پاکستان کا دارلخلافہ اسلام آباد آجکل سیاسی آمجگاہ بنا
ہوا ہے ، ایک جانب عمران خان کی سیاسی جماعت پاکستان تحریک انصاف کا آزادی
مارچ تو دوسری جانب ڈاکٹر طاہر القادری کی سیاسی جماعت پاکستان عوامی تحریک
کا آزادی انقلاب۔سیاسی موسم انتہائی گرم اور جوش و جذبہ سے بھرپور ہے ۔ہزاروںکے
لگھ بگھ دونوں جماعتوں کے کارکنان اسلا م آباد میں جمع ہیں۔ ان دونوں
جماعتوں کی ریلیاں چودہ اگست کی شب لاہور سے اسلام آباد روانہ ہوئیں، میڈیا
نے براہ راست شب و روز اس کاروان کو اپنی خصوصی نشریات میں پیش کیا۔
مذاکرات کا سلسلہ جاری ہے لیکن تا حال نتیجہ اخذ نہیں ہوا کیونکہ پی ٹی آئی
اور پی ٹی اے کی جانب سے سب سے پہلا مطالبہ ہی نواز شریف کا استعفیٰ ہے
جبکہ حکومتی جماعتوں کی جانب سے اس مطالبہ کو رد کیا جارہا ہے کیونکہ
موجودہ حکومت کا موقف ہے کہ اگر یہ روایت قائم ہوگئی تو آئندہ کیلئے تمام
سیاسی جماعتوں کو جمہوری امور میں ہمیشہ پریشانی کا سامنا کرنا پڑیگا دوسری
جانب احتجاج کرنے والوں کا موقف ہے کہ کرپشن کا مکمل خاتمہ کیا جائے اور
اصولی ،جمہوری حکومت کو قائم کیا جائے جس میں ہر ایک پاکستانی کو برابری کے
حقوق میسر آسکیں جس میں قانون کی پاسداری بھی شامل ہے۔افواج پاکستان اس وقت
دہشت گردوں اور ملکی دشمنوں کے خلاف صف پستہ ہوکر آپریشن ضرب عضب میں مصروف
ہے ان حالات میں افواج پاکستان سیاسی انتشار کو مصالحت کے ذریعے ختم کرانے
کیلئے حکومت کو مشورہ بھی دے چکی ہے لیکن مصالحت میں سب سے بڑی رکاوٹ وزیر
اعظم میاں نواز شریف کے استعفیٰ کا مطالبہ ہے حکومت کی جانب سے اس مطالبہ
کے علاوہ تمام مطالبات پر بات چیت کاعندیہ دیا ہے لیکن احتجاجی جماعتوں نے
اپنے عزائم اور مقصد کو شروع دن سے ہی نواز شریف کے استعفیٰ کو اولین درجہ
پر رکھا تھا اس لیئے اس مطالبہ سے دستبرداری ان کی سیاسی موقت کے مترادف بن
چکی ہے اب حکومت اور احتجاج کرنے والی جماعتوں کے مابین نہ صرف انا کا مسلہ
پیدا ہوگیا ہے بلکہ سیاسی مستقبل بھی داﺅ پر لگادیا گیا ہے ۔ ثالثی جماعتوں
میں متحدہ قومی موومنٹ، جماعت اسلامی ، پاکستان پیپلز پارٹی اور دیگر
جماعتوں کی کوشش ہے کہاس سنگین مسلہ کو جلد از جلد حل کیا جائے تاکہ ملک
میں انارکی پھیلنے سے بچایا جاسکے۔ تجزیہ کار اور ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر
حکومت ابتدا ہی سے اس مسلہ کو سنجیدگی سے لے لیتی تو آج یہ سنگینی نوعیت
اختیار نہ کرتا بحرحال اس سیاسی بے چینی، سیاسی انتشار، سیاسی ہنگامی صورت
حال کو قابو کرنا نہ صرف حکومتی جماعتوں بلکہ اپوزیشن کو بحی اپنا مثبت
کردار ادا کرنا پڑیگا اس کیلئے حکومتی جماعتوں کو بہت مدلل، احتیاط،
بردباری اور نرم گوشہ اختیار کرتے ہوئے احتجاجی جماعتوں کے غم و غصے کو کم
کرنا پڑیگا اور ماڈل ٹاﺅن میں پیش آنے والے واقعات پر غیر جانبدار جو ڈیشل
کمیشن بناکر تحقیقات کرکے ذمہ دار افراد کو کٹہرے میں لانا پڑیگاتاکہ ریاست
پاکستان میں آئین کے تحت قانون کی پاسداری کرتے ہوئے آئین اور قانون کا
اہمیت دینے کا ثبوت پیش کرسکے اور نظام ریاست کو ری فرم کرتے ہوئے پولیس،
انتظامیہ مین پیوست کرپشن کا خاتمہ لازم و ملزوم بنایا جائے تاکہ پھر اس
طرح کے واقعات دوبارہ جنم نہ لے سکیں اور حکمران، سیاسی لیڈران پولیس اور
انتظامیہ کو اپنی ذات اور اقتدار کیلئے سیڑھی نہ بنا سکیں۔ مذاکراتی حالات
اس بات کی نشادہی کرتے ہیں کہ سب سے پہلے وزیر اعظم اپنا استعفیٰ دے دیں
لیکن شائد یہ ممکن نہ ہو تو پھر دوسرا راستہ صدر پاکستان کا ہوگا جس میں
اسمبلیاں کا خاتمہ بھی شامل ہوسکتا ہے اور آخری راستہ افواج پاکستان کو ملک
کی باگ ڈور سنبھالنا، لیکن تمام سیاسی جماعتوں کا موقف اس سلسلے میں یکساں
ہے کہ اب ملک کسی بھی مارشل لاءکا متحمل نہیں ہوسکتا اسی لیئے پاکستان
تحریک انصاف اور پاکستان عوامی اتحاد بھی نہیں چاہتی کہ ملک میں مارشل
لاءآئے ۔ اب یہ کہنا بجا ہونا کہ اسلام آباد سیاسی گردش میں ہے اور اس
سیاسی گردش کو ختم نہ کیا گیا تو سیاسی بھونچال آنے کا خدشہ ہے ، سیاسی
بھونچال سب کو بہہ دیگا۔ اب وقت ہی بتائے گا کہ تمام سیاسی قوتیں کس طرح
سیاسی تدبر، مدبرانہ انداذ سے اسلام ٓباد کع سیاسی گردش سے باہر نکالتی ہیں
اگر کامیاب ہوئے تو آئندہ کیلئے مثبت ثابت ہوگا بصورت پاکستان مین جمہوری و
سیاسی نظام ناکام قرار دیا جائیگا اور مسقبل میں پھر کسی جماعت کو مکمل
طاقت میسر نہیں کی جائے گی کہ وہ اپنی طاقت اور اقتدار کے نشے میں ریاست
پاکستان میں اس طرح کے دوبارہ حالات پیدا کرسکیں۔ |