حب الوطنی (ایک تقریر)
نحمدُہ و نصلی علیٰ رسولہِ الکریم اما بعد: صاحبِ صدر اور میرے کاروانِ علم
وادب کے ہم سفرو! السلامُ علیکم:
اے وطن تجھ سے نیا عہدِ وفا کرتے ہیں
مال کیا چیز ہے ہم جان فدا کرتے ہیں
وطن سے محبت ایک فطری، بدیہی اور خون میں رچی بسی چیز ہے۔ وطن فقط ایک خطہ
زمین کا نام نہیں بلکہ ان عقائد و نظریات کا نام ہے جو کسی قوم کو نظریے کی
طاقت سے مسلّح کرتے ہیں۔ اگر وطن صرف خطہء زمین کا نام ہوتا تو کیا ضرورت
تھی قیامِ پاکستان کی اور اس کے لیے لاکھوں جانوں اور لاکھوں عزتوں کی
قربانی دینے کی؟ معلوم ہوا کہ حبّ الوطنی زمین کے ایک ٹکڑے سے محبت کرنے کے
ساتھ ساتھ ان پختہ عقائد و نظریات سے محبت ہے جو حب الوطنی کے حقیقی جزائے
ترکیبی ہیں۔ حب الوطنی نظریہ پاکستان ہی کے عناصرِ ترکیبی سے وجود میں آنے
والی فطری طاقت ہے جو قوم کو ایک سمت عطا کرتی ہے اور اسے زنجیر کی کڑیوں
کی طرح باہم پیوستہ کرتی ہے۔ حب الوطنی اور نظریہ پاکستان ایک ہی کوکھ سے
جنم لینے والے دو الفاظ ہیں جن کی بنیاد لا الہ الا اللہ محمد الرسولُ اللہ
ہے۔ اسے نظر انداز کر کے نہ حب الوطنی کا بوٹا ہرا رہ سکتا ہے اور نہ ہی
نظریہ پاکستان کے جثّے میں جان باقی رہتی ہے۔ اگر کسی قوم کے افراد حب
الوطنی کے جذبے سے عاری رہیں گے تو اس قوم کا شیرازہ بکھرنا یقینی ٹھہرتا
ہے۔ زبان و بیان اور رنگ و نسل کے بتوں کی پرورش پھر صوبوں اور قبائل کے
درمیان زنجیر کی کڑیوں کو توڑ دیتی ہے۔ اسی لیے حکیم الامّت علامہ اقبال
ارشاد فرماتے ہیں کہ
بتانِ رنگ و خوں کو توڑ کر ملّت میں گم ہو جا
نہ تورانی رہے باقی نہ ایرانی نہ افغانی
صدرِ ذی وقار! کیا آج اسی جذبہ حب الوطنی اور نظریہ پاکستان کی حقیقی روح
کو بیدار کرنے کی ضرورت نہیں ہے؟ آج نفرتوں کو ہوا دینے والے ان مرکز گریز
نظریات کی بیخ کنی کرنے کا وقت نہیں آگیا ہے؟ کیوں شہر شہر ، قریہ قریہ
اپنے ہی لوگ اپنے ہی لوگوں کے سامنے ہتھیار اٹھا رہے ہیں؟ ایک قرآن اور ایک
رسول رکھنے والی قوم کیوں ایک دوسرے کی جان کی دشمن بنی ہوئی ہے۔ وطنِ عزیز
کے گلی کوچوں میں کیوں خون بہہ رہا ہے؟ حب الوطنی اور نظریہ پاکستان کے
خرمنِ میں کیوں آگ کے شعلے بھڑک رہے ہیں؟ آگ کس نے لگائی اور کون جل رہا ہے؟
یہ اور اس طرح کے بہت سے سوالات میرے دل و دماغ کے نہاں خانے میں تلاطم خیز
موجوں کا روپ دھار رہے ہیں۔ میرے گرم گرم خون کو اور تپا رہے ہیں۔ مجھے
میرے سوالوں کا جواب کیوں نہیں ملتا؟ کہاں گئے ہیں حب الوطنی اور نظریہ
پاکستان کی سوغات کو گلی گلی کوچے کوچے بانٹنے والے؟ اگر سب لوگ حالات کے
