کچھ تو دال میں کالا ہے

مشرف غاصب تھا.....کچھ تو دال میں کالا ہے وزیراعظم بھی بول پڑے
پاکستان میں انوکھے انکشافات اور فرینڈلی اپوزیشن کی سیاسی پیترے بازیاں
کیا واقعی چند دنوں میں پاکستان میں اہم تبدیلیاں رونما ہوگئیں؟

ویسے تو آج چھٹی کا دن ہے اور آج کے ڈھیر سارے اخبارات اپنی تمامتر بڑی چھوٹی اور تازہ ترین خبروں کی سرخیوں کی رعنائیوں کے ساتھ میری میز پر اپنا اپنا منہ پھاڑے اور اپنے صفحات بکھیرے اپنے چاروں خانے چت کئے پڑے ہیں اور ہر اخبار کی خبرایسی چلبلی اور طراحدار ہے کہ وہ میری توجہ اپنی جانب ترجیحی بنیادوں پر مبذول کرانے پر یوں تلی بیٹھی ہے کہ جیسے وہ ہی میرے آج کے کالم کا موضوع بننا چاہتی ہے مگر میں کیا کروں کہ انصاف کا تقاضہ تو یہ ہے کہ میں کسی ایک خبر پر لکھنے کے بجائے کئی خبروں پر آج کا اپنا کالم تحریر کرنا زیادہ پسند کروں گا تاکہ زیر نظر ہر اخبار اور اُس کی خبر کا حق بھی ادا ہوسکے تو وہیں میں کم سے کم وقت میں زیادہ سے زیادہ موضوع کو اپنے قلم کی زد میں لاسکوں۔

بہرحال ! تو سب سے پہلے ہم اِس خبر کو لیکر چلتے ہیں کہ جس میں ہمارے ملک کے سید زادے وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی نے ملتان میں پریس کانفرنس اور کراچی میں فیڈریشن آف پاکستان چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹریز کے زیراہتمام گورنر ہاؤس میں 33ویں ایکسپورٹ پرفارمنس ایوارڈ کی تقریب سے بحیثیت مہمان خصوصی خطاب کرتے ہوئے انہوں نے حسبِ روایت اپنے انتہائی معصومانہ انداز سے اپنی آنکھیں پھاڑ کر اور اپنا سینہ پھولا کر ایک بار پھر اِس عزم کو بھی دہراتے ہوئے کہا ہے کہ صدرآصف علی زرداری کسی تحقیقات سے گھبرانے والے نہیں اور وہ آبدوز اسکینڈل سمیت این آر او پر بھی عدالتوں کا سامنا کرنے کو تیار ہیں اور اِس کے علاوہ یہاں تو ایک بڑے تعجب کی بات یہ بھی ہوئی کہ انہوں نے ایک موقع پر یہ بھی کہہ دیا کہ مشرف غاصب تھا اور اِس کا ہمارے دور سے ہرگز ہرگز کوئی موازنہ نہ کیا جائے اور آئین کے آرٹیکل 6 کے تحت مشرف اور اِن کے ساتھیوں کے خلاف کارروائی ہونی چاہئے اِس کے ساتھ ساتھ وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی نے یہ بھی اپنی بڑی دیدہ دلیری سے کہا ہے کہ عدلیہ آزاد ہے اور اِس کا ہر فیصلہ قبول کیا جائے گا صدرزداری کے خلاف ساری زندگی تحقیقات ہوتی رہی ۔اور صدر زرداری آبدوز اسکینڈل کے الزام پر عدالتوں اور جیلوں کا بھی سامنا کرنے کو تیار ہیں۔

سچ سچ ہی ہوتا ہے اور ایک قول ہے کہ سچ اتنا ہی آگے بڑھتا ہے جتنا ہم اُسے دھکیلتے ہیں اور آج ہمارے ملک کے وزیراعظم نے بھی سچ بول کر بہت سے جھوٹوں کے منہ بند کردیئے ہیں کہ جو یہ کہتے پھرتے تھے کہ یہ حکومت مشرف کو سزا دلوانا نہیں چاہتی ....اور صدر زرداری عدلیہ کا سامنا نہیں کرنا چاہتے .... بلکہ اَب اِس طرح اُن جھوٹوں کو یہ یقین کرلینا چاہئے کہ وزیراعظم نے ایک سچ کہہ کر ملک میں حق و سچ کر بول بالا بھی کردیا ہے اور مجھے یہ کہنے میں فخر محسوس ہورہا ہے کہ ایسا لگتا ہے کہ آج ہمارے ملک کے وزیراعظم بھی ہرقسم کی گرفت سے آزاد ہوگئے ہیں اور انہوں نے اِس کا برملا اظہار کردیا ہے کہ مشرف غاصب تھا۔ اور اِسے اور اِس کے ساتھیوں کو سزا ملنی چاہئے۔ اور صدر زرداری عدلیہ کا سامنا کرنے کو بھی تیار ہیں۔

