ہم آہ بھی کرتے ہیں تو ہو جاتے ہیں بدنام
وہ قتل بھی کرتے ہیں تو چرچا نہیں ہوتا
میں اس شعر کے معنی اور مفہوم پر کوئی تجزیہ پیش نہیں کرنا چاہتا کیونکہ اس
شعر کا ہر ہر لفظ بہت واضح ہے۔ مگر اتنا عرض ضرور کرنا چاہوں گا کہ مذکورہ
شعر ہمارے ملک کے سادہ دل اور غیور باسیوں کی ستم دیدگی کا بھرپور عکاسی
کرتا ہے۔ ان کی داد اور فریاد صدا بہ صحرا ہی ثابت ہوتی ہے۔ دادرسی کو کوئی
سننے والا نہیں، کوئی اتنی جرأت اور طاقت نہیں رکھتا کہ آوازِ حق بلند کر
سکے اور طالبِ انصاف کو انصاف دلوا سکے۔ بیرونی طاقتیں تشدد کو ہوا دیتی
رہتی ہیں،دہشت کی فضا بناتی ہیں اور ان کے گناہوں کی پاداش میں غریب، سادہ
لوح عوام پستے رہتے ہیں۔ گذشتہ بیس بائیس سالوں سے ملک مدامنی کا شکار ہے۔
قتل و غارت گری اور نشانہ وار قتل جیسے جرائم روز کا حصہ بن گئے ہیں۔ امن و
قانون کو قائم و دائم رکھنے والی طاقتیں اپنی وردی کی آن بان کھو چکی ہے۔
کئی بار یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ قانون کی عظمت کو برقرار رکھنے والی
طاقتیں خود قانون شکنی کے مرتکب ہو جاتے ہیں۔ اور مظلوم کے بجائے ظالم کی
ہمنوائی کرنے میں انہیں کوئی عار نہیں ہوتا۔بس ایک افواجِ پاکستان ہی ہے جس
پر سب کی نظریں مرکوز ہیں۔
دوسری طرف ہمارے ملک میں آج کل خاص طور سے سیاسی رسہ کشی میں بے انتہا
اضافہ ہو گیا ہے۔ آزادی مارچ، انقلاب مارچ، سب ہی دارالحکومت کی طرف رواں
دواں ہیں۔ اور جب آپ یہ سطور پڑھ رہے ہونگے تو یہ کارواں مارگلہ کی وادیوں
میں داخل ہو چکا ہوگا۔ ان کا مطالبہ ہے کہ وزیراعظم سے استعفیٰ لے کر نیا
نظام بنائیں گے۔ مطلب نیا پاکستان بنائیں گے۔ جس میں ۳۵ سے ۳۸ صوبوں کا
خواب بھی عوام کو دکھایا گیا ہے۔ مہنگائی میں پہلے ہی ماہ کمی کا سپنا بھی
شامل ہے۔ اور ایسی ہی کئی لازمی بنیادی سہولتیں بھی ہیں جن کی عوام کو اس
تیز رفتار دور میں از حد ضرورت ہے۔ مگر کیا ایسا ممکن ہے؟ اصلاحات کی باتیں
پارلیمنٹ میں بھی کی جا سکتی ہیں اگر سب کے نیت صاف ہوں۔ اور یہ بھی ہو
سکتا ہے کہ اگر اپوزیشن والے یہ سب کچھ کرنے کا حوصلہ رکھتے ہیں تو حکمران
ایسا کرنے میں کیوں پہل نہیں کرتے۔ آزادی کے ۶۸ سالوں بعد بھی ہم اُسی چار
صوبوں پر قناعت کئے بیٹھے ہیں۔ جبکہ ہمارا پڑوسی ملک کتنے ہی نئے صوبے
تخلیق کر چکا ہے۔ مہنگائی کا تناسب بھی پڑوسی ملک میں کم ہے جبکہ ہمارا ملک
اُس سے کہیں چھوٹا ہے اور عوام کا حجم بھی وہاں کے مقابلے میں بہت کم ہے تو
یہ سب کچھ ہم کیوں نہیں حاصل کر سکتے۔ سب کچھ کر سکتے ہیں اگر نیت صاف ہو
تب۔ وگرنہ تو ہم آج تک جس طرح ایک دوسرے کے ساتھ باہم دست و گریباں رہے ہیں
آئندہ بھی یہی سب کچھ چلتا رہے گا اور یہاں کے عوام ہمیشہ کی طرح اب بھی
ٹھوکروں میں جیتے رہیں گے۔
ایک اہم سوال یہ ہے کہ شریف سرکار جو سب کو ساتھ لے کر چلنے کے دعوے اور بے
روزگاری، رشوت ستانی اور مہنگائی کو مٹانے کے وعدوں کے ساتھ اقتدار میں
آئی، اس کو ان موضوعات کو چھیڑنے کی ایسی جلدی کیوں پڑی تھی؟ کہ جس سے ملک
میں مارچ کا سلسلہ شروع ہو۔ خیر جمہوری دور کا زمانہ ہے اب جتنا بھی جمہور
ملک میں ہے اسی پر قناعت کیا جانا چاہیئے۔ اور جمہوریت میں مارچ تو ہوتے ہی
رہتے ہیں، انہیں بھی آزادی کے ساتھ مارچ کرنے کا مکمل اختیار ہونا چاہیئے۔
