوؤں کا آستاں بھی ہے۔
ہمارے خون کے قطروں میں لکھت میں وہ عزم و حوصلہ نہیں جو اس کے آبی قطروں
میں ہے۔ہمارے دیدہ وچشم کی جھیلوں میں وہ جمال نہیں جو رومان و حسن اس کے
جوہڑوں اور تالابوں میں ہے۔ ہمارے وجود کی مٹی میں وہ دلکشی نہیں جو جاذب
نظر اور دلفریبی اس کی خاک میں ہے۔ یہ پھولوں کی دھرتی ہے۔ یہ خوشبوؤں کا
مسکن ہے۔ یہ نظاروں کا دیس ہے۔ یہ رحمتوں کی جولانگاہ ہے۔ یہ روشنیوں کا
کشور ہے۔ یہ اجالوں کا مصدر ہے۔ اس پر نثار ہمارے دل وجاں۔اس پر تصدق ہمارے
جز ہائے بدن۔
یہ محض ہماراملک نہیں میرا ایماں بھی ہے۔ میری جاں بھی ہے۔
آپ کے احساس کا تو پتا نہیں البتہ اس کے دکھ مجھے دکھ دیتے ہیں۔ اس کے سینے
سے اٹھنے والے مسائل کے ہوکے میرے دل میں چھبنے والی سوئیاں ثابت ہوتے ہیں۔
اس کی طرف کوئی ٹیڑھی نظر سے دیکھے تو گویا وہ آنکھ نہیں‘ میرے جسم میں
پیوست ہونے والا تیر ہوتا ہے۔
تاک تاک کر مارے جانے والے تیروں سے آج میرا بدن چھلنی اور روح بری طرح
گھائل ہے کیونکہ آج پاکستان کا 68واں یوم آزادی ہے ایک ایسا دن جو تحریک ‘
تشکر ‘ عزم ‘ ایقان ‘ جشن اور عہد وفا سے ماخوذ ہے جو تقاضہ کرتا ہے کہ ہم
رب کی اس عظیم نعمت پر اس کے حضور سر بسجود ہوکر اس کا تشکر بجا لائیں اور
اپنے وطن عزیز یعنی پاکستان کی تا قیامت سلامتی و ترقی کے یقین کے ساتھ اس
کی آزادی کا جشن مناتے ہوئے اسے مزید مستحکم ‘ مضبوط اور ترقی یافتہ سلطنت
بنانے کیلئے اپنے دیانتدارانہ ‘ فرض شناس اور ذمہ دارانہ کردار کی فعال
ادائیگی کے عزم کے ساتھ اس بات کا عہد کریں کہ ہم ذاتی مفادات پر قومی
مفادات کو ترجیح دیتے ہوئے اتحاد و اخوت کے ذریعے تعصب و لسانیت کے ساتھ
گروہ پرستی ومنافرت کی روایت کا خاتمہ کرکے ”یگانگت “ کو فروغ دیں گے تاکہ
اتحاد کی قوت کے سہارے نہ صرف پاکستان ترقی وخوشحالی کی کہکشاں کی جانب
گامزن ہو بلکہ اللہ کی اس نعمت کا بھی تحفظ ممکن ہوجسے ” آزادی “ کہا جاتا
ہے ۔
آزادی کیسی نعمت ہے ؟
ہم شاید اس احساس سے واقف نہیں ‘ اس کا احسا س تو صرف ان اقوام کو ہی
ہوسکتا ہے جو آزادی کیلئے مجتہد ہیں اور جابر قوتوں کے مظالم سہتے ہوئے
آزادی کے حصول کیلئے قربانیوں کی عظیم و لازوال تاریخ رقم کررہی ہیں ۔
آزادی کی نعمت کی قیمت کوئی کشمیر کے عوام سے پوچھے ‘ آزادی کی اہمیت کوئی
غزہ میں معصوم بچوں کے چیتھڑے بنے نعشے اٹھانے والوں سے پوچھے !
ہمیں کیا معلوم ‘ آزادی کیا ہے ؟
آزاد ملک میں آزاد شہری کی حیثیت سے پیدا ہونے والے پاکستانیوں کوکیا معلوم
کہ غلامی کی تکلیف و تذلیل کیا ہوتی ہے ؟
سوکبھی استحصال کے نام پر ‘ کبھی آمریت کے کیخلاف جدوجہد کے عنوان سے ‘کبھی
جمہوریت کی آڑ میں ‘ کبھی انقلاب کی صداؤں کے سہارے اور کبھی تبدیلی کا
خواب دکھاکر اس ملک وقوم کی آزادی کوغلامی میں بدلنے کی سازش کیخلاف عوام
نے کبھی کوئی کردار ادا کرنے کی بجائے ہمیشہ ایسی تحریکوں ‘ سازشوں اور
کوششوں کی ہمنوائی وپذیرائی کی ہے ۔
آزادی کو ہمیشہ غلامی سے تعبیر کیا !
