14اگست کے بعد سے پاکستانی قوم شدیدکوفت میں مبتلا ہے۔
تادم تحریر عمران خان اورطاہرالقادری اپنے ”جنونی کارکنوں“ کے ساتھ
پارلیمنٹ کے سامنے دھرنا دیے بیٹھے ہیں۔ دونوں ”انقلابیوں“ کی جانب سے اپنے
کارکنوں سمیت ریڈزون میں گھسنے اور حکومت کی جانب سے ریڈزون میں نہ گھسنے
دینے کے اعلانات کے بعد خون خرابے کے خدشات بڑھ گئے تھے اور پوری قوم خوف و
پریشانی میں مبتلا تھی، لیکن حکومت نے سمجھداری کا مظاہرہ کیا اور مظاہرین
کی تعداد سے بھی زیادہ الرٹ سیکورٹی اہلکاروں کو گولی چلانے سے روک دیا،
کیونکہ ذرائع کے مطابق وزیراعظم ہاﺅس میں ہونے والے اجلاس میں یہ طے پایا
تھا کہ عمران خان اور طاہر القادری کے ” کارکنوں“ پر گولی نہیں چلانی،
کیونکہ دونوں صاحبان کو ضرورت ہی لاشوں کی ہے، یہ دونوں لاشوں کی سیاست
کرنا چاہتے ہیں اور ہرصورت خون خرابہ کروا کر اپنے مطالبات منوانا چاہتے
تھے۔ وفاقی وزرا کا کہنا تھا کہ تحریک انصاف اور عوامی تحریک نے اپنا ایک
بھی وعدہ پورا نہیں کیا۔ یہ لوگ چاہتے ہیں انہیں کچھ نعشیں ملیں، لیکن ہم
ایسا موقع انہیں فراہم نہیں کریں گے،حکومت طاقت کا استعمال نہیں کرے گی،
ہمارے نزدیک انسانی جانیں زیادہ مقدم ہیں، کوئی تصادم ہوا تو ذمہ دار عمران
خان اور طاہرالقادری ہوں گے۔ عمران خان اور طاہرالقادری اپنا عہد توڑ کر
ریڈ زون میں داخل ہوئے۔ مذاکرات کے لیے پہلے دن سے کوشش کر رہے ہیں، لیکن
یہ بات نہیں کرنا چاہتے۔ جبکہ بدھ کے روز طاہرالقادری نے دھرنے کے دوران
اپنے کارکنوں کو پارلیمنٹ کا گھیراﺅ کرنے کا حکم دیا، جس کے بعد انقلاب
مارچ کے شرکا طاہرالقادری کے حکم پر پارلیمنٹ ہاؤس کے بعد وزیر اعظم ہاؤس
کے قریب پہنچے۔ مردوں اور خواتین نے پارلیمنٹ کا گھیراؤ کیا اور طاہر
القادری نے پارلیمنٹ کو یرغمال بناتے ہوئے کہا کہ جو اسمبلی کے اندر ہے وہ
اندر رہے اور جو باہر ہے وہ باہر رہے۔ جو پارلیمنٹ سے باہر نکلے گا اسے
کارکنوں کی لاشوں سے گزرنا ہوگا۔ جس کے بعد ارکان اسمبلی نے وزیر اعظم کو
کسی بھی صورت میں استعفیٰ نہ دینے کا مشورہ دیا، محمود خان اچکزئی نے اپنی
تقریر میں کہا یہ 20 کروڑ عوام کی نمائندہ پارلیمنٹ ہے ، ہم کسی عوامی
پارلیمنٹ کو نہیں صرف منتخب پارلیمنٹ کو مانتے ہیں۔ یہ بالکل غیر جمہوری و
غیر آئینی و غیر قانونی طریقہ ہے، ہمیں کوئی بھی پارلیمنٹ میں آنے سے نہیں
روک سکتا، اگر کوئی پارلیمنٹ میں داخل ہوا تو ہماری لاشوں پر سے گزرے گا،
کسی صورت جمہوریت کو نقصان نہیں ہونے دیں گے، عمران خان اور طاہر القادری
غیر آئینی و غیر قانونی طریقہ اختیار کیے ہوئے ہیں، پارلیمنٹ چند ہزار
لوگوں کی جاگیر نہیں ہے، بلکہ کروڑوں پاکستانیوں کی امانت ہے، اگر آج دونوں
نے چند ہزار لوگوں کو جمع کر کے پارلیمنٹ کو یرغمال بنایا ہے تو ہم بھی
کراچی سے کوئٹہ تک شہر شہر میں جلسے جلوس نکال سکتے ہیں۔ جے یو آئی (ف) کے
سربراہ مولانا فضل الرحمن کا کہنا تھا کہ تمام سیاسی جماعتیں اور پارلیمنٹ
آئین کے تحفظ پر متفق ہیں۔ ہم نے جمہوریت کی بقا کے لیے قربانیاں دی ہیں۔
وزیر اعظم واضح طور پر اعلان کریں کہ وہ استعفیٰ نہیں دیں گے۔ شازیہ مری کا
کہنا تھا کہ طاہر القادری نظام کے خلاف بغاوت اور ریاست سے لڑ رہے ہیں۔
دوسری جانب عمران خان کا یہ اعلان تھا کہ نوازشریف اگر شام آٹھ بجے تک
مستعفی نہیں ہوتے تو پارلیمنٹ میں گھس جاﺅں گا، ہمیں نہ پولیس روک سکتی ہے
