ہوتا ہے شب و روز تماشا میرے آگے

اسلام آباد میں دو جماعتوں کے لانگ مارچ کے بعد دھرنے جاری ہیں ملک میں افواہوں کا بازار بھی گرم ہے اوربحث بھی زوروں پر ہے ہرکوئی اپنے پسندیدہ سیاستدانوں کے حق میں دلائل دے رہا تھا کچھ نیا شوشہ چھوڑ کر تماشا دیکھتا: اس سے محظوظ ہوتا پھر کوئی نئی پھلجھڑی چھوڑ دیتا جو جلتی پرتیل کا کام کر دیتی ایک صاحب نے تنگ آکر کہا چھوڑو۔۔ اب اپوزیشن کو سال ڈیڑھ سال بعد احتجاج کرنے کا خیال آیا ہے یہ کیا بات ہوئی؟ دوسرے نے ہاں میں ہاں ملائی عمران خان کا آزادی مارچ، شیخ الاسلام کا انقلاب مارچ ۔۔۔شیخ رشید۔۔۔ چوہدری برادران کا ساتھ سراج الحق اور ایم کیو ایم کی حمایت یعنی سب کے سب حکومت کے خلاف۔۔۔کمال ہے بھئی۔۔۔بس اب نواز حکومت گئی ایک جیالا حلق پھاڑ کر چیخا۔۔۔ چپ۔۔۔ایک بزرگ نے ڈانٹا ایسی یاتیں نہ کر زرداری ناراض ہو جائے گا یہ سنتے ہی جیالے کی ہنسی کو پریشر بریک لگ گئی۔۔۔ویسے کو شیخ رشید،عمران خان اورطاہرالقادری کے متحدہونے سے حکو مت کو وخت پڑ گیاہے ایک نے رائے دی
شیخ رشید اورعمران خان کے بارے میں کیا کہوں ایک موٹے سے سخص نے ہاتھ اٹھا کر،منہ پھلا کرکہاشیخ الاسلام کے بارے میں مجھے یقین ہے وہ سیاسی دوکاندارہے -

کسی ایک کا نام لو دبلاپتلا پاٹ دار آوازمیں ترت بولا ۔۔۔جو سیاسی دوکاندار نہیں۔۔۔اس کی آواز سن کر سب کوجیسے سانپ سونگھ گیا۔۔ ایسی چپ کہ سب خاموش حیرت سے ایک دوسرے کے منہ کی طرف دیکھنے لگے ۔۔۔یہ نظام ہی ایساہے کسی نے وقفے کے بعد خاموشی توڑتے ہوئے کہا -

میں نظام کی بات نہیں کررہا دبلاپتلاپھرگویاہوا ۔۔۔ہے کوئی سنگل پرسن۔۔جس کے بارے میں آپ کا دل گواہی دے کہ وہ سیاستدان ہے سیاسی دوکاندارنہیں۔۔ شایدکسی کے پاس اس تلخ سوال کا کوئی جواب نہیں تھا ۔۔۔ بزرگ نے کہا طاہرالقادری کے پروگرام یاطریقہ ٔ کار سے اختلاف ہو سکتاہے لیکن اس کی باتیں دل میں ترازو ہو جاتی ہیں -

جب تک۔۔۔ایک اور آواز گونجی جب تک یہ سسٹم تبدیل نہیں ہوتامجھے تو بہتری کی کوئی امید نظرنہیں آتی
میں اکثرسوچتا رہتاہوں پاکستان میں جمہوریت سے مراد شاید خاندانی بادشاہت ہے میاں نوازشریف کے 22عزیز واقارب حکومت میں موجود ہیں ماضی میں یہی صورتحال پیپلز پارٹی کی تھی بے نظیر بھٹو جب وزیر ِ اعظم تھیں ان کے شوہر آصف زرداری وزیر ِ ماحولیات، محترمہ نصرت بھٹو سینئر وزیر،حاکم علی زرداری پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے چیئرمین تھے مذہبی جماعتوں کا حال شاید سب سے برا ہے دن رات جمہوریت، جمہوریت کا راگ الاپنے والوں میں اختلاف رائے بھی برداشت کرنے کا حوصلہ نہیں پارٹی ورکرتوبہت دورکی بات ہے یہ اپنی پارٹی کے ارکان ِ اسمبلی کو ملازم جتنے حقوق دینے کیلئے تیار نہیں ہے جتنا غورکریں دل کو یقین ہوتا جاتاہے ملک میں جمہوریت کے نام پر سول ڈکٹیٹر شپ موجودہے شاید ذوالفقارعلی بھٹو سے لے کر موجودہ حکومت تک سب جمہوری حکمرانوں کو انہی روایات سے پیارہے تبھی تو ان کو سینے لاکر رکھنا فخرسمجھا جاتاہے اس صورت ِ حال کے ذمہ دار عوام بھی ہیں جوتسلیم بھی کرتے ہیں زبان سے اظہار بھی لیکن انہوں نے ان سیاسی جماعتوں کو ایمان کا حصہ بنایا ہواہے ۔۔جب بھی کوئی یہ پو چھتاہے کسی ایک سیاستدان کا نام لو جو سیاسی دوکاندار نہیں سب بغلیں جھانکتے لگتے ہیں۔ کمال، حیرت ،افسوس اور اس سے بڑھ کریہ شرم کی بات نہیں کہ ہمارا دامن خالی ہے ہم کسی سنگل پرسن کو بھی نہیں جانتے جس کے بارے میں دل گواہی دے کہ وہ سیاستدان ہے سیاسی دوکاندارنہیں یعنی یہ ایسا قحط الرجال ہے جس کے بارے میں علامتی طورپر کہا جا سکتا ہے
قافلہ ٔ حجاز میں ایک بھی حسین ؓ نہیں