یہ تمام باتیں اپنی جگہ بالکل درست مگر میرے نزدیک یہاں جو سب سے زیادہ اہم با ت ہے وہ یہ ہے کہ ہم اگر صرف وزیراعظم کے اِن الفاظ پر جائیں تو یہ بات پوری طرح سے واضح ہوجاتی ہے کہ اَب اگر عدلیہ کسی بھی حوالے سے جب کبھی بھی ملک کے سابق بھگوڑے آمر صدر جنرل (ر) پرویز مشرف اور اِن کے ساتھیوں کو چن چن کر کٹہرے میں لاکھڑا کرے گی تو یہ حکومت عدلیہ کے کسی بھی معاملے میں کسی بھی قسم کی مداخلت ہرگز ہرگز نہیں کرے گی اور اِسی طرح بقول ہمارے سید زادے وزیر اعظم کے عدلیہ پوری طرح سے آزاد ہے اور صدر آصف علی زرداری کو بھی اگر عدلیہ آبدوز اسکینڈل سمیت این آر او کے حوالے سے اپنے سامنے سزا اور جزا کے کٹہرے میں لا کھڑا کرے گی تو حکومت اِن کے معاملے میں بھی عدلیہ کے ہر فیصلے کو اپنا سر خم کرتے ہوئے تسلیم کرلے گی۔ چلو وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی کے اِس بیان سے قوم کو یہ امید تو پیدا ہوئی ہے کہ آج ہماری عدلیہ حکمرانوں کے عتاب اور عتاب نامے سے پوری طرح سے آزاد ہوگئی اور اَب اِس کا ہر فیصلہ ملک کے ہر غریب امیر کے لئے یکساں ہوا کرے گا۔

بہرکیف! ادھر پاکستان سے متعلق دیار غیر سے جو انوکھے انکشافات کا سلسلہ چل نکلا ہے اِن سے بھی پاکستان کے سیاسی پینترے بازوں نے اپنے سپہ گری دکھانے شروع کردیئے ہیں اور اگر دیکھا جائے تو اِن حیران کن انکشافات میں ایک امریکی صحافی سیمورہرش کئی ایسے انکشافات میں مشترکہ حیثیت رکھتا ہے جس کے کئے گئے انکشافات نے نہ صرف پاکستانی سیاسی حلقوں میں ہلچل پیدا کردی ہے بلکہ عالمی سطح پر بھی ایک ایسے بھونچال کو بھی جنم دے دیا ہے کہ ساری دنیا کی نظریں ماضی کی طرح ایک بار پھر موجودہ حکومت کے مستقبل پر جم چکی ہیں کہ یہ حکومت اپنی مدت پوری کر بھی پائے گی کہ نہیں...

یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ امریکی صحافی سیمورہرش کے اِس حکومت سے متعلق کیا عزائم ہیں کہ جس نے متواتر زرداری حکومت اور صدر زرداری کی شخصیت کوئی اپنے انکشافات میں ٹارگیٹ بنایا ہوا ہے۔ یہ بات حکومت اور اپوزیشن کو اچھی طرح سے سوچنی اور سمجھنی چاہئے کہ پاکستان کی نومولود جمہوریت سے امریکی کس قدر خوف زدہ ہیں کہ وہ یہ نہیں چاہتے کہ پاکستان میں جمہوری عمل مستحکم ہو اور یہاں جمہوریت پروان چڑھے اِسی وجہ سے ایک امریکی صحافی سیمور ہرش نے پہلے ملک کے سابق بھگوڑے آمر صدر جنرل (ر) پرویز مشرف سے لئے گئے انٹرویو میں ملک کے موجودہ صدر آصف علی زرداری کی شخصیت سے متعلق پرویز مشرف سے منسوب کر کے ایسے انکشافات کئے کہ پوری پاکستانی قوم ششدر رہ گئی اور اَب ایک بار پھر اِسی امریکی صحافی سیمور ہرش نے جو لگتا ہے کہ اِس حکومت کے خلاف اپنی پروپیگنڈہ مہم کو انکشافات کے زریعے چلا رہا ہے۔