اور نہ ہی فوج روک سکتی ہے، کارکن میرے بس میں نہیں رہیں گے۔اس کے ساتھ ہی
عمران خان نے بدھ کے روز دوپہر سوا تین بجے اپنے ایک ٹوئیٹر پیغام میں
کارکنوں کو شام تک ڈی چوک پر پہنچ جانے کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ آج رات ڈی
چوک پر آزدی کا جشن منائیں گے، چاہتا ہوں کہ پاکستانی عوام تمام رکاوٹیں
توڑ کر وفاقی دارالحکومت پہنچ جائے۔ پولیس کو خبر دار کرتا ہوں کہ ہمارے
گرفتار لوگوں کو چھوڑ دے، ورنہ ہم انھیں اپنے کارکنوں کو غیر قانونی طور پر
حراست میں لینے پر سخت سزا دیں گے۔ جبکہ تحریر لکھے جانے کے وقت تحریک
انصاف نے حکومت کے ساتھ فوری طور پر مذاکرات کرنے سے انکار کیا ہے،اس سے
پہلے شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ ہم حکومت سے مذاکرات کے لیے کل بھی
تیار تھے اور آج بھی تیار ہیں، لیکن یہ مذاکرات وزیراعظم کے استعفے سے
مشروط ہیں، وزیر اعظم کے استعفے کے بعد ہی کوئی بات ہوسکتی ہے اور عمران
خان کا کہنا تھا کہ مذاکرات ہوسکتے ہیں،پہلے نواز شریف استعفیٰ دیں اور
استعفے کے بعد سپریم کورٹ بات چیت کی ضمانت دے۔ جبکہ ذرائع کا کہنا ہے کہ
وزیراعظم کسی صورت بھی استعفیٰ دینے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ دوسری جانب طاہر
القادری نے مذاکرات پر آمادگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ مذاکرات کا
حامی ہوں، حکومت سمیت کسی کے ساتھ مذاکرات سے انکار نہیں کیا، لیکن ابھی تک
حکومتی وفد بات چیت کے لیے نہیں آیا۔ تجزیہ کاروں کا کہنا تھا کہ اگر دونوں
لیڈر مذاکرات کر کے معاملات حل کر لیتے ہیں تو یہی ملک کے مفاد میں ہیں،
لیکن دونوں کے مارچوں کا مقصد کچھ اور ہی تھا، دونوں لیڈروں نے جان بوجھ
کرتشدد کی راہ اپنائی ہے، تاکہ کارکنوں کے اشتعال کے رد عمل میں سیکورٹی
اہلکار بھی مشتعل ہوکر خون خرابہ کریں، جس سے مزید انتشار پھیلے اور ان کی
سیاست کو چارچاند لگ جائیں، کیونکہ ہمیشہ سیاسی لیڈر اپنی کامیابی کے لیے
کارکنوں کی لاشوں کے محتاج رہتے ہیں۔ انہیں ہر حال میں اپنے کارکنوں کی
لاشیں چاہیے ہوتی ہیں اور کارکن تو اپنے لیڈر کی عقیدت میں اندھے ہوتے ہیں،
جنہیں لیڈر نے تیار ہی اپنے لیے استعمال کرنے کے لیے کیا ہوتا ہے۔ جیسے
ماڈل ٹاﺅن کی لاشوں نے طاہر القادری کی غیر جمہوری سیاست کو میڈیا میں زندہ
رکھا ہوا ہے۔ دونوں لیڈروں کے دست راست شیخ رشید نے تو بدھ کے روز بھی
لاشوں کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ اگر ایک لاش گری تو پھر بہت زیادہ لاشیں
گریں گی اور اسی طرح وہ پندرہ اگست کو بھی گجرات میں ہلکے پھلکے تصادم کے
بعد یہ کہہ چکے ہیں کہ حکومت نے خانہ جنگی کی ابتدا کر دی ہے۔ مبصرین کے
مطابق خدا نخواستہ اگر دونوں رہنما اپنے مقصد میں کامیاب ہوجاتے، تو ملک
میں خانہ جنگی کا خطرہ ہے، کیونکہ لاشوں کا یہ سلسلہ کسی ایک شہر تک رکنے
والا نہیں، بلکہ جہاں ان دونوں جماعتوں کے کارکن ملک بھر میں ہیں، وہیں
حکمران جماعت کے کارکن بھی ملک بھر میں ہیں، یہ تصادم ملک کو کسی بڑے بحران
سے دوچار کرسکتا ہے۔ ملک دشمن تو چاہتے ہی یہ ہیں کہ کسی طرح پاکستان کو
بھی عراق و شام کی طرح بنا کر دم لیں۔ لہٰذا دونوں رہنماﺅں کا رویہ نہ صرف
غیر جمہوری و غیر آئینی ہے، بلکہ سراسر غیر سنجیدہ بھی ہے، جو ملک کے لیے
