عوام کا کیا قصور ہے؟
(Prof Liaquat Ali Mughal, Kehroor Pakka)
گورنمنٹ کے تمام مفروضوں اور
سوچوں پر پانی پڑچکاہے کہ طاہرالقادری اور عمران سرکس لگاکر عوام کو بے
وقوف بنارہے ہیں اور ان کی ڈگڈی پر کوئی تماشہ دکھانے والے نہیں
گورنمنٹstableہے اور انکے سرکس اور کرتبوں سے عوام سوائے محظوظ ہونے کے
کوئی رسپانس نہیں دیں گے لیکن طاہرالقادری نے یوم شہد ا منا کر انقلاب مارچ
کا اعلان کردیا ہے کہ وہ 14اگست کو عمران خان کے ساتھ اسلام آباد میں اپنا
دھرنا دیں گے اور احتجاج ریکارڑ کرائیں گے اسی طرح عمراں خان نے گورنمنٹ کو
لال جھنڈی دکھادی ہے کہ فی الحال مذاکرات اور بات چیت نہیں ہوسکتی ۔14اگست
کے بعدہی میں سنااور سنایا جائیگا۔دل ،دماغ،آنکھ،کان سب انقلاب مارچ اور
آزادی مارچ کے شور میں کچھ بھی سوچنے،سمجھنے اور سننے سے قاصر ہیں۔ عمران
خان اور طاہرالقادری کے لہجوں میں سختی اور رویوں میں شدت آتی جارہی ہے۔
اسی طرح دوسری طرف گورنمنٹ کے وزرا کے آگ لگانے والے بیانات بھی جلتی پر
تیل کا کام کررہے ہیں۔ اور معاملات میں حدت و شدت کی وجہ سے point of no
returnکی صورت پیداہوگی ہے۔ جس کی بنا پر ملک میں بے چینی،تفکرات ، عدم
اعتماد ،عدم تحفظ وعدم استحکام کی فضاپیداہو گئی ہے دونوں طرف سے تیروں کی
بوچھاڑ جاری ہے درمیان میں بے بس عوام خوامخواہ مشق ستم بنی ہوئی ہے۔ ہر دو
فریقین کا دعوی ہے کہ وہ عوام الناس کے خیر خواہ اور ہمدردہیں لیکن موجودہ
حالات اسکی شدت سے نفی کررہے ہیں ۔معاملات کو ہمیشہ پیار اور محبت سے
سدھاراور سلجھایا جاتارہاہے اوراب اس کی ضرورت روز روشن کی طرح عیاں ہوچکی
ہے۔کیونکہ نفرت کاجذبہ صرف اور صرف ڈٹ جانے کا جذبہ ہے۔ انتقام کو پروان
چڑھانے کانام ہے۔ معاشرے میں عدم برداشت چڑچڑاپن اور بات بے بات قتل و غارت
عام ہو جاتی ہے اور یہ منفی رویے انسانی معاشرے کو تباہ برباد کردیتے ہیں
بالخصوص نوجوان طبقہ اس کاسب سے زیادہ شکار ہوتا ہے اور قومی سطح پربحیثیت
قوم ان رویوں نے ملک و قوم کا ستیاناس کر دیا ہے۔ہمارے یہ رویے غیر حقیقی
اور غیر فطری ہیں۔ جہنوں نے ہماری بقا اورسالمیت کو خطرہ سے دو چار کیا ہوا
ہے ۔ اوراگر ہم چاہتے ہیں کہ ملک میں امن و سکون ہو جان و مال کا تحفظ ہو ۔
برداشت کا مادہ ہو۔ایک دوسرے کو سننے اور سمجھنے کی صلاحیت و طاقت ہو تو
پھر محبت کو عام کرنا ہوگا ایک دوسرے کے حقوق و فرائض کو جاننا اور ماننا
ہو گا قوم کے نوجوانوں میں جذبہ محبت و ایثارپروان چڑھانا ہوگا۔ عفوو درگزر،
تحمل و بردباری کا مظاہرہ کرنا ہو گا قنوطیت پسندی ،شکوک و شبہادت کو دلوں
سے نکالنا ہو گا۔امرا،وزرااوراہل اقتدارکو ملکی حالات کے پیش نظراپنی اپنی
زبانوں کو کنٹرول کرنا ہوگا۔ ان کو اپنا طرزگفتگو۔طرزعمل ،طرززندگی،طرز
سیاست طرز حکومت اور طرز بادشاہت جو کہ عوام الناس کیلئے وجہ اشتعال بن
جاتا ہے ،بدلنا ہوگا۔بے سر وپا مفروضے گھڑکر خود فریبی کی راہ اپنانے کا
طرز عمل چھوڑناہوگا۔ کیونکہ جب ان کے مفروضے مٹی کا ڈھیر ثابت ہوتے ہیں تو
وہ عقل و حکمت سے بے پرواہ ہو کر اپنے لئے اور اپنے حکمرانوں کیلئے مشکلات
پیدا کر لیتے ہیں ۔ نوازو شریف بھی ایسے ہی ٹولے میں گھرے ہوا ہے جنہوں نے
ان سے انکی سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سلب کرلی ہے اور بوکھلاہٹ پریشانی اور