جب تک اکثریت فیصلہ نہ کرلے کہ ہم نے اس ملک میں وہ جمہوریت لانے کی کوشش کرنی ہے جس کے ثمرات سے عوام فیضیاب ہوں تبدیلی آنا ممکن ہی نہیں اس حقیقت سے بھلا انکارکیا جا سکتاہے کہ موجودہ ارکان ِ اسمبلی کوعام آدمی کے مسائل سے دلچسپی ہے نہ تعلق۔ یہ عام آدمی کے بارے میں سوچتے بھی نہیں ہوں گے بیشتر سیاستدان قومی وسائل پر قابض ہیں جبکہ عام آدمی کودووقت کی روٹی کے لالے پڑے ہوئے ہیں بندہ پاؤ آدھا کلو گوشت لینے چلا جائے قصائی کا انداز ایسا بے رحم ہوتاہے غریب کا دل کرتاہے گوشت نہ کھائے اس سے بہتر ہے کہ زہر کھا لے ۔ ان حالات میں عمران خان کی بات نہیں انہوں نے صرف موروثی سیاست کے خلاف مورچہ سنبھالا ہواہے جبکہ شیخ الاسلام طاہر القادری اور شیخ رشید عوامی ایشوپر بات کرتے ہیں اور انکی بات دل کو لگتی ہے وہ موجودہ سسٹم کے خلاف ہیں جتنی منظم سٹریٹ پاور عوامی تحریک کے پاس ہے شاید کسی کے پاس نہ ہو اسی لئے کئی بزرجمہروں نے میاں نواز شریف کو ایک احمقانہ مشورہ دیا ہے کہ طاہر القادری کو گرفتار کرلیا جائے اس مشورے پر عمل کرلیا گیا تو حکومت زیرو شیخ الاسلام ہیرو بن جائیں گے اور دلچسپ بات یہ ہے کہ وہ پارلیمنٹ میں نہ ہونے کے باوجود اپوزیشن لیڈربن کر ابھریں گے۔۔۔ایک بات بڑی عجیب ہے شیخ رشید ،عمران خان اورطاہر القادری تینوں موجودہ حکومت کے خلاف ہیں ۔۔میاں نواز شریف کو ٹف ٹائم دینا بھی چاہتے ہیں لیکن ان میں بھی کوئی اشتراک ِ عمل نہیں ۔۔۔تال میل بھی نہیں ۔۔۔منصوبہ بندی نظر آرہی ہے نہ حکمت ِ عملی ۔۔۔ علیحدہ علیحدہ تنہا تنہا۔۔ کیا احتجاجی تحریکیں اس طرح بھی چلائی جا سکتی ہیں ایک نے خیابان ِ سہروردی میں میدان لگا رکھاہے دوسرا کئی میلوں دور میاں نوازشریف کو للکاررہاہے ایک مڈٹرم الیکشن کا مخالف دوسرا حامی ایک شہر میں موجود ہونے کے باوجود عمران خان اور طاہر القادری نے حکومت کے خلاف احتجاج کرنا پسند نہیں کیا حالانکہ اس سے سیاسی ٹمپریچر بڑھایا جاسکتا تھا اس سے ظاہر ہے پہ سب پرسنیلٹی کلیش ہے یا عمران خان کے دل میں ایسا ضرور کچھ ہے جس کی پردہ داری ہے یاپھر وہ ڈبل مائنڈڈ ہیں اس وقت صرف چوہدری برادران ۔۔۔میاں نوازشریف کو ٹین شین دینے کیلئے حکومت مخالف ہر سیاستدان سے رابطے کررہے ہیں کچھ لوگوں کا خیال ہے جس دن ان کی میاں صاحب سے لائن سیدھی ہوگئی یہ ٹائیں ٹائیں بھی قش ہو جائے گی۔۔۔بہرحال یہ بات غورطلب ہے کہ ہم اتنے تہی دامن ہیں کہ ہمارے پاس تمام دکاندارہیں کام کا سیاستدان ایک بھی نہیں دور کہیں دور استاد امانت علی ۔۔انشاء جی کی غزل گارہے تھے
جس جھولی میں سو چھید ہوئے
اس دامن کا پھیلانا کیا؟

اسلام آباد میں لاکھوں افرادکا سمندر۔۔۔عمران خان نے اپنے مطالبات تسلیم نہ کرنے کی صورت میں پارلیمنٹ پرچڑھائی کااعلان کیاہے جبکہ شیخ الالسلام نے قومی وصوبائی حکومتیں تحلیل کرنے کیلئے48 گھنٹوں کا الٹی میٹم دے رکھاہے سیشن کورٹ نے سانحہ ٔ ماڈل ٹاؤن میں وزیر ِ اعظم اور وزیر ِ اعلیٰ سمیت21افرادکے خلاف مقدمہ درج کرنے کا حکم بھی دیدیاہے یعنی حکومت کیلئے سردرد ہی سردرد۔۔۔ٹین شین ہی ٹین شین۔۔۔دیکھئے حکومت اس بحران سے کیسے نکلتی ہے۔

Sarwar Siddiqui
About the Author: Sarwar Siddiqui Read More Articles by Sarwar Siddiqui: 111 Articles with 84016 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.