نقصان دہ ہے اور تشدد کی اس سیاست کے نتائج خطرناک نکل سکتے ہیں۔
حالات کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے دوسری جانب بدھ کے روز وزیراعلیٰ پنجاب
شہباز شریف سے ملاقات کے دوران جنرل راحیل شریف نے کہا کہ مذاکرات کے ذریعے
جلد از جلد معاملات حل کیے جائیں۔ جبکہ اس سے پہلے پاکستان کی فوج کے
ترجمان میجر جنرل عاصم باجوہ نے کہا تھا کہ موجودہ تعطل میں فریقین کو صبر
تحمل اور تدبر سے کام لینا چاہیے اور معاملات کو وسیع تر قومی اور عوامی
مفاد کے لیے بامقصد مذاکرات کے ذریعے حل کیا جائے۔ ریڈ زون میں واقع
عمارتیں ریاست کی علامت ہیں اور ان عمارتوں کی حفاظت فوج کر رہی ہے۔ جبکہ
امیر جماعت اسلامی سراج الحق کا کہنا تھا کہ اس وقت ملک میں جمہوریت اور
آئین کو شدید خطرہ ہے، سیاستدانوں کی نااہلی کی وجہ سے فیصلے کا مرکز اسلام
آباد کے بجائے راولپنڈی بن گیا ہے۔ سیاستدان جب فیصلوں میں ناکام ہوں
توتیسرے فریق کی جانب دیکھا جاتا ہے۔ دارالحکومت میں موجودہ بحران نے ناصرف
پاکستان اور عالم اسلام بلکہ پوری دنیا کوانتہائی تشویش میں مبتلا کردیا
ہے۔ چند دنوں میں ہماری معیشت، تجارت اور کرنسی بری طرح متاثر ہوئی ہے۔
وزیر دفاع خواجہ آصف کا کہنا ہے کہ اگر اس ملک میں آئین پامال ہوا تو ملک
کی بقاءخطرے میں پڑ جائے گی۔ فوج کی جانب سے ریاستی اداروں کے تحفظ کے
حوالے سے جو بیان سامنے آیا ہے، وہ ایک متوازن بیان ہے، فوج بھی ریاست میں
اسٹیک ہولڈر ہے، ان کے جو بھی فرائض ہیں، وہ انھیں بھرپور طریقے سے ادا کرے
گی۔ وزیراعظم نواز شریف کو کروڑوں لوگوں نے منتخب کیا ہے، انھیں اراکین
پارلیمنٹ کی اکثریت نے منتخب کیا ہے، چند ہزار لوگوں کی خواہش پر وزیراعظم
نواز شریف قطعی طور پر استعفیٰ نہیں دیں گے، تمام سیاسی جماعتوں نے
وزیراعظم پر اعتماد کا اظہار کیا ہے اور اس بات کا یقین دلایا ہے کہ کسی کو
بھی غیر جمہوری طریقے سے وزیراعظم کو ہٹانے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ یہ
جمہوریت کی بقاءکا معاملہ ہے، ادارے اور جمہوریت برقرار رہنے چاہیئیں۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ ملک کی معروضی صورت حال کی روشنی میں ملک کے مستقبل
اور علاقائی مسائل پر توجہ دی جائے تو یہ اندازہ لگانا دشوار نہیں کہ ہرآنے
والا دن ایک مضبوط، مستحکم اور دفاعی لحاظ سے ناقابل شکست پاکستان کی ضرورت
میں اضافہ کرتا جارہا ہے، چنانچہ اتحاد واتفاق اور قومی یکجہتی ہماری اولین
ضرورت ہے اور ملک کو درپیش مسائل کا حل بھی باہمی موافقت، یگانگت اور قومی
مفاد کے لیے وسیع تر تعاون میں مضمر ہے۔ وسیع تر قومی اتحاد اور باہمی
اعتماد اور تعاون کو فروغ دینے کے لیے حکومت، سیاسی جماعتوں، ذرائع ابلاغ
سے وابستہ اداروں، دینی ومذہبی حلقوں اور مسلح افواج اور ان کے ذیلی اداروں
کو قومی مقاصد کو پیش نظر رکھنا چاہیے۔ پاکستان اس وقت کسی بھی قسم کے
انتشار اور سیاسی عدم استحکام کا متحمل نہیں ہے۔ چھوٹے چھوٹے سیاسی
اختلافات کے لیے ملک کے سارے نظام کو مفلوج کرنے کی سیاسی روایت ملک و قوم
کے مفاد میں ہر گز نہیں ہے۔ قوم کو ایسے عناصر سے ہوشیار رہنا چاہیے جو
تاریخ کے اس نازک موڑ پر قومی وحدت اور ملکی سلامتی میں رخنہ ڈالنے کی کوشش
کر رہے ہیں اور سیاست میں تشدد، بدزبانی اور دھونس دھمکی کے کلچر کو فروغ
دے رہے ہیں۔ |