صرف جیالوں کے لیے

 ویسے تو شروع دن ہی سے موجودہ حکومت شدید تنقید کی زد میں رہی ہے لیکن گزشتہ چند ہفتوں سے صدر مملکت آصف علی زرداری پر الزامات کے لامتناہی سلسلے کے آغاز نے سیاسی حالات کو کچھ زیادہ ہی غیر یقینی صورتحال سے دوچار کر دیا ہے۔ حالات کہاں جارہے ہیں؟ نتیجہ کیا ہوگا؟ اور اس کے جمہوری نظام پر اثرات کتنے منفی ہونگے؟ یہ ایسے سوالات ہیں جن پر ہر کوئی اپنی بساط اور بصیرت کے مطابق تبصروں میں مصروف ہے لیکن حیرت اس وقت ہوتی ہے جب ٹی وی مذاکروں اور اخباری کانفرنسوں میں حکومتی حواری خصوصاً پیپلز پارٹی کے رہنما اور جیالے انتہائی ڈھٹائی کے ساتھ کسی بھی سوال کے جواب میں مدلل بات کرنے کے بجائے ”ہدف تنقید صدر زرداری ہی کیوں؟“کا الٹا سوال داغ دیتے ہیں۔ اپنے پارٹی سربراہ کا دفاع ان کا حق ہے لیکن قریباً سبھی رہنماﺅں کا انداز مضحکہ خیز ہونے کے ساتھ ساتھ اکثر سمجھ سے بھی بالا ہوتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ کسی مباحثے میں جیت کے لیے مد مقابل کو اندھیرے میں تیر چلانے کے بجائے دلیل سے قائل کرنا ضروری ہوتا ہے لیکن ہمارے جیالے ساتھی اس قدر جوشیلے واقع ہوئے ہیں کہ عوامی فورمز کے ضوابط تک بھول کر صرف ”ہم نے کیا کیا ہے؟“کی گردان سے آگے ہی نہیں بڑھتے۔ بات اگر صرف پارٹی عہدیداروں تک محدود رہتی تو شاید اتنی حیرانی نہ ہوتی لیکن کیا کیجئے کہ چند صوبائی اور وفاقی وزراء بھی ان”لڑائیوں“ میں باقاعدہ کود کر وہی سوال اس طرح کچھ اس انداز سے دہراتے ہیں حیرت کے ساتھ ساتھ ان کی ”معصومیت“ پر بے اختیار ہنسی بھی نکل جاتی ہے کیونکہ عام جیالے کی حد تک تو بات سمجھ میں آتی ہے لیکن جب حکومتی عہدیدار اپنے ہی کیے بارے دریافت کرنے لگے تو سوائے افسوس کے کچھ نہیں کیا جا سکتا۔ ایسی ہی صورتحال سے آج کل سیاسی معاملات میں دلچسپی رکھنے والے بھی دوچار ہیں جو ہر ٹی وی مناظر دیکھنے اور اخبارات میں شائع بیان پڑھنے کے بعد گویا پی پی قیادت کے بھولے پن پر سر پیٹ رہے ہوتے ہیں۔ اگرچہ سبھی جانتے ہیں کہ حالات کو موجودہ نہج پر پہنچانے والے عوامل سے کون کتنا آگاہ ہے لیکن پھر بھی اگر جیالے رہنما اور وزراء حقیقت سے ناآشنا ہیں تو ذیل میں انہی کے سوالات کے جوابات احاطہ کیا جارہا ہے لیکن شرط صرف اتنی ہے کہ پڑھا اور غور صرف ٹھنڈے دماغ سے کیا جائے۔

