اکثر کہا جاتا ہے کہ عورت کی اصل دشمن کوئی عورت ہی ہوتی
ہے۔ کبھی ساس،کبھی بہو اور کبھی کسی اور روپ میں کچھ ایسے ہی جمہوریت کے
اصل دشمن بھی سیاست دان ہی ہوتے ہیں۔حکومت حاصل کرنے کے لیے فوج کو آوازیں
دیتے ہیں۔بہانہ بناتے ہیں حالات کی خرابی کا تو کبھی اپنے مخالف پر ملک
دشمنی کا میڈیا پر شور مچاتے ہیں اور ایسا تاثر پیدا کر دیتے ہیں کہ ملک لٹ
رہا ہے اور فوج خاموش ہے یہ ہی پریشر فوج کے اندر بھی پیدا ہونا شروع
ہوجاتا ہے ایک عام فوجی جوان بھی اسی معاشرہ کا حصہ ہوتا ہے جب اس سے اسکے
رشتہ دار جاننے والے سب ایک ہی سوال کرتے ہیں کہ ملک لٹ رہا ہے اور آپ لوگ
کچھ کرتے نہیں تو وہ یہی سوال اپنے افسران بالا سے پوچھتا ہے اور آخر کار
عوام کی طرف سے پیدا ہونے والا پریشر مارشل لا کی صورت اختیار کرجاتا ہے۔
جیسے کہ موجودہ صورتحال کو دیکھیں مسلم لیگ ن کی حکومت کو گرانے کے لیے فوج
کو مختلف طریقوں سے آواز دی جا رہی ہے اگر مان لیا جائے کے تحریک انصاف کا
کہنا کہ چار حلقوں یا دس حلقوں میں دھاندلی ہوئی ہے اور ان دس حلقوں پر
تحریک انصاف کو بلامقابلہ جیت دے دی جائے پھر بھی انکو اکثریت تو حاصل نہیں
ہوسکتی۔اگر ۱یک لاکھ لوگوں یا دو لاکھ لوگوں کے دھرنے نہ ہی اٹھارہ کروڑ
لوگوں کی تقدیر کا فیصلہ کرنا ہے تو آنے والی ہر حکومت ایسے ہی بنا کرے
گی۔ہر سال دو سال بعد کوئی بھی جماعت اپنے لوگوں کو لے جاکر پارلیمنٹ کا
گھیراو کریں گے وہاں جاکر سلطان راہی،مصطفی قریشی کی طرح حکومت کو دھمکیاں
دیں گے اور اپنے لیے حکومت حاصل کرلیں گے۔ اس سے تو بہتر ہے کہ ملک کے
اربوں روپے الیکشن کرانے میں ضائع کرنے سے بہتر ہے کہ ان سیاسی جماعتوں کے
درمیان کرکٹ میچ کی طرح ٹاس کرالیا جائے جو جیتے اسکو حکومت دے دی جائے۔
اس تمام صورتحال سے طالبان کو مختلف کالعدم جماعتوں کو بھی ایک کام کا سبق
حاصل ہو گیا ہوگا کہ ہتھیار اٹھانے سے اچھا ہے اپنے مجاہدین کو ڈنڈے اور
جھنڈے دے کر پارلیمنٹ ہاوس لے جاکر گھیراو کریں تمام سسٹم کو یرغمال بنائیں
اور اپنی مرضی کا نظام زبردستی حاصل کرلیں۔
سیاست دانوں سے اپیل ہے خدارا اپنے مقاصد کے لیے غریب کے بچوں کو قربانی کا
بکرا بنانا چھوڑ دیں۔ اگر آپ کچھ کرسکتے ہیں تو پہلے وہاں کرکے دکھائیں
جہاں جہاں آپکو حکومت حاصل ہے چاہے وہ ایک صوبائی حلقہ ہے یا قومی اسمبلی
کا حلقہ اگر آپ وہاں کوئی تبدیلی لاکر دکھادیں گے تو پورا پاکستان اور
پاکستانی عوام خود آپکو دعاوں میں اور باتوں میں مانگیں گے اور ووٹ کے
زریعے آپکو حاصل کریں گے۔
ہماری بدقسمتی ہے کہ پاکستان کے تقریبا تمام ہی جماعتیں کسی فرقے،یا لسانی
گروپ کے مفادات کو اولیت دیتی ہے جیسے کہ مولانا فصل الرحمان صاحب کی جماعت
ایک خاص فرقے کی نمائندہ ہے اور انکی جماعت میں دوسرے فرقے کے لوگ نظر نہیں
آتے۔عوامی نیشنل پارٹی صرف پختونوں کی نمائندگی کرتی ہے اور اس میں کوئی
دوسری قومیت کے لوگ نظر نہیں آتے یہی حال تقریبا تمام ہی جماعتوں کا ہے ۔
کچھ سیاسی جماعتیں پورے ملک میں اثرورسوخ اور ووٹ بنک رکھتی ہیں مگر اسکے
پیچھے ہے مختلف شہروں علاقوں کے خان،جاگیردار،چوہدری،وڈیرے، ملکی سیاست کے
دعوے کو سچا ثابت کرنے کے لیے کچھ جماعتیں ان خانوں جاگیرداروں وڈیروں سے
مدد حاصل کرتے ہیں انکو اپنے ساتھ ملا لیتے ہیں اور یہ سب بخوبی واقف ہیں
کہ ان وڈیروں جاگیرداروں خانوں کہ علاقوں میں ووٹ لوگوں کو کس کو دینا ہے
اسکا فیصلہ ان ہی جاگیرداروں وڈیروں خانوں سرداروں نے کرنا ہوتا ہے-
اگر آرٹیکل پسند آئے تو اپنے سوشل میڈیا اکاونٹ پر شئیر ضرور کریں |