زخموں سے چور ہو کر دبک گئے ہیں تو میں اس سوغات کو لے کر آیا ہوں۔ ان سوئے
ہوئے جذبوں کی سوغات جو ایک بار پھر بیدار ہو کر آپ کے سامنے کھڑی ہے۔ اپنے
جسم کی شریانوں اور وریدوں میں اس سوغات کو شامل کر لو۔ اپنے دماغ کے خلیات
اور اعضاء و جوارح کی نس نس میں انہیں بسا لو تو یقین جانو حب الوطنی کا
پودا پھر سے سر سبز و شاداب ہو جائے گا۔ نفرتوں تو پھر پیار مل جائے گا۔
ہاں ہاں میں لایا ہوں یہ سوغات۔ آؤ میرے ہم نوا اور ہم سفر بن جاؤ کیونکہ
ہم بدلتے ہیں رُخ ہواؤں کا
آئے دنیا ہمارے ساتھ چلے
صدرِ عالی مرتبت! کون محبِ وطن ہیں اور کون وطن کی جڑوں کو کھوکھلا کر رہے
ہیں؟ ان افراد کی پہچان اب قوم کے ہر بچے ہر بوڑھے اور ہر جوان کو کرنا ہے۔
کیا اب وقت نہیں آگیا ہے کہ وطنِ عزیز کے بچے بچے کو غیر ملکی قرضوں کے
بوجھ تلے دبانے والوں کی نام نہاد حب الوطنی کا پردہ چاک کیا جائے؟ غیروں
کی امداد کے سہارے اپنی قوم کو بھکاری بنانے والے ملک دشمن ہیں یا محبِ وطن
ہیں؟ اہالیانِ وطن کی عزتِ نفس کا جنازہ لمبی لمبی قطاروں میں کھڑا کر کے
نکالنے والے والے محبِ وطن ہیں یا وطن فروش؟ وطن، عزیز کو طبقاتی تفریق کے
گہرے گڑھے میں گرانے والے محبِ وطن ہیں یا غیر ملکی طاقتوں کے آلہ کار ؟
ہماری قومی زبان جو ملی اور قومی وحدت کی علامت ہے اسے نصاب سے نکالنے اور
اس کی عملداری کم کرنے والے کس طرح محبِ وطن ہو سکتے ہیں؟ مرکز مائل قوتوں
کو مرکز گریز قوتوں کے نیچے دبانے والے کیسے محبِ وطن ہو سکتے ہیں؟ ملک پر
ڈرون حملے ہوتے دیکھ کر اپنے ہونٹوں پر مجرمانہ خاموشی کا قُفل چڑھانے والے
کب تک حب الوطنی کے زرق برق لباس میں ملبوس دھوکہ دینے میں کامیاب ہوتے
رہیں گے؟ انہیں سوالوں کا جواب اگر ہم تلاش کرلیں تو حب الوطنی کے مضبوط
اور طاقتور بندھن میں قوم پھر سے بندھ کر ناقابلِ تسخیر بن جائے گی۔ جاتے
جاتے میری ایک بات سُنتے جائیے۔ وہ یہ کہ وطنِ عزیز کا ہر فرد محب، وطن ہے
سوائے چند خاندانوں کے۔ وہ خاندان جو انگریز کے وفادار تھے، وفادار ہیں اور
وفادار رہنے کے لیے ایڑھی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں۔ ان کی جاگیریں انگریز
کے جوتے چاٹنے کے عوض ملی ہیں۔ وطنِ عزیز کے سب محبِ وطن لوگوں کو چاہیے کہ
ان کے ہاتھ سے زمامِ اقتدار چھین کر نیک اور ملک و وقوم کے وفادار لوگوں کے
ہاتھ میں دے دیں تو اس ملک کی طرف کوئی میلی آنکھ سے نہیں دیکھ سکتا۔ یہی
پیغام ہے میرا اور میرے جیسے ہر محبِ وطن کا سترہ کروڑ عوام کے نام۔ |