ڈیڑھ پونے دو برس میں ”مثالی کارکردگی“ کا دعویٰ کرنے والوں کی خدمت میں عرض ہے کہ ان کے سوالات اپنی جگہ لیکن براہ کرم دور اقتدار پر بھی ایک نظر ڈالیے جہاں سب سے پہلی غلطی اس وقت ہوئی جب آپ کی پارٹی قیادت اپنی ہی چیئر پرسن کے افکار اور خواہشات کو بھول کر ایک ایسی ڈگر پر چل نکلی جس کی منزل ناکامی کے سوا کچھ بھی نہیں تھی۔ عوام نے عوامی کی پارٹی ہونے کے دعویداروں کو دیرینہ مسائل سے نجات کی امید پر مسند اقتدار پر بٹھایا تھا لیکن ان امیدوں پر اس وقت پانی پھر گیا جب نو برس تک آمریت کی زد میں رہنے والی مملکت خداد میں جانے والوں ہی کی پالیسیوں کو ”مشعل راہ“ بنا لیا گیا۔ اس غلطی کا نتیجہ یہ ہوا کہ اقتدار میں آنے والے ناکامیوں کو چھپانے کے لیے غلطیوں پر غلطیاں کرنے کی روش پر چل پڑے۔ پیپلز پارٹی انہی وعدوں کو بھول گئی جو ایوانوں میں داخلے سیڑھی تھے۔ اپنی دانست میں ملکی قیادت شاید کامیاب حکمت عملی پر عمل پیرا تھی لیکن باشعور عوام اس کے ارادوں کو بھانپ گئے اور انہیں ”قوم جلد مجھے یاد کرے گی“ کے الفاظ پر مشتمل سابق صدر پرویز مشرف کا بیان یاد آنے لگا۔ آصف علی زرداری کی جانب سے پہلے پارٹی شریک چیئرمین اور پھر منصب صدارت ایک ساتھ سنبھالنے کے بعد تو خود بھٹو ازم کے حقیقی پیروکار بھی ناراض نظر آئے اور رفتہ رفتہ یہ صورتحال بن گئی کہ پارٹی کے بچے کچھے بانی ارکان بھی ” Party is Over “ کہنے پر مجبور ہوگئے اور یہی وہ نکتہ تھا جس نے عوامی سوچ کا رخ بھی بدل دیا۔ یاد رہے کہ جب گھر والے ہی آپس کی لڑائی کے بعد ایک دوسرے پر اعتماد ختم کر بیٹھے تو باہر والوں کا بدظن ہونا یقینی ہوتا ہے، بدقسمتی سے یہی پیپلز پارٹی اور اس کی حکومت کے ساتھ بھی ہوا حتیٰ کہ بات پہلے اتحادیوں کے علیحدگی اور پھر باقی مانندہ حلیفوں کی جانب سے اقتدار چھوڑنے کے مشوروں تک جا پہنچی۔

معاملات سیاسی لڑائی یا وعدہ خلافیوں تک محدود رہتے تو شاید عام آدمی اور ان کے ترجمان میڈیا کے لیے اچنبے کی بات نہ ہوتی لیکن پیپلز پارٹی کی حکومت نے تو ملکی سلامتی کے معاملات میں بیرونی مداخلت کے سلسلہ میں اپنے پیش روﺅں کو بھی پیچھے چھوڑ دیا۔ قبائلی علاقوں میں ڈرون حملوں کے لامتناہی سلسلے پر پر اسرار خاموشی، ڈو مور کے امریکی اور اس کے اتحادیوں کے مطالبات پر من و عن عمل، مذاکرات کے بجائے ہر مسئلہ طاقت کے استعمال کے ذریعے حل کرنے کی کوشش، بیرونی امداد اور قرضوں کے حصول کے لیے تمام (بشمول ناقابل قبول) شرائط پر آمادگی اور مخلص دوستوں پر بھروسہ کرنے کے بجائے دوستی کے لبادوں میں چھپنے ازلی دشمنوں سے تعلقات بڑھانے کی روش پیپلز پارٹی اور اس کی حکومت کی دوسری ناقابل فراموش غلطی تھی جس نے جہاں پورے ملک کو میدان جنگ میں تبدیل کردیا وہیں عوام اور حکمرانوں بد اعتمادی کی ایک ایسی دیوار کھڑی کر دی جو آج تقریباً ناقابل عبور ہوچکی ہے جس کی قلعی سیاسی مبصرین اور میڈیا پر تو کھل چکی لیکن حکمران آج بھی ”سب اچھا“ تصور کر کے اپنی ہی دھن میں مگن جو جی میں آئے کرتے پھر رہے ہیں۔