اِس نے آج یہ بھی ایک تازہ ترین انکشاف کیا ہے کہ ”پاکستان میں ایٹمی ایمرجینسی سے نمٹنے کے لئے امریکا کا ایک اسپیشل اسکواڈ پاکستان پہنچ گیا ہے“میرے خیال سے اِس طرح اِس کے اِس جھوٹ پر مبنی پھینکے گئے انکشاف سے پاکستان میں ایک اور سیاسی بحران پیدا ہوگا جس سے حکومت عدم استحکام کا شکار ہوجائی گی۔ اور ملک بھر میں حکومت کے خلاف ریلیوں اور مظاہروں کا ایک نہ رکنے والا سلسلہ شروع ہوجائے گا۔

مگر یہاںمیں یہ سمجھتا ہوں کہ ضرورت اِس امر کی ہے کہ بالخصوص ملک کی اپوزیشن اور فرینڈلی اپوزیشن کی سیاسی جماعتوں سمیت ملک کی ذرا جذباتی مذہبی جماعتوں کو سیمور ہرش کے اِس نئے اور حیران کن انکشاف کو جواز بنا کرحکومت کے خلاف کوئی قدم اٹھانے سے پہلے اِس بات کا بھی اپنے تئیں پوری طرح سے اطمینان کرلینا ہوگا کہ اِس امریکی صحافی سیمور ہرش کے انکشاف میں کہی گئی بات میں کتنی صداقت ہے اور کتنا جھوٹ ہے اور حکومتی مؤقف اِس بارے میں کیا ہے؟ تو پھر بیشک جو چاہیں اپوزیشن اور ملک کی مذہبی جماعتیں کرتی پھریں۔ اور اِس طرح یہ جماعتیں حکومت کے خلاف کسی تحریک چلانے میں حق بجانب بھی ہوں گئیں۔

جبکہ ملک کی موجودہ سیاسی، اقتصادی اور سماجی صورتحال سمیت روز افزوں بڑھتے ہوئے خودکش حملوں اور بم دھماکوں کو دیکھتے ہوئے ایک اور انتہائی حیران کن خبر یہ بھی ہے کہ جس میں ملک کے سیاسی اور سفارتی ذرائع سے اِن انکشافات کا اظہار کیا گیا ہے کہ پاکستان میں 31دسمبر2009 تک انتہائی اہم تبدیلیاں رونما ہوسکتی ہیں اور اِن انکشافات میں یہ بھی کہا جارہا ہے کہ پاکستان میں90 دن کے اندر عبوری حکومت بھی قائم ہوسکتی ہے اور ساتھی ہی اِن خدشات کا بھی اظہار کیا جارہا ہے کہ چھ ماہ کے اندر عام انتخابات کرائے جانے کا بھی امکان ہے۔ اِس پر حکومتی ذرائع صرف اتنا کہہ کر خاموش ہوگئے ہیں کہ یہ سب محض قیاس آرائیاں ہیں ایسا کچھ نہیں ہے جن کا اظہار کیا جارہا ہے اور حکومتی ذرائع نے بھی اِس اطمینان کا اظہار کیا ہے کہ حکومت اپنی 5سال کی مدت پوری کرے گی۔ میرے خیال سے جو کہ اَب ناممکن لگتا ہے کہ یہ حکومت اپنی مدت پوری کرسکے۔ اور تمام باتوں کے باوجود یہ تو حقیقت ہے کہ پورا پاکستان ہی اَب اِس غیر یقینی صورتحال سے یہ بات تو اچھی طرح سے سمجھنے لگا ہے کہ اِن حالات میں یہ حکومت اپنی مدت ہرگز پوری نہیں کرسکے گی۔ یعنی کہ جب ملک کے اندر اور باہر ہر طرف سے حکمرانوں کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے اور حکمران عوام کو کسی بھی حوالے سے ایک رتی برابر بھی ریلیف دینے میں کامیاب نہ ہوسکے ہوں تو ایسے میں کس بھی مہذب قوم کے حکمرانوں کو یہ خود بھی چاہئے کہ وہ اپنی گرتی ہوئی ساکھ کو سنبھالا دینے کے لئے اقتدار چھوڑ دیں یا ملک اور قوم کے لئے ایسے اقدامات کردے کہ قوم اِنہیں خود اقتدار میں دیکھنا چاہے۔
Muhammad Azim Azam Azam
About the Author: Muhammad Azim Azam Azam Read More Articles by Muhammad Azim Azam Azam: 1230 Articles with 900092 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.