کبھی فوج کو آمر کہہ کر عوام کو فوج کا غلام قرار دیا گیا !
کبھی ملک و قوم کو جاگیردارانہ نظام کا اسیر کہا گیا !
کبھی نظام کو استحصالی قرار دیکر عوام کو سسٹم کا غلام گردانا گیا!
کبھی عدالتوں کو مورد الزام ٹہرایا گیا تو کبھی حکمران اس الزام کی زد میں
آئے !کبھی الیکشن کمیشن پر دھاندلی کا الزام لگا تو کبھی آرمی چیف یا آئی
ایس آئی چیف کے کردار پر کیچڑ اچھالی گئی اور قوم کو ہمیشہ ہر ایک نے اپنے
مفاد کیلئے یہ باور کرایا کہ آزاد پاکستان میں رہنے کے باوجود پاکستان کے
عوام آزاد نہیں بلکہ استحصال ‘اقربا پروری ‘ جاگیرادارنہ نظام ‘ سرمایہ
دارانہ نظام ‘ جمہوریت ‘آمریت ‘ مخصوص خاندانوں ‘ کرپشن ‘ کمیشن
‘سیاستدانوں ‘ حکمرانوں کے غلام ہیں ۔
کبھی اقتدار پانے کیلئے عوام کو حکومت کیخلاف اکسایا گیا تو کبھی اقتدار
بچانے کیلئے ریاستی جبر آزمایا گیا اور آج بھی کچھ ایسا ہی ہورہا ہے ایک
طبقہ عوامی ناآسودگی ‘ قومی مسائل ‘ قوم کے مصائب اور دگرگوںملکی حالات کا
ذمہ دار موجودہ حکمرانوں اور اس کی پالےسیوں کو قرار دیکر اس کیخلاف انقلاب
کی تحریک چلارہا ہے تو دوسرا طبقہ انتخابی دھاندلیوں کیخلاف دارالخلافہ کا
گھیراؤ کرنا چاہتا ہے اور حکمران جو جمہوریت کے نام پر اقتدار میں آئے ہیں
جمہوری رویئے کے مطابق مخالفین کو پر امن احتجاج کا حق دینے کی بجائے
ریاستی جبر کے ذریعے مخالفین کو کچلنے کے آمرانہ رویئے و کردار کا مظاہرہ
کررہے ہیں اور یہ سب کچھ ایک ایسے وقت اور دن ہورہا ہے جو ہماری آزادی ‘
آزادی کے تشکر اور آزادی سے محبت و احترام کے ساتھ اس کی حفاظت کے عہد کی
تجدیدکا دن ہے مگر افسوس کہ پاکستان کے قدرتی وسائل اور قومی خزانے پر قابض
اور عوام پرحق حکمرانی رکھنے والوں اور اس حق کیلئے حصول کیلئے” بیقراروں“
کے درمیان جاری جنگ کے فیصلہ کن معرکہ کیلئے ناعاقبت اندیش طالب اقتداروں
نے آزادی کا دن منتخب کیا ہے اور اقتدار پرستوں نے طالب اقتداروں کے اس
چیلنج کو قبول کرتے ہوئے جو تیاریاں کی ہیں وہ قوم کیلئے کسی بھی خطرناک
عذاب سے کم نہیں کیونکہ انقلاب کے داعی کے یوم شہدا کو ناکام بنانے کیلئے
کئے گئے حکومتی اقدامات نے لاہور کی شہریوں کو جس بد ترین عذاب سے دوچار
کیا اس کے بعد لاہور والوں کے دلوں میں جمہور اور جمہوری حکمرانوں سے بد
ترین نفرت پیدا ہوچکی ہے جبکہ انقلاب کے داعی کی طرب انگیز تقریر سے قائم
ہونے والے انقلابی تاثر کو خود ان کی قلابازیوں نے زائل کرکے میدان پھر سے
حکومت کیلئے ہی ہموارکردیا ہے اس لئے لاہور تو شہر انقلاب کی سند کے حصول
سے محروم ہوچکا ہے جو یقینا لاہور کی خوش نصیبی ہی ہے کیونکہ انقلاب کیخلاف
حکومتی اقدمات اور انقلابیوں کے درمیان تصادم ہوتا تو لاہور بھر میں صف
ماتم بچھ جانے لاہور کے شہریوں کی جان و مال کا خطرہ و خدشہ بہر صورت
انتائی درجہ بڑھ جاتا جس کی نہ تو انقلابیوں کو کوئی پرواہ تھی نہ حکمرانوں
کو اس سے کوئی غرض !
