قومی کھیل

سردار جاوید یعقوب میرے بڑے پیارے دوست ہیں یہ وزیر اعظم آزاد کشمیر کے مشیر بھی ہیں پیپلز پارٹی کے متحرک کارکن اور محترمہ بینظیر بھٹو کے انتہائی قریبی ساتھی بھی رہے ہیں۔متحدہ عرب امارات میں کامیاب کشمیری بزنس مین ہیں اور تارکین وطن کے لیے خدمات کے صلے میں حکومت نے انہیں سفیر پاکستان کے ایوارڈ سے بھی نوازا ہے۔ان کے والد محترم سردار یعقوب خان صاحب موجودہ ذکواۃ چیرمین ضلع سدھنوتی پیپلز پارٹی آزاد کشمیر کے بانی رہنماؤں میں سے ہیں اورایک متحرک سیاسی رہنماء بھی ۔محترمہ بینظیر بھٹو جب بھی کشمیر میں پیپلز پارٹی کی قیادت کے متعلق کوئی فیصلہ کرتی تھیں تو دبئی میں مقیم وہ صرف اپنے دو ساتھیوں پر اعتماد کرتی تھیں ایک سردار جاوید یعقوب اور دوسرے موجودہ مشیر حکومت راجہ مبشر اعجاز جو کہ ہمارے مشترکہ دوست ہیں۔متحدہ عرب امارات میں محترمہ بینظیر بھٹو کی تمام تقریبات کا اہتمام سردار جاوید یعقوب کے ذمہ ہوتا تھا سیاسی اموراور پبلک ری لیشن راجہ مبشر اعجا ز کے ذمہ ہوتی تھیں۔مشیر حکومت سردار جاوید یعقوب اور راجہ مبشر اعجاز کوسیاست کے میدان میں اﷲ تعالیٰ نے آج جس عزت،جس مقام اور جس مرتبے سے انہیں نوازا ہے اس میں اﷲ تبارک و تعالیٰ کے فضل و کرم کے بعد انکی اپنی جہد مسلسل ، انتھک کاوشوں،اور پارٹی کے ساتھ دیرینہ وابستگی کا نتیجہ ہے۔راجہ مبشر اعجاز اپنی قابلیت ،محنت،ذہانت اور جہد مسلسل کی بنیاد پر آج اس مقام پر پہنچے ہیں اور حلقہ ایل۔اے۔13 غربی باغ میں مسلم کانفرنس کے علاہ یہ پہلے فلیگ ہولڈر ہیں۔یہ ماضی میں محترمہ بینظیر بھٹو کی ہدائت پر انٹرنیشنل سوشلسٹ کانگرس (جو کہ پوری دنیا کی سوشل تنظیموں کا پلیٹ فارم ہے) کے اجلاس جو کہ اٹلی میں منعقد ہوا تھا میں پاکستان پیپلز پارٹی کی نمائندگی بھی کر چکے ہیں ،سابق وزیر اعظم آزاد کشمیر مرحوم ممتاز راٹھور صاحب کے دستِ راست انہوں نے سیاست کا اغاز کیا تھا اور ایک جیالے کی طرح ہمیشہ اپنی پارٹی کے ساتھ وفاداری نبھائی آمریت کے دور میں جمہوریت اور پارٹی کے لیے لاٹھی چارج اور آمرانہ ریاستی تشدد کا نشانہ بنتے رہے جیلیں کاٹی اور آخر کار اس منزل تک پہنچ گئے جس کے لیے ہر سیاسی کارکن تگ و دو کرتا ہے ۔اب مجھے قوی امید ہے کہ وہ حلقہ ایل۔اے۔13 غربی باغ کے عوام کی 67 سالہ محرومیوں کو دور کرنے اور مسلم کانفرنس کی استحصال زدہ عوام کے مسائل حل کرنے میں اپنی توانائیاں اسی ایماندار ی اور جذبے کے ساتھ صرف کریں گئے جس طرح یہ منزل پانے کے لیے انھوں نے مسلسل کوشش کی ہے۔