اور حکومت کو چاہیئے کہ وہ لچک کا مظاہرہ کرتے ہوئے اُن سے مذاکرات کرے
تاکہ معاملہ افہام و تفہیم کی طرف گامزن ہو۔ راقم کے خیال میں مارچ ضرور ہو
مگر مہنگائی کے خلاف، دہشت گردی کے خلاف، لوڈ شیڈنگ کے خلاف، پانی کی عدم
فراہمی کے خلاف، بے روزگاری کو دور کرنے کے خلاف ، اور بھی ایسے دیگر ایشوز
ہیں جن کے لئے عملی مظاہرے کی ضرورت ہے۔ کپتان اور قادری صاحب نے جو مارچ
شروع کیا ہے اس میں نظام کی تبدیلی کے ساتھ ان سب ایشوز کو بھی شامل کر لیں
تو ان کا ایجنڈا بھی عوامی ہو جائے گا۔ بلدیاتی الیکشن نہ ہونے کی وجہ سے
ملک میں نچلے طبقے تک اقتدار کی منتقلی عمل میں نہیں آئی جس سے بنیادی
بلدیاتی مسائل کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔ حکومت کو
چاہیئے کہ فی الفور بلدیاتی الیکشن کرائے تاکہ عوام کوبلدیاتی انصاف ان کے
دروازے پر میسر ہو سکے۔
ہماری سیاست بھی گرگٹ کی مانند ہے ۔ پَل پَل میں رنگ بدلتی ہے۔ الیکشن میں
سیاستدان حریفوں پر لعن طعن اور الزامات کی بوچھار کرتے ہیں اور جب اپنی
محفلوں میں ملتے ہیں تو ان سا دوست کوئی نہیں ہوتا۔ حصولِ اقتدار کے لئے
سیاست کا عمل کچھ اور ہوتا ہے اور اقتدار حاصل کرنے کے بعد سیاست کے رنگ و
روپ کچھ اور ہوتے ہیں۔ پاکستان میں اقتدار و سیاست نئی کروٹ لے چکی ہے، اس
کروٹ نے پاکستان کے سیاسی اُفق پر نئی لالی بکھیرنے کی کوشش کی ہے۔ ابرِ
رحمت بھی مارگلہ میں زور و شور سے جاری ہے اور آزادی و انقلاب مارچ بھی ۔
ایک طرف حکومت ہے تو دوسری طرف مارچ والے، دیکھئے کامیابی و کامرانی کی
دیوی کس پر مہربان ہوتی ہے۔
’’گر تو بُرا نہ مانے ‘‘تو ایک اور حقیقت سے پردہ اُٹھا دوں کہ ۶۸ برسوں سے
پاکستانیوں کے کاسۂ مقدر میں دو ہی چیزیں زیادہ ڈالی گئی ہیں۔ اوّل تو
فسادات و قتل و غارت کا لا متناہی سلسلہ، دوم سنہرے وعدوں کا سبز باغ اور
دلکش اعلانات کی بھرمار۔ آزادی کے بعد سے تاحال ان دونوں چیزوں نے
پاکستانیوں کی ترقی اور بہبود کے قدموں میں زنجیر ڈال کر انہیں آگے بڑھنے
سے روکنے کا کام کیا تو دوسری طرف اعلانا ت اور وعدوں کے سبز باغ نے ملت کے
مایوس فکر و ذہن کی رگوں میں ایک اُمید کی لہر دوڑانے کا کام کیا۔ دونوں
طرف سیاست کی بازی گری ہے۔ یہ تجارت اور یہ حکمتِ عملی کا کھیل آج بھی جاری
ہے۔
تیری انجمن میں ظالم عجب اہتمام دیکھا
کہیں زندگی کی بارش کہیں قتلِ عام دیکھا
اس بات میں کوئی شق نہیں کہ ملک کے عوام خاص کر نوجوان طبقہ ملک کی گندی
سیاست میں انقلابی تبدیلی چاہتا ہے۔ ایک ایسی مثبت تبدیلی جس میں ملک کا ہر
شہری بلا لحاظ ذات، رنگ، نسل و طبقہ یکساں ترقی کر پائے۔ ایک ایسی تبدیلی
جس میں عوام اور ملک کی ترقی ہی حکومت کی اوّلین ترجیح ہو۔ سیاسی سازشیں،
بدلے، انتقام اور اقربا پروری و بد عنوانیوں سے پاک ماحول آج کے ہر
پاکستانی کی خواہش ہے اور اپنی ان ہی خواہشات کی تکمیل کے لئے ہی اس نے
اپنا حق استعمال کیا ہے اور مارچ میں شامل بھی ہیں۔ اگر اس مرتبہ بھی
نامراد ہی رہ گیا تو پھر جمہوریت اور سیاست پر سے نوجوان نسل کا بھروسہ ہی
ختم ہو جائے گا جو نہ صرف سیاسی پارٹیوں کی بقاء بلکہ ملک کی جمہوریت اور
استحکام کے لئے بھی شدید نقصاندہ ہوگا۔ حکومت کو اس سلسلے میں مثبت اقدام
اٹھانے کی ضرورت ہے ورنہ عوام یہ سوچنے لگیں گے کہ ’’ غضب کیا تیرے وعدے پر
اعتبار کیا……‘‘ |