اعتزاز کا راز اور خوردبرد کرد صاحب

اعتزاز احسن آج کل پھر متنازعہ بن رہے ہیں۔ وہ بہت مقبول ہو کر بھی کچھ نہ کچھ ایسا کر دیتے ہیں کہ لوگ ان کے بارے میں شک میں پڑ جاتے ہیں۔ وہ مشکوک ہو جاتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ لوگ مشکوک ہوگئے ہیں۔ وہ مشکوک ہونے کو مشکور ہونا سمجھتے ہیں جبکہ مشکور ہونا بھی غلط العام ہے۔ اصل لفظ شکر گزار ہے اور اعتزاز کسی کے شکر گزار نہیں ہونا چاہتے۔ وہ چاہتے ہیں کہ صدر زرداری اور نواز شریف کے علاوہ جج صاحب اور جنرل صاحب بھی ان کے شکر گزار ہوں۔ جج صاحب اور جنرل صاحب کے منصب میں چیف آتا ہے سب سے ان کی ملاقاتیں باری باری جاری ہیں۔ وہ چیف جسٹس (غیر فعال) کو لے کے زرداری صاحب کے پاس گئے تب وہ صدارت کے بغیر اچھے خاصے فعال تھے، چیف جسٹس شہید بے نظیر بھٹو کی تعزیت کیلئے لے جائے گئے تھے، اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ صدر بننے سے پہلے ہی صدر زرداری کو بچانے کی کوشش میں تھے۔ زرداری صاحب خود ہی نہیں بچنا چاہتے تو اس میں اعتزاز احسن کا کیا قصور ہے۔ وہ صدر بنتے ہی چیف جسٹس کو بحال کر سکتے تھے اور اس سے زیادہ فائدہ صدر زرداری کا ہوتا، اس سے کچھ کم اعتزاز کا ہوتا، اب چیف جسٹس کی بحالی سے صرف نواز شریف کو فائدہ ہوا ہے۔ وکیل انہیں لیڈر مانتے ہوئے بھی جانتے تھے کہ وہ دو کشتیوں میں سوار ہیں مگر ان کا کمال دیکھیں کہ ڈوبنے سے بچ گئے مگر ابھی تک کسی کنارے نہیں لگے۔ چیف جسٹس کی بحالی میں جو کچھ ہوا وہ لوگوں کو پتہ ہے۔ اعتزاز نے اس معاملے میں نواز شریف کو کریڈٹ دلا دیا اور صدر زرداری کا بھی بھرم رکھوا لیا۔ صدر زرداری کے حواری سارا کریڈٹ صدر زرداری کے قدموں میں ڈال چکے ہیں۔ یہ تو سچ ہے کہ ’’سیاسی‘‘ چیف جسٹس کی بحالی کے نوٹیفکیشن پر دستخط تو صدر زرداری نے کئے ہیں۔ سب لوگ جانتے ہیں کہ یہ معرکہ آرائی جنرل کیانی کی مداخلت پر ہوئی۔ لانگ مارچ ان کے حوصلہ دلانے پر ہوا اور پھر یہ لانگ مارچ شارٹ کٹ بھی ان کی حکمت عملی سے بنا۔ شاندار جرنیل نے سیاست اور حکومت میں آئے بغیر اور آئین معطل کئے بغیر ملک کو بحران سے بچایا۔ ’’جمہوری نظام‘‘ کو بچایا جسے بدنظمی کی انتہا تک پہنچانے میں سیاستدانوں نے کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ سیاستدان اس کے بدلے میں پاک فوج کو بدنام اور ناکام کرنے کے درپے ہیں۔ فرینڈلی اپوزیشن سے صدر کو فائدہ نہیں ہوا، نواز شریف کو تو صرف نقصان ہوا۔ وہ اس جرنیل سے ڈرتے ہیں جو جمہوریت کے حق میں ہے۔ سیاستدانوں کو جنرل اسلم بیگ جنرل جہانگیر کرامت اور جنرل اشفاق کیانی اچھے نہیں لگتے۔ انہیں جنرل ضیاء الحق اور جنرل پرویز مشرف اچھے لگتے ہیں۔ سیاستدانوں کے آرمی چیف غیر جمہوری نکلے۔