مشیر حکومت سردار جاوید یعقوب سے میں اکثر پوچھتا ہوں کہ کشمیر ی لوگ ترقی کیوں نہیں کرتے تو انکا ایک ہی جواب ہوتا ہے کہ ہماری ترقی کی رہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہمارا ’’قومی کھیل ‘‘ہے پہلی مرتبہ جب میں نے ان سے یہ سوال پوچھا تو میں جواب سن کر حیران رہ گیا کہ’’ قومی کھیل ‘‘کیسے ترقی کی رہ میں رکاوٹ ہو سکتا ہے۔میں نے وضاحت چاہی تو کہنے لگے کہ ایک دوسرے کی’’ ٹانگ کھینچنا‘‘ ہمارا ’’قومی کھیل‘‘ ہے جو ہمیں معاشرتی اور معاشی دونوں لحاظ سے آگے نہیں بڑھنے دے رہامیں نے انکی بات کے ساتھ سو فیصد اتفاق کیااور آج تک میں متفق ہیں۔ہم اپنی مختصر سی زندگی کو بھی ایک دوسرے کی ٹانگ کھنچنے اور عداوتوں کے پیچھے ضائع کر دیتے ہیں جبکہ ترقی یافتہ ممالک کا اگر آپ جائزہ لیں تو وہاں آپکو حالات اس کے برعکس نظر آئیں گئے وہاں لو گ محنتی بھی ذمہ دار بھی اور تحمل مزاج بھی جبکہ ہمارے ہاں محنت ،ذمہ داری اور تحمل مزاجی کافقدان پایا جاتاہے جس کی وجہ سے ہمارے رویوں میں شدت آگئی ہے اور یہ شدت اب نہ صرف ہمارا نصب العین بنتی جارہی ہے بلکہ ہماری آنے والی نسلوں میں بھی اس شدت اور مایوس کن رویے کی منتقلی ہو رہی جو کسی المیے سے کم نہیں ۔ترقی یافتہ ممالک میں اگر کوئی اچھا کام کرے یا محنت کے بل بوتے پر کامیابی کی منزلیں طے کرتا ہوا کسی مقام تک پہنچ جائے تو لوگ اس کی تعریف کرتے ہیں اور اس کو رول ماڈل کی حیثیت سے دیکھتے ہیں حکومتیں اس کے لیے ایوارڈ دیتی ہیں جبکہ ہمارے معاشرے میں اگر کوئی محنت ،ایمانداری،اور خلوص نیت سے کام کر کے کامیابی حاصل کر لے تو بقول سردار جاوید یعقوب صاحب کے ہم اسے ٹانگ کھنچنے والے ’’قومی کھیل ‘‘ میں الجھا لیتے ہیں ۔اس بات سے ہم اندازہ کر سکتے ہیں ہم کس قدر معاشرتی زوال کا شکار ہو چکے ہیں۔ہم اپنے بچے کی پیدائش سے لیکر کر بلوغت تک ایک ایسا ماحول فراہم کر رہے ہیں جس میں نفرت،برادری ازم،علاقائی تعصب،سستی،کاہلی،کام چوری،بدعنوانی غرض کہ ہر برائی پائی جاتی ہے۔لیکن ہم معاشرتی طور پر اتنے زوال پذیر ہو چکے ہیں کہ ہمیں یہ ساری چیزیں زندگی گزارنے کا اصل ڈھنگ نظرا ٓتی ہیں۔آپ سکول سے لیکر ہسپتال تک ،محلے اور گاؤں سے لیکر ٹرانسپورٹ، بازار دکان تک آنکھیں کھول کر جائزہ لیں تو یہ بات ضرور آشکار ہو گی کہ ہم برادری اورخاندان کی حدوں میں تقسیم میں ہیں،آپ سکول سے شروع کریں راجپوتوں کا سکول الگ،گجر کا سکول الگ،راٹھور،کا سکول الگ،شیخ، خواجہ، پٹھان، کیانی ،کا الگ،سدھن،ملدیال، عباسی کا الگ الگ ،ایک برادری اپنے بچوں کو دوسری برادری کے سکول میں داخل نہیں کرواتی،میں نے خود