عام آدمی کے بنیادی مسائل کا حل کسی بھی حکومت کی کامیابی کا بنیادی راز ہوتا ہے لیکن جیالے ساتھیوں سے انتہائی معذرت کے ساتھ عرض ہے کہ ان کی حکومت نے تو اس طرف توجہ ہی نہیں دی۔ اسے سیاسی اور بین الاقوامی معاملا ت میں پھڈے بازی کا نام دیجئے یا پھر حکمرانوں کی عوام دشمنی کہ مشرف دور کے مقابلے میں آج پاکستانی قوم انفرادی اور بنیادی مسائل کے حوالے سے خود کو یتیم ہی تصور کر رہی ہے۔ روٹی، کپڑا اور مکان کی فراہمی کے نعرے تو بہت لگائے گئے لیکن سابقہ ادوار کی طرح اس مرتبہ بھی نہ ہوسکا۔”غربت کے خاتمے“ کی پالیسی پر جس تیزی سے عمل جاری ہے اسے دیکھ کر متوسط طبقہ واقعی یقین کئے بیٹھا ہے کہ جلد یا بدیر اس ملک میں صرف امراء ہی باقی رہ جائیں گے۔ حکومت کا شاید یہ خیال تھا کہ قوم اپنے ہی مسائل میں الجھ کر اہم ملکی و حکومتی معاملات کی طرف بے خبر ہوجائے گی لیکن یہ اس کی ایک اور غلطی تھی کیونکہ ایسا نہیں ہوا اور بحران در بحران جھیلنے والے تمام خرابیوں کی جڑ ہی حکومتی پالیسیوں کو قرار دینے لگے ہیں اور مختلف فورموں کے ذریعے اب کھلے بندوں تنقید بھی اسی ہی کا شاخسانہ ہے جو حکمرانوں، پی پی قیادت اور بڑی حد تک جیالوں کے لیے بھی ”ناقابل فہم“ بنتی جارہی ہے۔

یہ درست ہے کہ باقی قیادت کے مقابلے میں ایوان صدر کچھ زیادہ ہی تنقید کی زد میں ہے اور ملکی و بین الاقوامی میڈیا آئے روز کہیں نہ کہیں سے آصف علی زرداری کے حوالے سے ایسے چشم کشاء حقائق سامنے لے آتا ہے کہ پوری قوم ورطہ حیرت میں ڈوب جاتی ہے۔ عام آدمی کی تو سمجھ آتی ہے کہ اس کے لیے ہر انکشاف ہی نیا اور چونکا دینے والا ہوتا ہے لیکن پی پی قیادت اور حکومتی حواریوں کا ردعمل شاید اس لیے شدید ہوتا ہے کہ کیا تو سب کچھ حکومت نے تھا نکتہ چینی صرف صدر کی ذات پر ہی کیوں؟ اس کے جواب میں عرض ہے کہ آپ اپنی جگہ بالکل درست ہیں لیکن کیا کیا جائے کہ ہمارے معاشرے کا رواج ہی یہ ہے ہمیشہ سر پرست ہی ہدف تنقید ہوتا ہے، آصف علی زرداری سربراہ مملکت ہونے کے ساتھ ساتھ پی پی کے سرپرست بھی ہیں لہٰذا پارٹی اور حکومت کی تمام تر غلطیوں کے ”الامے“ بھی انہی کو بھگتنا ہونگے۔ اگر آپ کو اس پر دکھ ہے تو ان الاموں(شکایات) کی وجوہات ختم کریں یا پھر ایم کیو ایم جیسے ”ہمسایوں“ کی طرح اپنے سر پرست کو اختیارات کی تقسیم اور اہم معاملات میں دوسروں سے مشوروں پر قائل کرنے کی کوشش کریں، بصورت دیگر غلطیاں بھی ہوتی رہیں گی اور ان پر تنقید بھی۔
RiazJaved
About the Author: RiazJaved Read More Articles by RiazJaved: 69 Articles with 58372 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.