آج کل ایسا ویسا لکھنے کا رواج
عام ہے تو سوچا کہ ایک کالم کاغذ کی کشتی بنا کر بارش کے بہتے پانی میں بہا
دوں ۔ ارادہ پکا تھا کہ خود فریبی میں مبتلا قوم عمار کو ضرور ایک معمار کی
ضرورت پیش آ سکتی ہے تو اپنی خدمات پیش کر کے دیکھوں کیا نتیجہ نکلتا ہے ۔
امتحانات کے نتائج توتینتیس اور پچاس کے درمیان ہی رہے ۔ اگر معماری کا
کنٹریکٹ ہاتھ لگ جائے تو چھیاسٹھ تک گنتی پہنچ سکتی ہے ۔ پھر چاہے قانون
بدل دوں یا آئین ۔ پوچھے گا کون ۔
معمارقوم بیمار ہوا تو بنیاد پر ہی کام رک گیا ۔ اس کے بعد ایک کے بعد ایک
نیا خودساختہ معمار بنیاد میں ڈالے گئے مضبوط کنکریٹ کو بھول بھلیاں سمجھنے
کا شکار رہا ۔ باورچی خانہ کی جگہ باتھ روم تو ڈرائینگ روم کی جگہ کچن
بناتا چلا گیا ۔ نیا نئے سرے سے معمار کے آئیڈیا کو جانچتا یہ کہہ کر یہ
نقشہ اصل معمار کی بنیاد سے میل نہیں رکھتا ۔ پھر سے بنیاد تک بلڈنگ ڈھا
دیتا ۔ کیونکہ وہ جانتا ہے کہ
مسجد ڈھا دے مندر ڈھادے
ڈھیندا جو کجھ ڈھا دے
اک بندے دا دِل ناں ڈھاویں
رب!دلاں اندر رھیندا
اور یہ سب انہوں نے خوف خدا سے کیا کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ اٹھانے گرانے سے
رب کی ناراضگی کا انہیں اندیشہ نہیں ۔ دلوں میں اس کی یاد خوشبو کی طرح بس
چکی ہے ۔ ایک ہلکا سا ترانہ بجانے اور جھنڈا لہرانے سے وہ مہک اُٹھے گا ۔
زنجیر سے باندھے مست ہاتھی کے جوش سے بڑھ کر جوشیلا پن نعروں کی گونج میں
مترنم ہو گا ۔
عمارت کا کیا ہے ۔معماری کا ایک شاہکار ہی تو ہے ۔ بنیاد تو پھر بھی رہ
جائے گی ہڑپہ اور مونجو ڈھارو کی طرح جہاں صرف عمارتیں ملیا میٹ ہو چکی ہیں
۔ تاریخ بنیاد سےخود پتہ چلا لے گی کیا کہاں تھا ۔ جب عمارت کا وجود ہی
تاریخ کے لئے ضروری نہیں تو پھر اسے مضبوط کرنے کے لئے خون جگر دینے کی
ضرورت آج کے معمار نہیں سمجھتے ۔
جیسے خون وہ مچھروں کو دیتے ہیں ۔ بات کاٹنے کی کرتے ہیں ۔ یہی حال معماروں
کا ہے لوٹتے مال ہیں الزام ان پر کال کے ہیں ۔
فرق صرف اتنا ہے مچھروں میں ڈینگی وائرس پھیلانے والا کوئی کوئی ہے ۔
معماروں کے ہاتھ سے بچتا کوئی کوئی ہے ۔ جو بچ جائے وہ ڈریکولا نہیں بنتا
دوسری طرف معماروں کے کاٹے خود خون چوسنے کی بیماری کا شکار ہو جاتے ہیں ۔
مریض اپنے اپنے مسیحا ء کی لمبی عمر کی دعا سے دم بھرتے ہیں ۔ جب کہ دوسروں
کی تعریف سے سانس ان کے رکتے ہیں ۔
اگر سب ہی خون چوسنے والے بن جائیں تو خون دینے والے کہاں سے لائے جائیں گے
۔ شائد اسی لئے خاندانی منصوبہ بندی پر عملداری سے روکا جاتا رہا ۔ کیونکہ
جمہوریت میں انسان تولے نہیں گنے جاتے ہیں ۔ گنتی میں بھاری ہلکے سب چل
جائیں گے ۔ حالات تولنے کے ہوئے تو راشن کے بٹوارے کا خطرہ ہے ۔ ایک غلطی
کا خمیازہ 71 میں بٹوارہ کی صورت میں بھگت چکے ہیں ۔ اب پھر راشن کی تقسیم
کا رولا پڑ چکا ہے ۔ پانی راشن نہ سہی اجناس راشن کا سبب تو ہے ۔ زمین کے
مقدر میں اس کا جزب ہونا نہ لکھا ہو ۔ سمندر میں غرق ہونے سے جو پھر بادل
بن اُٹھ جائے تو ہونٹوں پہ مسکراہٹ کیوں نہ چپک جائے ۔اگر نہ برسے تو یہ
کہنا کہاں جائز قرار پائے گا کہ
میرے گھر کے بادل گرج کر گزر گئے
تیرے گھر کے بادل برس کر بکھر گئے
میری شاخِ شجر کے پتے اتر گئے
تیرے پھول بھی کھل کر نکھر گئے
شکوے تو معماروں سے ہیں ۔ نہ گل سے نہ گلزاروں سے ۔ |