خدا کے نام پر خلق خدا مٹا رہے ہیں

ان دنوں عالم اسلام کے تقریباً تمام ممالک ہی اغیار کی بیداری و عیاری اور مسلمانوں کی نااہلی و کاہلی کی وجہ سے بری طرح عدم استحکام کا شکار ہیں۔ چند ایک کے سوا ہر مسلم حکومت موجودہ حالات سے نمٹنے میں نہ صرف ناکام دکھائی دے رہی ہے، بلکہ خاصی بوکھلاہٹ کا شکار بھی ہے اور حالات بہتر ہونے کی بجائے دن بدن بدتر ہورہے ہیں۔ ”لڑاﺅ اور حکومت کرو“ کے استعماری فلسفے کی بدولت عالم اسلام میں سکون و چین عنقا ہوچکا ہے اورپورا عالم اسلام زخموں سے چوراور لہولہان ہے۔ ہر صبح نکلنے والا سورج ان زخموں میں اضافہ اور آتش فشاں بننے کی نوید سناتا ہے۔ بم دھماکے، خودکش حملے اور قتل و غارت گری کا عفریت منہ کھولے امت مسلمہ کو ہڑپ کرنے کو بے چین نظر آتا ہے۔ ہواﺅں میں تخریب کی ایک ب ±و سی رچی بسی ہے۔ عالم اسلام کی سوگوار فضائیںآہ و بکا اور سسکیوں سے گونج رہی ہیں، آشیانے ویران ہو رہے ہیں، بچے یتیم، بیویاں بیوہ اور ماﺅں کی آنکھیں تاریک ہو رہی ہیں۔ مسلمانوں کی لاشیں خزاں رسیدہ پتوں کی طرح گر رہی ہیں اور انسانی جان سمندر کے ساحل پہ بکھری ریت کے ذروں سے بھی ارزاں معلوم ہوتی ہے۔ مسلم ممالک شورش زدہ ممالک میں تو سرفہرست، جب کہ پرامن ممالک کی فہرست کی آخری سطروں میں بھی نام نظر نہیں آتا۔ سب سے خوفناک و خطرناک بات تو یہ ہے کہ ایسے تباہ کن حالات پیدا کرنے میں دشمن کم، مسلمان زیادہ ملوث ہیں۔ مسلمان خود ہی اپنے مسلمان بھائیوں کو قتل کرنے اور مسلم ممالک کو تباہ و برباد کرنے میں مشغول ہیں، قتل ہونے والے بھی اسلام کے ماننے والے اور قتل کرنے والے بھی اسلام کے پیروکار ہیں۔ دشمن کا کام صرف تیلی لگانا ہے، جبکہ ان کا باقی سارا کام خود ہی سرانجام دیتے ہوئے مسلم ممالک میں خونریزی کی بڑھکتی ہوئی آگ پر تیل بھی خود مسلمان ہی ڈال رہے ہیں۔ بقول شاعر مسلم ممالک کی حالت کچھ یوں دکھائی دیتی ہے
دل کے پھپھولے جل اٹھے سینے کے داغ سے
اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے

جب مسلمان خود ہی اپنے ممالک کو برباد کرنے اور اپنے ہی مسلمان بھائیوں کو تہہ و تیغ کرنے پر تلے ہوں تو پھر کسی دوسرے سے کیا گلہ۔ اگر ہم پوری دنیا پر ایک طائرانہ نظر دوڑائیں تو ہمیں قتل و قتال اور خونریزی مسلمان ممالک میں ہی دیکھنے کو ملتی ہے اور وہ بھی مسلمانوں کے ہی ہاتھوں۔ مسلم ممالک میں مسلمانوں کے ہاتھوں بے تحاشہ مسلمانوں کا خون بہایا جارہا ہے۔ گزشتہ ماہ ترکی میں منعقدہ استنبول کانفرنس کے دوران اس بات کا انکشاف کیا گیا تھا کہ ”دنیا بھر میں روزانہ ایک ہزار مسلمان قتل کیے جاتے ہیں اور ان کے 90 فی صد قاتل بھی مسلمان ہی ہوتے ہیں۔ نہ صرف شام اور عراق، بلکہ لیبیا، پاکستان اور افریقہ میں مسلمانوں کو ان کے اپنے مسلمان بھائی ہی قتل کر رہے ہیں۔ بغداد اور دمشق سمیت اسلامی دنیا کے کئی علاقوں میں مصائب، تشدد اور تنازعات ہر مسلمان کے دلوں کو گہرا زخمی کر تے ہیں۔ بوکو حرام اور آئی ایس آئی ایل جیسی مذہبی تنظیموں کے واقعات جدید زمانے میں اسلامی تہذیب کو زنگ آلود کر رہے ہیں۔“ اسی طرح گزشتہ دنوں سعودی عرب کے مفتی اعظم عبد العزیز آل الشیخ نے بھی مسلم ممالک میں مسلمانوں کے ہاتھوں ہونے والے قتل عام کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے: ”کسی مومن کا دوسرے مومن کو جان بوجھ کر قتل کرنا قطعاً جائز نہیں۔ درست ایمان کا تقاضہ ہے کہ مسلمانوں کی زندگیوں کا احترام کیا جائے، قتل کرنا کمال ایمان کی ضد اور کمی کی دلیل ہے۔ آج قتل مقاتلے کی انتہائی قابل نفرت صورتیں ہمارے سامنے آ رہی ہیں۔ یہ اقدامات اسلام دشمنی کا پہلا مرحلہ ہیں۔ ان جرائم کا پرچار میڈیا پر دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ مسلمان دوسرے مسلمانوں کو کیسے قتل کرتا ہے۔ ایسے قتل کے مرتکب افراد کے ڈانڈے بین الاقوامی خفیہ ایجنسیوں سے ملتے ہیں۔ اسلام کی داعی انتہا پسند جماعتیں بین الاقوامی خفیہ ایجنسیوں کی پیداوار ہیں، ان کا مقصد زمین میں فساد پھیلانا ہے۔ یہی مسلمانوں کا خون بہانے کے درپے ہیں اور یہی بڑے بڑے جرائم کا ارتکاب کر رہے ہیں۔ اسلامی شریعت کا ان معاملات سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ تمام مسلمانوں کو انہیں مسترد کرنے کا حق حاصل ہے۔ یہ جماعتیں اپنے جرائم کو اسلام کا نام دے کر چھپانے کی کوشش کرتی ہیں اور حتمی طور پر اسے ”جہاد“ قرار دیتی ہیں۔ جو لوگ اپنی غیر اسلامی حرکتوں کو جہاد کا نام دیتے ہیں، انہیں جان لینا چاہے کہ وہ جہاد نہیں، بلکہ ظلم اور زیادتی کا ارتکاب کر رہے ہیں، جو کسی طور جہاد قرار نہیں دی جا سکتی۔ مسلمان نوجوان ان انتہا پسند جماعتوں کا ہدف نہ بنیں، کیونکہ ان کی نیت زمین میں فساد پھیلانا ہے۔“

یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ مسلمان ملکوں میں ایسے سادہ لوح اور انتہا پسند افراد کی بہتات ہے، جو بعض انتہا پسند مذہبی پیشواﺅں اور تنظیموں کے ہاتھوں اسلام کے نام پر آسانی سے استعمال ہوجاتے ہیں اور ان نوجوانوں کو استعمال کرنے والے بہت سے عناصر کی باگ ڈور بھی طاغوتی طاقتوں کے ہاتھ میں ہوتی ہے۔ میڈیا پر یہ خبریں آچکی ہیں کہ مختصر مدت میں انتہا پسند جماعتوں کی بہتات طاغوتی طاقتوں کی کاوشوں کا نتیجہ ہے، جس کا مقصد مسلم ممالک کو عدم استحکام کا شکار کرنا ہے۔ مسلم دشمن عناصر سادہ لوح مسلم افراد کو اسلامی نظام کی جدوجہد کا جھانسا دے کر اپنے دام فریب میں جکڑ لیتے ہیں اور پھر ان سے ان کے ہی مسلمان بھائیوں کو قتل کرواتے ہیں۔ اس طرح یہ سادہ لوح افراد دانستہ یا غیر دانستہ طور پر طاغوتی قوتوں کا کام آسان کر رہے ہوتے ہیں۔ اسلام نے ”مسلم امہ“ کو بالکل واضح الفاظ میں یہ سمجھایا ہے کہ مسلمان کی جان، مال اور آبرو دوسرے مسلمان پر حرام ہے۔ ایک بار ہادی عالم نے فرمایا: ”کسی مسلمان کی جان، مال اور آبرو کا تقدس کعبہ سے بھی زیادہ ہے۔ کسی مسلمان کی جان، مال اور آبرو پر ناحق حملہ آور ہونا کعبہ کو ڈھا دینے سے بھی بڑا جرم ہے، (مفہوم)۔ ایک حدیث میں ارشاد ہے: ”جو مسلمان پر ہتھیار اٹھائے وہ ہم میں سے نہیں۔“ نبی برحق نے یہ بھی فرمایا: ”جب دو مسلمان ایک دوسرے کے خلاف ہتھیار اٹھالیں تو وہ جہنم کے کنارے پر ہوتے ہیں اور پھر جب ان میں سے ایک دوسرے کو قتل کر ڈالے تو دونوں جہنم میں داخل ہوجاتے ہیں۔“ صحابہؓ نے عرض کیا: ”اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! ہمارا سب کچھ آپ پر قربان، بات سمجھ نہیں سکے، قاتل کا جہنمی ہونا تو سمجھ میں آتا ہے، مقتول کیسے جہنمی ہو گیا؟“ تو کائنات کے کامل ترین رہنما نے فرمایا ”کیونکہ ارادہ تو مقتول کا بھی اپنے مسلمان بھائی کو قتل کرنے کا تھا۔“ ان کھلی مذہبی تنبیہات کے باوجود بھی مسلمان اپنے مسلمان بھائیوں کو مذہب کے نام پر ہی قتل کر تے ہیں۔ حالانکہ یہی مذہب اسلام تو کہتا ہے کہ ایک انسان کی جان کا قتل پوری انسانیت کے قتل کے مترادف ہے۔ اس سے زیادہ افسوس کی بات کیا ہوگی کہ جو مذہب انسانی جان کی جتنی زیادہ تاکید کے ساتھ حرمت بتاتا ہے، مسلمان اسی مذہب کے نام پر اس کی اتنی ہی زیادہ بے حرمتی کر رہے ہیں۔ ان حالات میں فقیر علی زریون کا یہ شعر یاد آتا ہے
دکھا ہوا ہوں میں ان سب سے علی زریون
خدا کے نام پر خلق خدا مٹا رہے ہیں
عابد محمود عزام
About the Author: عابد محمود عزام Read More Articles by عابد محمود عزام: 869 Articles with 701101 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.