ایسی ہی صورتحال اب لاہور کے بعد پاکستان کے دارالخلافہ یعنی اسلام آباد
میں بھی پیدا ہوچکی ہے جہاں حکمرانوں نے انتہائی گہری چال چلتے ہوئے آرٹیکل
245کے تحت فوج طلب اور شہر کی سیکورٹی کی ذمہ داری فوج کے حوالے کرکے
مخالفین کو بھگانے ‘ دبانے اور تبدیلی کے خواہشمندوں کا مارچ ناکام بنانے
کی ذمہ داری فوج کے حوالے کردی ہے یا دوسرے لفظوں میں ملک و قوم کی حفاظت
کے ذمہ داروں کو حکومت کی حفاظت کا فریضہ دیکر انہیں عوام کے سامنے لاکھڑا
کیا ہے تاکہ عوام مارے جائیں تو فوج پر الزام آئے اور حکومت چلی جائے تو
بھی فوج ہی ذمہ دار و خطاوار ٹہرائی جائے جس کے بعد آج یعنی 14ا گست یوم
آزادی کے دن حکمرانوں ‘ انقلابیوں اور تبدیلی کے چاہنے والوں نے صرف
جمہوریت ‘ حکومت ‘ ملک اور قوم کا مستقبل ہی دا ¶ پر نہیں لگایا ہے بلکہ
فوج کی ساکھ کوبھی سولی پر لٹکادیا ہے اور اسلام آباد آج کے دن 1971ءکے اس”
لمحہ“ پر آن ٹہرا ہے جس کے حوالے سے مشرقی پاکستان میں عوام پر مظالم کے
فوج پر لگائے جانے والے الزامات کی بازگشت آج تک سنائی دیتی ہے اور اگر
خدانخوانستہ فوج بحرانی کیفیت سے خوش اسلوبی سے عہدہ بر آہوتے ہوئے حکومتی
مفادات کے تحفظ کے ساتھ قومی مفادات کی حفاظت اور عوام و سیاسی جماعتوں کے
جمہوری حق کے تحفظ کے درمیان مساوات قائم رکھنے میں ناکام ہوگئی اور کسی
بھی قسم کا کوئی دردناک و الم انگیز سانحہ رونما ہوگیا تو مستقبل میںجشن
آزادی منانے کی روایت معدوم ہوجانے کا خطرہ بہر حال موجود ہے اسلئے زمین و
آسمان اور دوجہانوں کے خالق خدائے بزرگ و برتر سے عاجزانہ دعا ہے کہ وہ قوم
پاکستان کو عطا کی گئی اپنی اس نعمت عظیم کی حفاظت فرمائے اور ان تمام
خطرات و خدشات کو باطل بنادے جو عوام کے ذہنوں میں ہیں یا جن کا اظہار
میڈیا پر تسلسل سے کیا جارہا ہے اور ملک و قوم کو اِن حالات سے دوچار کرنے
والے ناعاقبت اندیش حکمرانوں ‘ انقلابیوں اور تبدیلیوں کے خواہشمندوں کو
عقل سلیم عطا کرنے کے ساتھ ان کے قلب میں حب الوطنی کی تحریک پیدا کرکے ملک
وقوم سے محبت اور ذاتی مفادات کی بجائے قومی مفادات کیلئے مجتہد ہونے اور
قوم کو انتشار کی بجائے اتحاد کی لڑی میں پرونے کی سعادت سے نوازے اور آج
کے دن کو پاکستان کی عوام کیلئے تعصب ‘ لسانیت ‘ نفرت ‘ انتشار ‘اختلافات ‘
دہشتگردی ‘ بدامنی ‘مسائل ‘ مصائب ‘ بحرانوں ‘مستقبل کے خوف ‘ مایوسی
‘نامرادی ‘ ظلم ‘استحصال ‘کرپشن ‘ کمیشن ‘ غربت ‘ جہالت‘ مہنگائی
‘بیروزگاری اور جرائم سے نجات و آزادی کا دن بنادے تاکہ یہ قوم ہر سال اپنا
یوم آزادی پہلے سے زیادہ جوش و ولولے اور عزم و عقیدت سے مناکرتا قیامت رب
ذوالجلال کی اس عظیم نعمت یعنی پاکستان و آزادی کا شکر ادا کرتی رہے ۔ |
|