یہ ساری کہانی میں نے بیان کر دی ہے اور سوچ رہا ہوں کہ اس کا کیا تعلق اعتزاز احسن کے ساتھ ہے۔ وہی تعلق جو اعتزاز احسن کا علی احمد کرد سے ہے۔ جبکہ کرد صاحب صدر تھے تو سابق صدر لگتے تھے اور اب تو وہ واقعی سابق صدر ہیں۔ قاضی محمد انور کی صدارت کے دوران اعتزاز احسن سابق صدر رہیں گے۔ اب پھر ایک بار اعتزاز متنازعہ ہو رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ میں پیپلز پارٹی میں ہوں اور کوئی عہدہ قبول کرنا معیوب نہیں۔ معیوب بات یہ ہے کہ انہیں کوئی عہدہ دیا ہی نہیں جا رہا۔ عہدہ ملنے کے بعد وہ کسی کام کے نہیں رہیں گے۔ ان کا بھی حشر شیری رحمان جیسا ہوگا۔ اٹارنی جنرل اور گورنر پنجاب کی پیشکش اس وقت ہوئی ہے جب ان دونوں میں کوئی عہدہ بھی قبول کرنا اعتزاز کے بس میں نہیں۔ لطیف کھوسہ کو ان سے پہلے اٹارنی جنرل بنایا گیا جیسے امجد اسلام امجد کو منیر نیازی سے پہلے پرائڈ آف پرفارمنس دیا گیا۔ منیر نیازی نے قبول کر لیا تھا کہ اسے کوئی کمپلکس نہ تھا نجانے اعتزاز کو کیا مسئلہ ہے۔ وہ وزیر اعظم بننا چاہتے ہیں تو مخدوم گیلانی ان کا مدمقابل نہیں۔ اصل مقابلہ نواز شریف سے ہو گا۔ وہ عہدے کے بغیر صدر زرداری کی حمایت کر رہے ہیں۔ انہیں فوجداری مقدمے میں بھی عدالت میں بلایا نہیں جا سکتا۔ فوجداری میں لفظ فوج آتا ہے جو بہت معنی خیز اور لرزہ خیز ہے۔ فوجداری معاملات ہمارے سیاستدانوں کو بڑے پسند ہیں کیا زرداری خدانخواستہ حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے بھی زیادہ ’’امیر المومنین‘‘ ہیں۔ وہ تو نواز شریف جتنے بھی ’’امیر المومنین‘‘ نہیں۔ پاکستان بار کونسل کے صدر قاضی محمد انور نے کہا کہ اعتزاز کو کیا ضرورت ہے کہ وہ صدر زرداری کے اتنے ہمدرد ہو گئے ہیں۔ میری سمجھ میں نہیں آتا کہ وہ ایسا کیوں کر رہے ہیں مگر ہماری سمجھ میں تو آتا ہے۔

اعتزاز کے گورنر پنجاب بننے کی خوشی ان سے زیادہ شہباز شریف اور رانا ثناء اللہ کو ہوگی۔ نواز شریف اور اعتزاز کی خوشی ایک جیسی ہو گی۔ گورنر بننا اور گورنر کے لئے خبریں بنوانا دو مختلف کام ہیں۔ سلمان تاثیر نے بہت دلچسپ بات کی ہے۔ گورنر ہاؤس میں دو آسامیاں مالی کی خالی ہیں۔ ظاہر ہے دونوں پر اعتزاز احسن نہیں لگ سکتے۔ میرے پاس ایک آدمی آیا اور کہا کہ مالی کی دوسری آسامی کے لئے کسی سے کہیں میں گورنر پنجاب سے تو کہنا نہیں چاہتا۔ میں نے اس آدمی کو فوراً فرخ شاہ کے پاس بھجوا دیا۔ اعتزاز نے کہا تھا کہ مجھے جس پوسٹ کی پیشکش کی گئی ہے۔ اگر بتا دوں تو کئی لوگوں کی نیندیں اڑ جائیں گی۔ ہم حیران تھے کہ وہ پوسٹ کیا ہو سکتی ہے شاید وہ پوسٹ چیف جسٹس کی ہو۔ ہماری مشکل سلمان تاثیر نے آسان کر دی اور ہمیں نیند آ گئی۔

علی احمد کرد کوئی بات اعتزاز احسن سے پوچھے بغیر نہیں کرتے۔ وہ کہتے ہیں کہ عدالتوں میں فرعون بیٹھے ہیں نجانے یہ کس کی طرف اشارہ ہے مگر اس فرعون کے لئے موسیٰ کون ہو گا۔ علی احمد کرد مزید کہتے ہیں کہ عوامی عدلیہ سے بھی امیدیں پوری نہیں ہوئیں۔ اس کے باوجود ابھی کرد صاحب ناامید نہیں ہیں کہ اعتزاز کبھی ناامید نہیں ہوتے۔ وکیل اپنے لیڈر کے لئے وکلاء تحریک کے دوران جو باتیں کرتے تھے اب بھی کرتے ہیں۔ وہ باتیں اب علی احمد کرد کے بارے میں بھی ہونے لگی ہیں۔ کرد صاحب نے کہا ہے کہ عوام کو ریلیف دلانے کے لئے ایک اور لانگ مارچ کی ضرورت ہے تو پھر شارٹ کٹ کی ضرورت بھی ہو گی۔ پہلے بھی لانگ مارچ چند کلومیٹر کے بعد ختم ہو گیا تھا۔ اب لانگ مارچ کتنے کلومیٹر کا ہو گا۔ پہلے بھی علی احمد کرد کو لانگ مارچ میں شامل ہی نہیں ہونے دیا گیا تھا۔ علی احمد کرد کو کوئٹہ ہی میں خورد برد کرا دیا گیا۔ اسے یاد دلایا گیا کہ وہ کوئٹے کا وکیل ہے یعنی کوٹے کا وکیل لیڈر ہے۔ اب این آر او کے لئے فیصلہ سپریم کورٹ کرے گی اور سب کو معلوم ہے کہ سپریم کورٹ کیا فیصلہ کرے گی تو اس وقت عدالتوں کے خلاف وہ لوگ تحریک چلانا چاہتے ہیں جنہوں نے پہلے عدالتوں کے حق میں تحریک چلائی تھی۔ وکلاء کی لیڈرشپ کہاں ہے؟ اب کسی سابق صدر کو وکیلوں کے لیڈر کے طور پر پالیسی بیان سے روک دینا چاہئے۔ کرد صاحب کے زمانے میں جو کچھ اعتزاز نے کیا قاضی انور کے زمانے میں نہیں کرنے دیا جائے گا۔ کرد صاحب اس کے لئے بھی لانگ مارچ کریں!
Dr. Muhammad Ajmal Niazi
About the Author: Dr. Muhammad Ajmal Niazi Read More Articles by Dr. Muhammad Ajmal Niazi: 19 Articles with 19033 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.