سراسیمگی کی حالت میں اٹھنے والا ہر قدم انہیں اور ملک و قوم کو عمیق
گہرائی کی طرف لے کر جارہاہے۔ جمہوری اقدارکا پرچار کرنے والوں کو چاہئے کہ
اپنی توانائیاں لغویات میں ضائع کرنے کی بجائے ملک وقوم کی بھلائی اور ترقی
کیلئے استعمال کریں ۔اپنے لئے اور حکمرانوں کیلئے گڑھا نہ کھودیں۔ اسکی ایک
مثال سے وضاحت کرنا چاہوں گا کہ ایک شخص عرصہ دراز سے روزگار اور حالات سے
بڑا دلبرداشتہ تھااور چاہتا تھا کہ زندگی کا خاتمہ کرلوں اسی سوچ کے تحت وہ
جنگل کی جانب عزم سفرہوا اﷲ کے حکم سے راستے میں عزرائیلؑ انسان شکل میں اس
سے ملے اور پریشانی کی وجہ دریافت فرمائی اسے نے سارے حالات بتادے ۔ آپؑ نے
اسے کہا کہ یوں کرو کہ تم حکمت کی دوکان کھول لو اورلوگوں کا علاج معالجہ
شروع کردو۔ وہ شخص خوب ہنساکہ مجھے تو حکمت کی ابجد سے واقف نہیں میں کیسے
کسی کا علاج کرونگا؟ عزرائیل ؑنے فرمایا کہ جب تم کسی مریض کو دیکھنے جاؤ
تو یہ دیکھنا کہ میں اس کے سرہانے کھڑا ہوں یا پاؤں کی جانب۔ اگر سرہانے
کھڑا ہوں تو تم اسے جو بھی دوادوگے اسے افاقہ ہوجائیگا اور اگر اس کے پاؤں
کی جانب نظرآؤں تو کہ دینا کہ مریض کا آخری وقت ہے۔ چنانچہ حکمت شروع کردی
اور دنوں دنوں میں ہی اسکی قابلیت اور صلاحیت کے چرچے زبان زدہو گئے۔ حکیم
صاحب خوش حال ہو گئے ۔ وقت گزرتا گیا حکیم صاحب کا وقت اجل آگیا ۔بستر
علالت پر ڈھیر تھے کہ عزرائیلؑ کو اپنے پاؤں کی جانب کھڑے پایاتو فورااٹھ
کر دوسری طرف لیٹ گئے۔عزرائیل پھر پاؤں کی جانب آ نمودار ہوئے۔ دوچاربارکی
اس حرکات کی وجہ سے گھروالوں نے سمجھا کہ انہیں شدید بے چینی ہے ۔لہذا
انہیں چارپائی پر باندھ دیا تاکہ حرکت نہ کر سکیں۔ عزرائیل پھر سے پاؤں کی
جانب کھڑے مسکراتے نظر آئے ۔حکیم صاحب اٹھ نہ سکے۔لہذا انہوں نے عزرائیل سے
کہا کہ مجھے تو اپنوں نے مروا دیا تم سے تو میں لیتا ہے ۔ نواز شریف اور ان
کی کابینہ کو سابقہ غلطیوں سے سبق لینا چاہئے ۔ عوام کو ذلیل و خوارنہ کریں
۔یہ تینوں فریقین عوام کو بتائیں کہ اس مقابلے میں عوام کو کیا ملا؟دھکے،
ڈنڈے،سوٹے، گولیاں،روڑبلاک ۔ اسلام ٓباد میں ایک طرح کی ایمرجنسی نافذ ہے۔
144کا نفاذہے ۔پیٹرول پمپ بند ہیں ۔موٹروے ، لاہور اور اسلام آ باد کے تمام
راستے سیل ہیں۔ ماڈل ٹاؤن کا محاصرہ ہو چکا ہے مظاہرین کے ساتھ ساتھ مکین
بھی محصورہو کررہ گئے ہیں جا بجا کھڑی روکاٹوں سے شہریوں کو آمدورفت میں
شدید مشکلات ہیں۔ کاروبارزندگی مفلوج ہے۔ مریضوں کو ہسپتال پہچنے میں
دشواری کا سامنا ہے ۔ کچھ مریض طبی امداد میں تاخیر پر راستے میں دم توڑگئے
۔ حتی کہ دلہے اپنی دلہن لیے بغیرہی واپس لوٹ گئے ۔کارکن مر رہے ہوں کہ
پولیس والے یا پھر عوام ۔ ان سب کا ذمہ دار کون ہے ؟حکمران ، طاہرالقادری
یا عمران خان۔چونکہ حکومت کا اپر ہینڈ ہے لہذا حکومت کو اب بھی فہم فراست
سے ان معاملات کو حل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ دوراندیشی کا مظاہرہ کرے اور
غیر دانشمندانہ اقدام سے گریز کرے اور جسٹس خالد محمود کی ہدایات کے مطابق
نوارشریف کو عمران خان کے گھر جاکر بھی حل نکالنا پڑے تو اس میں کچھ مضائقہ
نہیں۔ ملک کا مفاد ملحوظ خاطر رکھنا چاہئے۔ |
|