تین برادریوں کے منشور پڑھے جس میں واضع طور پر یہ لکھا ہوا تھا اور برادری کے دیگر لوگوں کو اس بات کا پابند بنایا گیا تھا اور منشور کی خلاف ورزی پر بھاری جرمانے اور برادری کے سامنے جوابدہ ہونے کی شق بھی منشور میں شامل تھی کہ اپنے بچوں کو اپنی برادری کے سکول میں داخل کروانا ہے،بازار سے سودا خریدنا ہو تو غیر برادری والے کی دکان سے نہیں خریدنا،سفر کرنا ہو تو غیر برادری کی گاڑی پر سفر نہیں کرنا،میڈیکل سٹور سے دوائی خریدنی ہے تو میڈیکل سٹور اپنی برادری کے بندے کا ہونا ضروری ہے ۔ یہی حال مساجد کا بھی ہوتا جا رہا ہے جہاں مساجد بھی برادریوں کی بنیاد پر تعمیر ہو رہی ہیں جب ہم اپنے بچوں کو یہ تربیت دیں گئے ایسی اخلاقیات سکھائیں گئے تو ہم کیسے توقع کر سکتے ہیں کہ مستقبل میں یہ بچے ایک بہترین ،تعلیم یافتہ، قابل،اہل،مذہبی ،مساوات اور بھائی چارے پر مبنی مثالی معاشرہ قائم کریں گئے ۔ من حیث القوم ہمارا یہ حال ہے کہ ہم زندہ لوگوں کے منہ سے نوالہ چھیننے والے اور مرے ہوئے لوگوں کی قبروں پر لاکھوں روپے کی دیگیں پکا پکاکر دینے والے لوگ ہیں۔دین کو دوکانداری بنا دیا ہے جسکی ایک مثال یہ کہ آپ اپنے کسی مرحوم عزیز کے ایصال ثواب کے لیے پڑھے ہوئے قرآن مجید کا ثواب خرید کر(نعوزباﷲ) مرحوم کو بخشوا سکتے ہیں۔حد یہاں تک پہنچ چکی ہے معاشرہ یہاں تک گر چکا ہے کہ بیٹیوں کا رشتہ طے کرنے سے پہلے لڑکے بارے میں معلوم کیا جاتا ہے کہ نوکری کیسی ہے اور تنخواہ کے ساتھ حرام کا کتنا’’مال‘‘ اور کماتا ہے ۔جب ہم اپنے بچوں کو اس برتری کی تربیت دیتے ہیں جو نہ ہمارے مذہب میں ہے نہ اخلاقیات میں اور نہ ہی معاشرتی روایات میں تو کس طرح ایک سلجھا ہوا پُر امن اور تہذیب یافتہ معاشرے کی امید کر سکتے ہیں۔جس معاشرے میں نسان کی سوچ اس حد تک گر جائے تو اس معاشرے کو تباہی سے کوئی نہیں بچا سکتا ۔جب تک ہم ایک دوسرے ٹانگ کھنچنے والا ’’قومی کھیل‘‘ ترق نہیں کریں گئے جب تک ہم بلا تفریق رنگ و نسل،علاقے ،زبان،مسلک،اور مذہب کی قید سے ہٹ کر انسانیت کے لیے آسانیاں پھیلانے والے نہیں بنیں گئے تب تک امن کی شمع روشن نہیں ہو سکتی ،بیروزگاری ،غربت ، جہالت، اور اقرباء پروری کے سائے ہمارے سروں پر منڈلاتے رہیں گئے۔اور آخر ایک دن تباہی کے اس گھڑے میں جا کر گریں گئے جہاں سے نکلنا ہمارے لیے ممکن نہیں رہے گا ۔

Asif Rathore
About the Author: Asif Rathore Read More Articles by Asif Rathore: 14 Articles with 11521 views writer . columnist
Chief Editor Daily Haveli News web news paper
.. View More